سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) نماز استخارہ حدیث سے ثابت ہے؟

  • 13849
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1539

سوال

(75) نماز استخارہ حدیث سے ثابت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربان حسین لیڈز سے تحریر کرتے ہیں نماز استخارہ کا صحیح طریقہ کیا ہے اور اس کے ذریعے صحیح کام کے کرنے کے اشارے کس طرح ملتے ہیں ؟ شریعت کی روشنی میں جواب شائع کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز استخارہ حدیث سے باقاعدہ ثابت ہے اور یہ نماز ممنوعہ اوقات کے علاوہ کسی وقت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ اس کی دو رکعت ہیں۔ دوسری نمازوں کی طرح ہی یہ رکعت ادا کی جائے گی۔

بخاری شریف میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے ۔ وہ فرماتے ہیں

کان رسول اللہ ﷺ یعلمنا الا ستخاره فی الامور کلها کما یعلمنا السورة من القرآن یقوم اذا هم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة ثم لیقل: اللهم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقرتک واسألک من فضلک العظیم فانک تقدر ولا اقدر و تعلم ولا اعلم وانت علام الغیوب اللهم ان کنت تعلم ان هذا المر خیر لی فی دینی و معاشی و عاقة امری فاقدره لی و یسره لی ثم تبارک لي فیه وان کنت العلم ان هذا المر شرلی فی دینی و معاشی و عاقبة امری فاصرفه عنی واصرفنی عنه واقدر لی الخیر حیث کان ثم اارضنی به۔ (فتح الباري ج ۱۲ کتاب الدعاء عندالاستخاره ص ۴۷۶ رقم الحدیث ۶۳۸۲)

یعنی رسول اکرمﷺ ہمیں استخارہ کا طریقہ اس طرح سکھاتے جس طرح قرآن کی کسی سورت کی تعلیم دیتےاور آپ فرماتے جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نماز ادا کرے جو فرض نماز کے علاوہ ہوگی۔ پھر وہ یہ دعا پڑھے‘(دعا کے الفاظ پہلے گزرچکے ہیں) جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’اے اللہ میں تیرے علم کی وجہ سے تجھ سے نیکی طلب کررہا ہوں اور تیری قدرت کی وجہ سے تجھ سے طاقت کا سوال کرتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا خواستگار ہوں کیونکہ تو قدرت والا ہے ’ میں کمزور ہوں اور اس لئے کہ تو جاننے والا ہے میں بے خبر ہوں اور تو چھپے ہوئے معاملات کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ اگر تیرے علم کے مطابق اس کام میں میرے لئے خود بھلائی ہو میرے دین کے لحاظ سے میری معیشت میں اور انجام کار کے طور پر تو پھر اس کام کو میرے لئے آسان کردے اور مجھے اسےکرنے کی قدرت عطاکر اور وہ کام میرے لئے مبارک ہو۔ اور اگر تیرے علم میں اس کام کے کرنے سے میرے دین میری معیشت میں برائی ہے اور انجام کار اس میں شر ہے تو پھر مجھے اس کام سے دور رکھ اور اس کام کو مجھ سے دور کردے اور جہاں بھی کوئی خیروبھلائی ہے اسے میرے لئے پسند فرمادے اور اس کے کرنے کی مجھے توفیق عطا فرمادے۔‘‘

اس دعا کے بعد اس کے سینے میں انشراح پیدا ہوگا اور دل ودماغ میں اس کام کے کرنے یا نہ کرنے کی رغبت پیدا ہوگی جس طرف غالب رحجان ہو اس پر اللہ کا نام لے کر اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کردے۔ دراصل یہ طبیعت میں اس دعا کے بعد ایک رحجان یا رغبت پیدا ہونے کا نام ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد کوئی خواب آتا ہے یا خاص اشارہ ہوتا ہے اس کاکوئی ثبوت و اصل نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص194

محدث فتویٰ

تبصرے