السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بوڈلویڈا سے ڈاکٹر صلاح الدین لکھتے ہیں
(۱)بہت سے جاء نمازوں پر مکہ مکرمہ’مدینہ منورہ اور بیت المقدس کی تصویر بنی ہوتی ہے اور ان تصویروں پر پیر پڑجاتا ہے جس سے ان کی بے حرمتی ہوتی ہے یا نہیں؟
اگر جان بوجھ کر آدمی پیر ڈال دیتا ہے تو کیا گناہ ہوتا؟ اسی طرح ڈاک کےٹکٹوں پر کعبہ کی تصویر بنی ہوتی ہے جسے ہم ادھر ادھر ڈال دیتے ہیں تو کی اس کا گناہ ہوگا؟ اسی طرح ڈاک کے ٹکٹوں پر کعبہ کہ تصویر بنی ہوتی ہے جسے ہم ادھر ادھر ڈال دیتے ہیں تو کیا اس کا گناہ ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) پہلا سوال جاءنمازوں اور ڈاک کے ٹکٹوں پر مقامات مقدسہ کی تصویروں اور ان کے احترام سے متعلق ہے اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ان تینوں مقامات مقدسہ (بیت اللہ‘ مسجد نبویﷺ اور مسجد اقصیٰ) کا ادب و احترام نہ صرف یہ کہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کے ایمان کا جز ہے اور پھر نبی کریمﷺ نے ان تینوں کے مقام اور ان میں عبادت کی فضیلت بھی بیان فرمادی ہے۔
دوسری بات یہ جاننا ضروری ہے کہ اصل اور تصویر میں بہرحال فرق ہے جو کام اصل سے لیا جاسکتا ہے وہ تصویر سے نہیں لیا جاسکتا۔ اس لئے دونوں کے مقام میں بہرحال فرق ہوگا۔ لیکن چونکہ مسلمانوں کے نزدیک یہ انتہائی محترم مقامات ہیں اس لئے ان کی تصویر بھی ان کے لئے عقیدت و محبت کی چیز ہے اور ظاہر ہے اگر کوئی شخص نے حرمتی اور بے ادبی کی نیت سے ان تصویروں کی اہانت کرے گا تو یقینا ً مجرم ہوگا۔مثلا کوئی انہیں پھاڑ کر پاؤں تلے روندتا ہے یا پھر ان پر تھوکتا ہے یا انہیں گندی جگہ پھینک دیتا ہے تو ہرگز جائز نہیں ہوگا۔
تیسری بات ہے ان تصویروں پر پاؤں رکھنے کی تو اگر کوئی شخص توہین کی نیت سے انہیں پاؤں تلے روندتا ہے تو وہ یقیناً مجرم ہوگا۔ لیکن نماز کے لئے ان پر کھڑے ہونے کو توہین نہیں قرار دیاجا سکتا۔ جب ہم ان اصل جگہوں پر جاتے ہیں تو وہاں ظاہر ہے پاؤں رکھتے ہیں’ ان کے اوپر چلتے ہیں۔ حتیٰ کہ بیت اللہ شریف کی چھت پر چڑھنا صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ پاؤں رکھے جاتے ہیں مگر اسے بے ادبی یا ناجائز قرار نہیں دیا جاتا۔ہاں جس بات کا جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ قرآن وسنت کی روشنی میں نماز کے لئے ان پر کھڑے ہونا یا پاؤں رکھنے کی تو بے ادبی گناہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ لیکن اس کے دوسرے بعض پہلو ضرور قابل غور ہیں:
ایک یہ کہ اگر ایک آدمی نماز پڑھتے وقت اس اندیشے میں مبتلا رہتا ہے کہ میں شاید ان مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کا ارتکاب کررہا ہوں شاید میں گناہ کررہا ہوں تو ظاہر ہے یہ بات نماز سے اس کی توجہ ہٹانے کا باعث بنے گی ۔ لہٰذا ایسے آدمی کے لئے ان جاءنمازوں کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ان تصویر کو دیکھ کر ان میں ہی گم ہوجاتا ہے یا ان کے معیار اور فن کے بارے میں سوچنے لگ جاتا ہے اور نماز سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے تو ایسے شخص کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ ان پر کھڑے ہو کر نماز ادا کرے ’ اس سلسلے میں بخاری شریف کی یہ حدیث واضح دلیل ہے:
عن انس قال کان قرام لعائشة سرت به جانب بیتها فقال لها النبی ﷺ امیطی عنی فانه لا تذال تصاویره تعرض لي في صلاتي (فتح الباري ج۱۱ کتاب اللباس باب کراهة الصلاة فی التصاور رقم الحدیث ۵۹۵۹ ص ۵۹۲ وج۲ کتاب الصلاة باب ان صلي في ثواب مصلب او تصاویر رقم الحدیث ۳۷۴)
’’حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کے گھر کے ایک حصے میں پردہ تھا جس کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے ان سے کہا کہ اسے میرے آگے سے ہٹادو کیوں کہ اس کی تصویریں میری نماز کے دوران میرے سامنے آجاتی ہیں۔‘‘ (فتح الباری ’ جلد اول ’ص۳۹۱)
اب ظاہر ہے کہ یہ جاندار جانوروں کی تصاویر نہیں تھی بلکہ عام نقش ونگار تھے کیوں کہ جانداروں کی تصاویر تو نماز کے علاوہ بھی آپﷺ نے گھروں میں لٹکانے کی اجازت نہیں دی ۔بلکہ ان تصویروں کو اس لئے آگے سے ہٹانے کا حکم فرمایا کہ نماز میں خلل ہورہا تھا۔ اس لئے اگر نماز میں خلل واقع ہوتا تو پھر مصلے ہوں یا پردے وہ پاؤں کے نیچے ہوں یا سامنے ہوں ان کا استعمال درست نہیں ہوگا۔
ڈاک کے ٹکٹوں پر ان تصویروں کو بھی بے حرمتی سے ادھر ادھر نہیں پھینکنا چاہئے اور حتی الامکان ان کا احترام کرناچاہئے یا جلا کر ان کی راکھ دفن کردینی چاہئے‘ زیادہ بہتر اور احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب