سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(185) وضوء میں محل داڑھی کا دھونا فرض ہے یا نہیں

  • 1383
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3351

سوال

(185) وضوء میں محل داڑھی کا دھونا فرض ہے یا نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تمام منہ کا دھونا فرض ہے جیساکہ قرآن مجید میں ہے جب تمام منہ کا دھونا فرض ہوا تو ڈاڑھی والے کو (خواہ خفیف ڈاڑھی رکھتا ہو یا درمیانی یا بڑی) محل ڈاڑھی کا دھونا فرض ہے یا نہیں (یعنی بالوں کی جڑ کا) حدیث میں خلال لحیہ کا حکم آیا ہے اور ترمذی وغیرہ اور شروح اس کی  سے ثابت ہوتا ہے کہ خلال لحیہ مستحب ہے او ریہی قول راجح ہے تو ظاہر ہے کہ خلال سے محل لحیہ تر نہیں ہوتا بلکہ بھیگتا بھی نہیں ابوداؤد کی روایت میں ہے «اخذ کفا من ماء فادخله تحت حنکه فخلل به لحيته» اس حدیث سے لحیہ کے خلال کے لیے صرف ایک چلو آیا ہے اور ایک چلو سے مسح لحیہ کا ہوجائے گا۔ مگر لحیہ کا محل تر نہیں ہوگا۔ بخاری میں ابن عباس کی روایت سے آیا ہے«ثم اخذ غرفة من ماء فجعل بها هکذا اضافها الی يده الا خریٰ فغسل بها وجهه» تو یہاں صرف ایک چلو سے منہ دھویا ہے او رایک چلو منہ اور خلال کے لیے کافی نہیں ان  حدیثوں سے تو معلوم ہوتا ہے  کہ لحیہ خواہ چھوٹی رکھتا ہو یا بڑی مسح لحیہ اور خلال لحیہ کا کافی ہے نہ کہ محل لحیہ او ربالوں کی جڑ کا تر کرنا اور چمڑہ منہ تمام کا دھونا عورت اور بے ریش پر فرض ہے۔ لحیہ والے پر لحیہ کا محل تر کرنا او ربھگونا فرض نہیں۔ صرف مسح اور خلال کافی ہے خواہ محل لیہ خشک رہ جائے اور لحیہ بھی بیچ میں سے خشک رہ جائے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ خفیف ڈاڑھی والے پر تمام منہ کا دھونا فرض ہے او رلحیہ کے اندر سے چمڑے کا تر کرنا فرض ہے سو ان کا یہ قول بھی مذکورہ بالا حدیثوں کے خلاف معلوم ہوتا ہے بلکہ خفیف لحیہ ہو تو بھی مسح اور خلال کافی ہے بندہ کے ناقص خیال میں تو یہی آیا ہے آپ کی جو تحقیق ہو اس مسئلہ میں ظاہر فرما دیں۔

اور شرح وقایہ مع حاشیہ عمدۃ الرعایہ میں جو لکھا ہے:

«وامن اللحية فعند ابی حنيفة مسح ربعها فرض لانه لما سقط غسل ما تحتها من البشرة صار کاالرأس» عمدۃ الرعایہ میں ہے «حاصله انه قد قسط غسل ماتحت اللحية من بشرة الوجه بعد ما کان فرضا قبل نبات اللحية وهذا بالاجماع کالرأس۔» یعنی قبل نبات لحیہ کے جس جگہ کا دھونا فرض تھا اب بعد لحیہ آنے کے اس محل کا دھونا گر گیا او رمعاف ہوگیا او ریہ ساتھ اجماع کے ہے آیا یہ عبارت اپنے معنی میں آپ صحیح جانتے ہیں یا نہیں او رجو لکھا ہے«سقط غسل ماتحتها» اس کا ساقط کرنے والا کون سا ہے پھر لکھا ہے« هٰذا بالاجماع» اس اجماع سے کیا مراد ہے کن لوگوں کا اجماع ہے او راس عبارت کا مطلب حدیث کے موافق ہے یا مخالف او رجس حدیث کے موافق یا مخالف یہ عبارت ہو تحریر کردیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ڈاڑھی کی حد: مجمع البحار میں ہے:

«حد الوجه مادون منابت الشعر معتادا الی الاذنين واللحيين والذقن واحترز بالمعتاد عن الصلح وادخل به الفم واللحيان والذقن واحد فهو تاکيد انتهیٰ»

یعنی چہرے کی حد عادتاً بالوں کی اُگنے کی جگہ سے دونوں کانوں تک او رنیچے کے جباڑے اور ٹھوڑی تک اور عادتاً کی قید سے پیشانی کے اڑے ہوئے بال نکل گئے او راس کے ساتھ منہ کو داخل کیا او رنیچے کا جباڑہ اور ٹھوڑی (سے مراد اس محل میں) ایک ہی ہے پس وہ تاکید ہے۔

منجد میں ہے:

«الوجه ما يبدو للناظر من البدن وفيه العينان والانف والفم»

یعنی چہرہ بدن کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو دیکھے والے کے لیے ظاہر ہوتا ہے او راس میں آنکھیں ناک منہ ہے۔

تفسیر خازن میں آیہ وضوء:

«ياايها الذين اٰمنوا اذا قمتم» کی تفیسر میں  ہے «واما حد الوجه فمن منابت شعر الراس الیٰ منتهیٰ الذقن طولا ومن الاذن عرضا لانه ماخوذ من المواجهة فيجب غسل جميع الوجه فی الوضوء ويجب ايصال الماء الی ماتحت الحاجبين واهد اب العينين والعذارين والشارب والعنفقة وانکانت کثة واما اللحية فان کانت کثة لا تری البشرة من تحتها لا يجب غسل ما تحتها ويجب غسل ما تحت اللحية الخفيفة وهل يجب امرار الماء علیٰ ظاهر ما نزل من اللحية عن الذقن فيه قولان احدهما وبه قال ابوحنيفة لا يجب لان الشعر النازل لايکون حکمه حکم الراس فی المسح فکذٰلک حکم الشعر النازل عن حد الوجه لا يجب غسله والقول الثانی يجب امرار الماء علیٰ ظاهره لان الوجه ماخوذ من المواجهة فتدخل جميع اللحية فی حکم الوجه۔ انتهیٰ»

یعنی چہرے کی حد سر کے بالوں کے اُگنے کی جگہ سے انتہا ٹھوڑی تک طول میں او رکان سے کان تک عرض میں کیونکہ وجہ مواجہہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آمنے سامنے ہونے کے ہیں پس وضوء میں سارے چہرے کا دھونا واجب ہوگا نیز ابرؤوں پلکوں رخساروں لبوں اور بچہ ڈاڑھی کے بالوں کے نیچے پانی پہنچانا واجب ہوگا۔ اگرچہ بال بھاری ہوں۔

ڈاڑھی گھنی ہو: ہاں ڈاڑھی اگر اتنی بھاری ہو کہ نیچے کا چمڑا دکھائی نہ دے تو چمڑے کا دھونا واجب نہیں۔ اگر ڈاڑھی ہلکی ہو تو واجب ہے اور ڈاڑھی کا جتنا حصہ ٹھوڑی سےنیچے لٹکتا ہے اس میں اختلاف ہے ایک قول ہے کہ واجب نہیں او راسی کے امام ابوحنیفہ قائل ہیں۔ کیونکہ سر کے بالوں سے جو نیچے لٹکتے ہیں جب ان پر مسح واجب نہیں تو چہرے سے نیچے جو بال لٹکتے ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے اور دوسرا قول ہے کہ واجب ہے کیونکہ وجہ مواجہۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آمنے سامنے ہونے کے ہیں۔ پس ساری ڈاڑھی چہرے کے حکم میں ہوجائے گی۔

ڈاڑھی کا لٹکا ہوا حصّہ: منتقیٰ میں ہے۔« باب غسل المسترسل من اللحية» یعنی جو حصّہ ڈاڑھی کا لٹکا ہوا ہے اس کے دھونے کا باب  پھر اس میں مسلم کی حدیث ذکر کی ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں:

«ثم اذا غسل وجهه کما امره الله لاخرت خطا یا وجهه من اطراف لحیته مع الماء »

’’یعنی جب چہرہ دھوتا ہے جیسا اللہ نے اس کو حکم دیا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ ڈاڑھی کے اطراف سے پانی کے ساتھ گر جاتے ہیں۔‘‘

نیل الاوطار جلد1 ص143 میں اس حدیث پر لکھتے ہیں:

«وقد ساق المصنف رحمه الله تعالیٰ الحديث للاستدلال به علیٰ غسل المسترسل من اللحية لقوله فيه ااخرت خطايا وجهه من اطراف لحیة مع الماء»

’’یعنی صاحب منتقیٰ نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہےکہ ڈاڑھی کا لٹکا ہوا حصہ دھونا واجب ہے ۔ کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاڑھی کے اطراف وجہ میں شامل ہیں۔‘‘

اس کے بعد صاحب منتقیٰ نے دوسرا باب باندھا ہے« باب فی ان ایصال الماء الی باطن اللحیة الکثة لا یجب» یعنی بھاری ڈاڑھی کی جڑوں تک پانی پہنچانا واجب نہیں او راس میں بخاری کے حوالہ سے ابن عباسؓ کی وہی روایت ذکر  کی ہے جو سوال میں ہے نیل الاوطار میں اس پر لکھا ہے «والحدیث ساقه المصنف للاستدلال به علیٰ عدم وجوب ایصال الماء الیٰ باطن اللحیة فقال وقد علم انه صلی الله علیه وآله وسلم کان کث اللحیة وان الغرفة الواحدة وان عظمت لا تکفی غسل باطن اللحیة الکثۃ مع غسل جمیع الوجه فعلم انه لا یجب ۔ انتهیٰ»

’’یعنی اس حدیث سے مصنف نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ ڈاڑھی کا اندر دھونا واجب نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ڈاڑھی بھاری تھی اور ظاہر ہے کہ ایک چُلّو اس کے لیے مع باقی چہرے کے کافی نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ اندر پانی پہنچانا واجب نہیں۔‘‘

ہلکی ڈاڑھی کے اندر پانی پہنچانا واجب ہے: تفسیر کبیر جلد 3 ص369 آیت وضو کی تفسیر میں لکھا ہے:

«المسئلة السادسة والعشرون» قال الشافعی یجب ایصال الماء الیٰ ماتحت اللحية الخفیفة وقال ابوحنیفة لا یجب لنا ان قوله تعالیٰ فاغسلو اوجوهکم یوجب غسل الوجه والوجه اسم للجلدة الممتدة من الجهة الی الذقن ترک العمل به عند کثافة اللحیة عملا بقوله ما جعل علیکم فی الدین من حرج وعند خفة اللحیة لم یحصل هذا الحرج فکان الایة والة علیٰ وجوب غسله (المسئلة السابعة والعشرون) هل یجب امرار الماء علیٰ ما نزل من اللحیة عن هذا لوجه وعلی الخارج منها الی الاذنین عررضا للشافعی رحمه الله قولان ( احد هما) انه یجب (والثانی) انه لا یجب وهو قول مالک وابی حنیفة والمزنی حجة الشافعی انا توافقنا علیٰ ان فی اللحیة الکثیفة لا یجب ایصال الماء الیٰ منابت الشعور وهی الجلد وانما اسقطنا هذا التکلیف لانا اقمنا ظاهر اللحیة مقام جلد الوجه فی کونه وجها وا ذا کان ظاهر اللحیةیسمی وجها والوجه یجب غسله بالتمام بدلیل قوله فاغسلوا وجوهکم لزم بحکم هذا الدلیل ایصال الماء الیٰ ظاهر جمیع اللحیة (المسئلة الثامنة والعشرون) لونبت للمرأة لحیة یجب ایصال الماء الیٰ جلدة الوجه وان کانت تلک اللحیة کثیفة وذلک لان ظاهر الاٰیة یدل علیٰ وجوب غسل الوجه والوجه عبارة عن الجلدة الممتدة من مبدأ الجبهة الیٰ منتهی الذقن ترکنا العمل به فی حق الرجال دفعا للحرج ولحیة المرأة نادرة فتبقی علی الاصل واعلم انه یجب ایصال الماء الیٰ ماتحت الشعر الکثیف فی خمسة العنفقة والحاجبان  والشاربان والعذاران واهداب العینین لان قوله فاغسلوا وجوهکم یدل علیٰ وجوب غسل کل جلدة الوجه ترک العمل به فی اللحیة الکثیفة دفعا للحرج وهذه الشعورخفیفة فلا حرج فی ایصال الماء الی الجلدة فوجب ان تبقی علی الاصل۔ انتهیٰ۔»

یعنی امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہلکی داڑھی کے اندر پانی پہنچانا واجب ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کہتےہیں۔ واجب نہیں ہماری دلیل یہ ہے کہ قول اللہ تعالیٰ کا «فاغسلوا وجوهکم» چہرے کے دھونے کو واجب کرتا ہے او رچہرہ اس جلد کا نام ہے جو ماتھے سے ٹھوڑی تک ہے۔ بھاری داڑھی اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اللہ نے دین میں دقّت اور تنگی نہیں کی او رہلکی داڑھی کے داڑھی کے دقّت اور تنگی نہیں پس آیہ کریمہ« فاغسلوا وجوهکم» ہلکی داڑھی کے دھونے کے وجوب پر دلالت کرے گی اور داڑھی کاجو حصہ نیچے لٹکتا ہے اور خط داڑھی سے کانوں تک عرض میں جتنا حصہ ہے ان دونوں پر پانی بہانے کی بابت امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے دو قول ہیں ایک وجوب کا ایک عدم وجوب کا او ریہی (دوسرا) قول امام مالک رحمہ اللہ علیہ ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ او رمزنی کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے (پہلے) قول کی دلیل یہ ہے کہ بھاری داڑھی کی بابت سب کا اتفاق ہے کہ اندر سے چمڑا دھونا واجب نہیں۔ او راس کی وجہ یہ ہےکہ ظاہر داڑھی کا چمڑے کے قائم مقام ہے او رجب ظاہر داڑھی کا چمڑے کا حکم رکھتاہے تو ساری داڑھی کا اُوپر سے دھونا واجب ہوا کیونکہ سارے چہرے کا دھونا واجب ہے اور اگر عورت کو داڑھی نکل آئے تو اس کا اندر سے دھونا ہر صورت میں واجب ہے خواہ بھاری داڑھی ہو کیونکہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چہرے کا دھونا واجب ہے اور چہرا اس چمڑے کا نام ہے جو ماتھے سے انتہا ٹھوڑی تک ہے مردوں کی بابت بھاری داڑھی میں اس پر عمل اس لیے نہیں کہ اس میں دقّت اور تنگی ہے اور عورتوں کی داڑھی شاذو نادر ہے۔ اس لیے عورتوں کی بابت یہ آیت اپنے اصل پر رہے گی او راس بات کو معلوم کرلینا چاہیےکہ پانچ جگہ بھارے بالوں کی جڑوں کو پانا پہنچانا واجب ہے۔ بچہ داڑھی۔ ابرو۔ لبیں۔ رخسارے۔ پلکیں کیونکہ آیہ «فاغسلوا وجوهکم» سارے چہرے کے دھونے پر دلالت کرتی ہے۔ صرف بھاری داڑھی میں اس پر عمل  نہیں اور ان پانچ جگہوں کے بال تھوڑے  ہیں۔ اس لیے ان کی بابت یہ آیت اپنے اصل پر رہے گی۔

تفسیر مظہری ص18 میں اس آیت کے نیچے قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی لکھتے ہیں:

«الوجه اسم لعضو معلوم مشتق من المواجهة وحده من منابت الشعر الیٰ منتهیٰ الذقن طولا وما بین الاذنین عرضا فمن ترک غسل ما بین اللحیة والاذن لم بجز وضوءه عندالائمة الثلاثة خلافا لمالک ویجب ایصال الماء الیٰ ماتحت الحاجبین واهداب العیئین والشارب واما ما تحت اللحیة فان کانت خفیة یری ماتحتها یجب غسله و انکانت کثیفة لا یری البشرة من تحتها یسقط غسل البشرة فیالوضوء کما یسقط مسح الرأس بالشعر النابت علیه والدلیل علیه اجماع الامة وفعل الرسول صلی الله علیه وآله وسلم انه صلی الله علیه وآله وسلم کان یغسل وجهه بغرفة واحدة رواه البخاری من حدیث ابن عباس وکان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کث اللحیة ذکره القاضی عیاض و قرر ذٰلک فی احادیث جماعة من الصحابهباسانید صحیحة فی مسلم من حدیث جابر کان رسول الله علیه وآله وسلم کثیر شعر اللحیة قلت ولا یمکن ایصال الماء بغرفة واحدة الیٰ تحت کل شعرة لمن کان کث اللحیة و یجب غسل ظاهر اللحیة کلها عوضا عن البشرة عند الجمهور کما فی مسح شعر الراس وبه قال ابوحنیفة رحمه الله فی روایة قال فی الظهیریة وعلیہ الفتوی وقال فی البدائع ان ما عدا ھذہ الروایۃ مرجوح عنه وفی روایة عنه یجب مسح ربع اللحیة وفی روایة مسح ثلث اللحیة وفی روایة لا یجب مسح اللحیة ولا غسلها والحجة علیٰ وجوب غسل ظاهر اللحیة کلها ان غسل البشرة سقط بالاجماع و سندالاجماع اما فعل النبی صلی الله علیه  وآله وسلم انه کان یغسل وجهه بغرفة واما القیاس علی سقوط مسح الراس بالشعر النابت علیه ولا شک ان مستند الاجماع نصاکان اوقیاسا یدل علیٰ ان غسل ما تحت اللحیة انما سقط لقیام الشعر مقامه ووجوب غسله بدلاعنه اما القیاس فلان حکم الاصل لیس الاسقوط مسح الراس الیٰ بدل وهو وجوب مسح الشعر فلا بدان یکون سقوط وظیفة الوجه اعنی الغسل ایضاً الیٰ بدل وهووجوب غسل مایستره من اللحیة کیلا یلزم مزیة الفرع علی الاصل واما الحدیث فایضا یدل علیٰ انه صلی الله علیه وآله وسلم کان یغسل وجهه بغرفة ولا شک انه کان یغسل اللحیة فظهران الاجماع منعقد علیٰ قیام اللحیة مقام الوجه و سقوط وظیفة الوجه الیٰ بدل لا بلابدل فثبت بذٰلک ان وظیفة الوجه وهو غسل تمامه ثابت فی بدله وهو اللحیة والله اعلم۔ انتهیٰ۔»

’’یعنی وجہ (چہرہ) ایک مشہور عضو کا نام ہے مواجہہ سے مشتق ہے اس کی حد لمبائی میں بالوں کے اُگنے کی جگہ سے انتہاء ٹھوڑی تک ہے اور چوڑائی میں دونوں کانوں کا درمیان۔ پس جو شخص خط داڑھی سے کان تک چھوڑ دے اس کا وضوء ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جائز  نہیں صرف امام مالک رحمہ اللہ علیہ جواز کے قائل ہیں او رابرؤوں کی جڑوں کو اور پلکوں کو اور لبوں کو پانی پہنچانا واجب ہے اور داڑھی اگر ہلکی ہو کہ نیچے سے چمڑا نظر آتا ہو تو اس کا اندر سے دھونا واجب ہے اور اگر داڑھی بھاری ہو کہ بالوں کے اندر سے چمڑا نظر نہ آتا ہو تو اندر سے دھونا وضو میں گر جائے گا ۔ جیسے سر کا مسح سر کے بالوں کے ساتھ گر جاتا ہے اور دلیل اس پر اجماع امت ہے او رفعل رسول اللہ ﷺ کا ہے کہ آپ ایک چُلّو کے ساتھ چہرہ دھوتے چنانچہ بخاری میں ابن عباس سے روایت کیا ہے اور آپ کی داڑھی بھاری تھی جیسے قاضی عیاض نے جماعت صحابہؓ سے صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور صحیح مسلم میں جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی کے بال بہت تھے  اور ایک چُلّو  کے ساتھ بھاری داڑھی والے کو بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا مشکل ہے ہاں اس کے عوض ظاہر داڑھی کا دھونا جمہور کے نزدیک واجب ہے جیسے سر کے عوض سر کے بالوں کا مسح واجب ہے اور ایک روایت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں۔ ظہیریہ میں کہا ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے اور بدائع میں کہا ہے کہ اس کے علاوہ باقی روایتوں سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے رجوع کیا ہے اور ایک روایت ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے ہے کہ چوتھائی  حصے داڑھی کا مسح واجب ہے او رایک روایت ان سے ہے کہ تہائی داڑھی کا مسح واجب ہے اور ایک روایت ہے کہ نہ داڑھی کا مسح واجب ہے نہ دھونا اور دلیل ظاہر کے تمام دھونے پر یہ ہے کہ اندر دھونا بالاجماع ساقط ہوگیا ہے اور سند اجماع فعل نبیﷺ کا ہے کہ آپ ایک چُلّو کے ساتھ چہرہ دھوتے تھے یا مستند اجماع قیاس کرنا ہے داڑھی کا سر کے مسح پر کہ جیسے سر کا مسح سر کے بالوں کے ساتھ ساقط ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح داڑھی کا اندر سے دھونا اُوپر کے دھونے سے ساقط ہوگیا۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ مسند اجماع خواہ فعل نبی ہو یا قیاس اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بھاری داڑھی کا اندر سے دھونا اس لیے ساقط ہوا ہے کہ ظاہر بالوں کا اندر کے قائم مقام ہے اور ظاہر کا دھونا اندر کے دھونے کے عوض میں ہے اگر مستند اجماع قیاس ہو تو وہ اس لیے دلالت کرتا ہے کہ اصل کا حکم یہی ہے کہ اس میں سر کا مسح ویسے ساقط نہیں ہوا بلکہ عوض کے ساتھ  ساقط ہوا ہے اور وہ عوض سر کے بالوں کا مسح واجب ہونا ہے۔ پس ضروری ہے  کہ فرع میں بغیر عوض کے ساقط ہوجائے تو زیادتی فرع کی اصل پر لازم آئے گی (جو قیاس کی شرائط کے خلاف ہے) اور اگر مستند اجماع حدیث ہو تو وہ اس لیے دلالت کرتی ہے کہ آپ چہرے کو ایک چُلّو سے دھوتے تھے او راس میں شبہ نہیں کہ آپ داڑھی دھوتے تھے پس ظاہر ہوگیا کہ اجماع اس بات پر منعقد ہے کہ داڑھی چہرے کے قائم مقام ہے اور اس بات پر بھی  منعقد ہے کہ چہرے کا دھونا عوض کے ساتھ ہے نہ بغیر عوض کے۔ پس ثابت ہوگیا کہ جیسے سارے چہرے کا دھونا واجب ہے اسی طرح اس کا عوض بھی سارا دھونا واجب ہے۔‘‘

 ان عبارتوں سے کئی باتیں معلوم ہوئیں۔

ایک یہ کہ چہرے کی حد طول میں ماتھے سے انتہا ٹھوڑی تک ہے اور عرض میں ایک کان سے دوسرے کان تک۔

دوسری یہ  کہ بحکم آیہ کریمہ «فاغسلوا وجوهکم »بالاتفاق سارے چہرے کا دھونا واجب ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔

تیسری بات یہ کہ جب داڑھی نکل آئے تو بھاری ہونے کی صورت میں بالاجماع اندر سے دھونا واجب نہیں رہتا۔ مگر یہ  مرد میں ہے عورت میں نہیں کیونکہ عورت کی ڈاڑھی نادر ہے۔« والنادر کالمعدوم» یعنی نادر شئے معدوم کے حکم میں ہے۔

چوتھی بات یہ کہ اس کے ساقط ہونے  پر اجماع امت ہے نہ اجماع ائمہ احناف اور  اس سے شرح وقایہ کی  عبارت میں بھی اجماع سے جو مراد ہے واضح ہوگئی۔

پانچویں بات یہ کہ اس اجماع کا مستند دو شئ ہیں۔ ایک حدیث کہ رسول اللہ ﷺ ایک چُلّو سے چہرہ دھوتے، ہلکی داڑھی تو ایک چُلّو کے ساتھ اندر باہر سے تر ہوسکتی ہے بھاری مشکل ہے دوسرا مستند قیاس ہے کہ سر کا مسح بوجہ بالوں کےگر جاتا ہے اور علت اس کی دفع حرج ہے تو وہی وجہ داڑھی میں بھی ہے اور اگر پگڑی پر مسح کرنے کی حدیث کو دیکھا جائے تو اور سہولت ہوجاتی ہے کیونکہ پگڑی اتار کر مسح کرنے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لیکن پھر بھی رخصت ہے پس داڑھی میں بطریق اولیٰ رخصت ہونی چاہیے کیونکہ اس کے اندر سے دھونے کا حکم ہو تو اس میں بہت وقت ہے۔

چھٹی بات یہ ہے کہ ہلکی داڑھی کی حد بالوں کے اندر سے چمڑا نظر آئے۔ بھاری اس کے خلاف ہے کیونکہ بال چمڑے کا حکم اسی وقت لیں گے جب چمڑے کو ڈھانک لیں۔ اس بناء پر سوال میں جو کہا گیا ہے کہ ہلکی بھی ایک چُلّو کے ساتھ اندر سے تر نہیں ہوتی تو یہ غلطی ہے کیونکہ جب ایسی ہلکی ہو کہ سامنے کھڑے ہوئے آدمی کو اندر کا چمڑہ نظر آئے تو بالوں کی جڑوں میں خاصہ بُعد ہوگا۔ پس اس کا ایک چلّو سے تر ہونا معمولی بات ہے۔

ساتویں بات یہ ہے کہ جب داڑھی کا اندر سے دھونا گر گیاتو ظاہر اس کے قائم مقام ہوگیا پس اس کے عوض ظاہر کا دھونا واجب ہوگا۔ جمہور کا مذہب یہی ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ آیہ کریمہ«فاغسلوا وجوهکم » اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وجہ کا دھونا واجب ہے اور داڑھی وجہ میں داخل ہے اندر کا دھونا دفع حرج کی وجہ سے ساقط ہوگیا۔ پس ظاہر داڑھی کا اپنے اصل پر رہے گا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ مستند اجماع اگر حدیث ہو کہ رسول اللہ ﷺ ایک چلّو سے چہرہ دھوتے تھے۔ تو یہ چہرہ ماتھا ناک منہ ظاہر داڑھی ہی ہوسکتا ہے کیونکہ ایک چلّو سے داڑھی کے اندر تک پانی پہنچانا مشکل ہے اور اگر  مستند اجماع قیاس ہو تو یہ بھی چاہتا  ہے کہ ظاہر کا دھونا واجب ہو کیونکہ  سر کے مسح کے قائم مقام بالوں کا مسح ہے تو داڑھی کے اندر کے قائم مقام بھی کوئی شئ ہونی چاہیے تاکہ فرع کی زیادتی اصل پر لازم نہ آئے کیونکہ بغیر عوض کے گرنا عوض کے ساتھ گرنے سے زیادہ سہولت رکھتا ہے۔

آٹھویں بات یہ کہ داڑھی کا جو حصہ نیچے لٹکتا ہے ۔ اس کا دھونا بھی واجب ہے۔

دلائل: دلائل اس کے تین ہیں۔ ایک یہ کہ وجہ مواجہہ سے ماخوذ ہے پس ساری داڑھی کا حکم وجہ کا ہوگا۔ دوسری دلیل یہ کہ جب ظاہر داڑھی کا اندر کے قائم مقام ہے یعنی اصل میں وجہ تو چمڑے کا نام ہے جو ماتھے سے انتہاء ٹھوڑی تک ہے اب جہاں بال اُگ آئے وہاں ظاہر بالوں کا نام ہوگیا۔ پس بحکم آیہ کریمہ«فاغسلوا وجوهکم » ظاہر ساری داڑھی کا دھونا واجب ہوگا۔ تیسری دلیل یہ کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے حکم کے مطابق چہرہ کو دھوتا ہے تو چہرےکے گناہ داڑھی کی اطراف سے گر جاتے ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ داڑھی بھی وجہ ہے اور دھونے کا حکم جو قرآن میں ہے اس میں وہ داخل ہے اور یہ کہنا کہ سر کے بال جو نیچے لٹکتے ہیں۔ ان پر مسح ضروری نہیں تو داڑھی کے بال جو نیچے لٹکتے ہیں ان کا دھونا کیوں ضروری ہوگا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ نص کے مقابلہ میں قیاس ہے پھر یہ قیاس صحیح بھی نہیں کیونکہ سر کے بال جو نیچے  لٹکتے ہیں ان کے مسح کا حکم تو شرع نے اس لیے نہیں دیا کہ بہت دفعہ ان کا مسح سر کے مسح کے ساتھ مشکل ہے مثلاً عورت آگے سے پیچھے کو ہاتھ لے جائے تو جہاں تک اس کے بال لٹکتے ہیں نہیں لے جاسکتی ہاں بالوں  کو اٹھا لے یا آگے کو کرلے تو مسح کرسکتی ہے مگر سر کےمسح کی کیفیت کے خلاف ہے  بلکہ شرع نے جہاں مسح کا حکم دیا ہے وہاں اس شئ کی بابت اپنے حال پر ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا ہے یہ نہیں فرمایا کہ اس شئ کو وہاں سے ہٹا کر ہاتھ پھیرو کیونکہ  اس صورت میں وہ شئ اس عضو کا حکم نہیں رکھے گی مثلاً پٹی پر مسح موزے پر مسح جرابوں پر مسح ان سب کی صورت یہی ہے پس سر کے مسح کے قائم مقام بھی سر کے بالوں کا مسح اسی حد تک ہوگا جہاں تک سر  کے مسح کی کیفیت نہ بدلے ورنہ وہ سر کا مسح نہیں کہلائے گا۔ برخلاف داڑھی کے کہ اس کا جو حصہ نیچے لٹکتا ہے اس میں دھونے کی کیفیت نہیں بدلتی۔

نویں بات یہ کہ داڑھی کے سوا کسی اور جگہ بال ہوں خواہ ہلکے ہوں یا بھاری ان کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے۔ جیسے ابرو پلکیں لبیں وغیرہ کیونکہ یہ بال تھوڑے ہوتے ہیں او راسی بناء پر عنفقہ (یعنی بچہ داڑھی) کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضر وری ہے حالانکہ وہ داڑھی میں داخل ہے اور جو اسے خارج سمجھتے ہیں ان کی غلطی ہے کیونکہ جو بال نیچے کے چباڑے پر ہیں ان کے داڑھی میں داخل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

دسویں بات یہ کہ جو بال گلے میں گھنڈی پر ہیں۔ وہ وجہ میں داخل نہیں مگر عرفاً چونکہ داڑھی ہی کہلاتے ہیں اور مرد و عورت میں امتیاز ہیں۔ اس لیے  احتیاطاً دھو لینے چاہیئں۔ تلک عشرة کاملة

اجماع خود دلیل ہے: جس مسئلہ پر اجماع امت ہو اس کی بابت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کس دلیل سے ثابت ہے کیونکہ اجماع خود ایک زبردست دلیل ہے ہاں انعقاد اجماع کے لیے کوئی مستند یا داعی کا ہمیں علم ہو یا نہ بہرصورت مسئلہ ماننا پڑے گا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

«لا تجتمع امتی علی الضلالة »’’میری اُمت گمراہ پر جمع نہیں ہوتی‘‘ چنانچہ اس کی زیادہ اور مفصل تحقیق ہمارے رسالہ اہلسنت کی تعریف کے صفحہ 324 لغایت صفحہ 379؍380 میں موجود ہے ۔ پس سوال میں« سقط غسل ماتحتها» لکھ کر جوکہا گیا ہے کہ اس کا مسقط کون ہے یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ آگے بالاجماع پڑا ہے۔ ہاں اگر اس نیت سے کہا گیا ہے کہ اس عبارت میں شاید اجماع سے مراد اجماع ائمہ احناف ہو کیونکہ کتب احناف میں بہت دفعہ اجماع سے مراد اجماع ائمہ احناف ہوتا ہے تو یہ کہنا ٹھیک ہے کیونکہ اجماع ائمہ احناف کوئی دلیل نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

وضو کا بیان، ج1ص263 

محدث فتویٰ

تبصرے