سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) مسجد ضرار کی تعریف کیا ہے؟

  • 13820
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4253

سوال

(50) مسجد ضرار کی تعریف کیا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گلاسٹر سے جناب ابراہیم یوسف رنگونی دریافت کرتے ہیں

(۱)مسجد ضرار کسے کہتے ہیں’ اس کے بنانے والے کون لوگ تھے اور مسجد کیوں جلادی گئی تھی؟

(۲)کسی مسجد یا اسلامی ادارے کا ذمہ دار اپنے ٹرسٹ یا ادارہ کے دستور میں ایسے قوانین درج کرے جو غیر شرعی ہوں’مسلمانوں میں نااتفاقی اور نے چینی پیدا ہو اور بینک سے سودی قرض لے کر مسجد کی عمارت خریدے’مسجد میں شریعت کے مطابق کام نہ ہونے دے بلکہ اخبار میں یہ بیان دے کہ ہمارا ٹرسٹ چاہتا ہے کہ مسجد کو دوسرے مذاہب اور دیگر ادارے والوں کو مفت استعمال کےلئے دیا جائے ۔ ایسی مسجد یا ادارے کا کیا حکم ہے ؟ ایسی مسجد میں جانے سے ایسے ذمہ داروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے تو ایسی مسجد میں نماز باجماعت کے لئے کیا حکم ہے؟

(۳)کسی مسجد یا اسلامی ادارے کی نقد رقم بینک کے سودی اکاونٹ میں رکھ کر سود وصول کرنا کیسا ہے؟ اگر کوئی ایسا کرے تو مقامی مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

(۴)ایک نو مسلم نے مسئلہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے ایک مسجد والوں کو پچاس پونڈ زکوٰۃ دے دی ہے اور یوں سمجھتا ہے کہ میری زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے ۔شرعی مسئلہ اس بارے میں کیا ہے؟ واضح رہے  کہ مسجد والوں کےپاس وہ رقم جمع ہے ابھی تک استعمال نہیں کی۔ کیا وہ مسجد والوں کو واپس ادا کرنی چاہئے یا نہیں۔ اگر وہ یہ رقم مسجد بنانے پر خرچ کردیں تو ایسی مسجد کی کیا حیثیت ہوگی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)قرآن میں جس مسجد ضرار کا ذکر ہے یہ مسجد قبا کے پاس منافقین کے ایک گروہ نے ایک دشمن اسلام ابوعامر راہب کے اشارے پر بنائی تھی اور رسول اللہ ﷺ کو اس میں نماز پڑھنے کی دعوت دی تھی۔ اس موقع پر سورہ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی:

’’اور وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں کو ضرر پہنچانے‘ کفر کے کام کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے اور اس شخص کے لئے پناہ گاہ بنانے جو اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہے ان کاموں کے لئے مسجد بنائی آپ اس مسجد میں ہرگز قیام نہ کریں(کبھی بھی نماز نہ پڑھیں) ‘‘

تو اس آیت میں مسجد ضرار کی تعریف بیان کردی گئی ہے یعنی جو شخص فاسد اغراض کے لئے مسجد کے نام پر کوئی مکان تعمیر کرے تو وہ مسجد ضرار ہوگی۔ یعنی اس مسجد کی تعمیر سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہو۔ کفر کو تقویت دینا مقصد ہو مسلمانوں کے شیرازے کومنتشر کرنے  کی نیت ہو اور ایسے لوگوں کی کمین گاہ بن جائے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کررہے ہوں تو یہ مسجد ضرار ہوگی ۔ اس کے برعکس جو مسجد اللہ کی رضا کے لئے بنائی جائے اور اس کی بنیاد تقویٰ اور ایمان پر ہو’وہ صحیح اور درست ہے۔ اس مسجد ضرار کو اس لئے جلادیا یا منہدم کر دیا گیاتھا تا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف شازشوں کا اڈہ اور دشمنان اسلام کی پناہ گاہ نہ بن سکے۔

(۲)مسجد کمیٹیوں کے دستور میں غیر شرعی قوانین داخل کرنا ناجائز ہے اور بینک سے سود پر قرض لے کر مسجد بنانا بہت خطرناک رحجان ہے۔ اس کی شدید مخالفت کرنی چاہئے۔ اسی طرح شریعت کے مطابق مسجد میں کام کرنے سے جورو کے وہ ظالم ہے۔ سورہ بقرہ کی یہ آیت واضح ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے روکتا اور انہیں غیر آباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(آیت نمبر ۱۱۴)

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسلام عیسائی مذہب کے بہت قریب ہے ۔ اس بات کو اگر اس طرح کہاجائے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں عیسائیوں کا رویہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہتر ہے۔ اس کی وضاحت قرآن نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۸۲ میں کر دی ہے اس لئے اگر عیسائیوں یا دوسرے مذایب کے لوگوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دے دی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ لیکن اس شرط پر کہ وہ مساجد میں جب آئیں تو مساجد کا تقدس ملحوظ رکھیں اورا س کے آداب پوری طرح بجالائیں بیز کوئی غیر اسلامی حرکت وہاں نہ کریں یا پھر ان کے آنے کی غرض مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہو’تب بھی ان کا  مساجد میں آنا اور وہاں بیٹھنا جائز ہے۔

باقی جو شخص مساجد کے بنانے یا آباد کرنے میں غیر شرعی اور حرام طریقے استعمال کرے اس سے ہرگز تعاون نہیں کرناچاہئے بلکہ مقامی مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایسے شخص کو اس مسجد یا ادارے کی انتظامیہ سے الگ کرکے شریعت کے پابند آدمی کے سپرد یہ ذمہ داری کریں۔ ایسی مساجد میں نماز کے لئے جانا جائز ہے بشرطیکہ وہاں کسی غیر اسلامی یا غیرشرعی کام میں شریک اور ملوث نہ ہو۔

(۳)مسجد کے چندے سودی اکاؤنٹ میں رکھ کر سودوصول کرنا سنگین جرم ہے مقامی مسلمانوں کو ایسے شخص کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے اور سے اس حرکت سے باز رکھنا چاہئے۔ کیونکہ وہ شخص اللہ اور رسول کے خلاف اعلان جنگ کئے ہوئے ہے۔ اس لئے اس کے اس فعل پر خاموش رہنا گناہ عظیم ہے۔

(۴)زکوٰۃ فقراء اور مساکین کا حق ہے اسے مساجد کی تعمیر میں نہیں لگانا چاہئے۔ بعض لوگوں نے قرآں میں ’’فی سبیل اللہ‘‘  کے لفظ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ کی راہ میں مساجد بھی شامل ہیں ۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ زکوٰۃ کے اصل مصارف وہی ہیں جو قرآن نے بیان کئے ہیں اور ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد جہاد کی تیاری کے لئے زکوٰۃ دینا ہے۔مسجد والوں کو چاہئے کہ یہ رقم واپس کردیں اور اگر انہوں نے استعمال کر لی ہے تو دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔جہاں تک مسجد میں نماز پڑھنے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں‘ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص153

محدث فتویٰ

تبصرے