سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) حلال وحرام کی ملی جلی کمائی سے مسجد کے لئے چندہ لینا کیسا ہے؟

  • 13814
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2227

سوال

(44) حلال وحرام کی ملی جلی کمائی سے مسجد کے لئے چندہ لینا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ بعض مسلمان شراب اور سور کے گوشت کو فروخت کرتے ہیں اور ساتھ ہی حلال چیزوں کی تجارت بھی کرتے ہیں ان سے مسجد کے لئے چندہ لینا کیسا ہے؟ ان کمائی کیسی ہے؟ براہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں بیان فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال مذکورہ میں تین امور کے بارے میں استفسار کیا گیا ہے۔

اول یہ کہ ایک مسلمان کا شراب اور سور کے گوشت کی تجارت کرنا کیسا ہے؟

دوم یہ کہ اس سے مسجد کےلئے چندہ لینا جائز ہے؟

سوم یہ کہ اگر وہ ساتھ میں حلال چیزوں کی تجارت بھی کرتا ہے تو اس سے چندہ برائے مسجد جائز ہے؟

(۱)سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوناچاہئے کہ کسی مسلمان کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ شراب یا خنزیر کے گوشت جیسی حرام اشیاء کی تجارت کرے۔

رسول اللہ ﷺ نے تو ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی جو شراب جیسی نجس چیز پیتے ہیں اس کا کاروبار کرتے ہیں یا اس کے پینے پلانے یا لینے دینے میں کسی قسم کا حصہ لیتے ہیں۔ اسے لئے جو مسلمان اس  طرح کاروبار کرتے ہیں انہیں اللہ اور اسے کے رسول کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ایسے کاروبار کو خیر باد کہہ دینا چاہئے اور کوئی حلال  کاروبار شروع کرنا چاہئے۔

(۲)جس آدمی کا کاروبار حرام اشیاء کا ہو ایسی چیزوں کا جن کی حرمت کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہ بھی نہ ہو اس سے مسجد جیسی مقدس جگہ کےلئے چندہ لینا جائز نہیں ۔ قرآن حکیم نے حرام چیزوں کو پلید اور خبیث کہا ہے اس لئے جان بوجھ کر مقدس مقامات میں ایسی کمائی لگانا ہرگز درا نہیں ۔ ارشاد قرآنی ہے۔

﴿ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ...١٥٧﴾... سورةالاعراف

’’اللہ نے ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کوحلال کیا اور خبیث اشیاء کو حرام قرار دے دیا۔‘‘

دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم...٢٦٧﴾... سورةالبقرة

’’اے ایمان والو! اللہ کی راہ میں اس کی کمائی سے خرچ کرو جو پاک ہو۔‘‘

ظاہر ہے جب خرچ کرنے والوں کے لئے یہ حکم ہے تو جو مسجد کے لئے چندہ جمع کرتے ہوں ان کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مال سے قبول نہ کریں جس کے بارے میں انہیں علم ہے کہ یہ حرام ذریعے سے کمایا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا

’’ان الله طیب لا یقبل الا الطیب‘‘ (مسلم مترجم ج۳ کتاب الذکاة باب بیان ان اسم الصدقة یقع علی کل نوع من المعروف ص ۴۳)

 ’’ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔‘‘

اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے گھروں (مسجدوں ) کیلئے پاک وحلال مال ہی کو قبول کرنا چاہئے۔

(۳)اب رہا یہ مسئلہ کہ جس آدمی کا مخلوط کاروبار ہے یعنی وہ شراب اور خنزیر کا گوشت فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ حلال چیزیں بھی بیچتا ہے اور پاکیزہ اشیاء کی تجارت بھی کرتا ہے تو ایسا شخص اگر مسجد کے لئے چندہ دیتے وقت یہ یقین دلائے کہ وہ مسجد کےلئے جو کچھ دے رہاہے وہ حلال ہے اور اس میں اس کمائی کا کوئی دخل نہیں جو اسے شراب وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اس سے چندہ لینا جائز ہے لیکن اگر وہ اپنی کمائی خلط ملط کرتا ہے اور حلال وحرام کی تمیز نہیں کرتا اور نہ ہی یقین دہانی کراتا ہے کہ وہ چندہ اپنی حلال کی کمائی سے دے رہا ہے تو ایسے شخص سے بھی چندہ لینے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ رسول اکرمﷺ نے شبہات والے کاموں سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس لئے اولیٰ و افضل یہی ہے کہ مسجد کی تعمیر خالص حلال کی کمائی کے ذریعے کی جائے اور حرام مال اس کے بنانے میں ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔ ہاں اگر کسی کی کمائی کے بارے میں آپ کو علم ہی نہیں تو یہ الگ بات ہے۔ ایسے آدمی کےبارے میں زیادہ کرید کرنے کی بھی ضرورت نہیں اور اس سے چند وصول کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص144

محدث فتویٰ

تبصرے