سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) مسجد کی انشورنس کا کیا حکم ہے؟

  • 13813
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1139

سوال

(43) مسجد کی انشورنس کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 لیڈز سے حافظ محمد صاحب دریافت فرماتے ہیں

۱۔مسجد اور اسلامک سینٹر کے مشترکہ فنڈ سے طلبہ کو بطور تحفہ کتب دی جاسکتی ہیں یا کسی تقریب اور جلسے کے موقع پر مہمانوں کو اس فنڈ سے کھانا کھلایا جاسکتا ہے اور علماء کرام کو اس فنڈ سے کرایہ وغیرہ دیا جاسکتا ہے؟

۲۔مسجد یا اسلامک سینٹر کی انشورنس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱۔کسی مسجد اور اسلامک سینٹر کا جو مشترکہ فنڈ ہے اگر فنڈ دینے والے اس میں خاص شرط نہیں لگاتے تو پھر کسی بھی دینی کام میں اس فنڈ سے خرچ کیا جاسکتا ہے اور اگر چندہ دینے والے پہلے یہ شرط لگا دیں کہ ان کی رقم فلاں مد میں خرچ کی جائے اور فلاں مد میں خرچ نہ کی جائے ایسی شکل میں اس کی شرط کے مطابق خرچ کرنا چاہئے اور اگر وہ شرط نہیں لگاتے اور ان کے علم میں بھی ہے کہ ہمارے چندے سے سینٹر کے تمام اخراجات اور پروگرام چلتے ہیں جس میں تحفہ میں دی جانے والی کتب بھی شامل ہیں تو ایسی صورت میں کسی بھی مد میں خرچ کی جاسکتی ہے۔ ایسے حالات میں منتظمین کے لئے بہتر  یہ ہوتا ہےکہ وہ فنڈ جمع کرتے وقت خرچ کرنے کی جگہوں  کی اچھی طرح وضاحت کر دیا کریں قرآن کی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۵ میں جو فی سبیل اللہ کی مد بتائی گئی ہے اس کے تحت دین کےتمام کام جن میں بچوں کو کتابوں کا انعام دینا یا واعظ و ارشاد کی مجالس کا انتظام کرنا شامل ہے خرچ کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ چندہ دینے والے کی طرف سے کوئی شرط یا تخصیص نہ ہو۔

۲۔جہاں تک مسجد میں یا سینٹر کی انشورنس کا تعلق ہے اگر اس میں سود کی رقم کی آمیزش کا کوئی امکان نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مسجد اور اسلامک سینٹر کے سلسلے میں ایک مجبور ی یہ بھی ہے کہ ان کے نقصان کی شکل میں کوئی آدمی ذمہ دار نہیں بنتا اس  لئے اگر ایک کمپنی اس کا نقصان پورا کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور اس کے عوض آپ اسے کچھ ادا کرتے رہتے ہیں تو اس میں جواز کی گنجائش ہے بشرطیکہ سود کی کوئی شکل نہ بنے ۔ اس کے علاوہ عام طور پر مشتبہ کاموں میں احتیاط بہرحال بہتر ہوتی ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص143

محدث فتویٰ

تبصرے