سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین میں تاخیر کیوں ہوئی؟

  • 13782
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4607

سوال

(18) حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین میں تاخیر کیوں ہوئی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مغربی جرمنی سے محمد ابراہیم صاحب لکھتے ہیں۔ کیا نبی کریمﷺ کاجنازہ تین دن تک رہا؟ اگر ایسا ہوا تو کیوں ہوا؟ جب کہ آپ ﷺ کاحکم ہے کہ جنازہ جلدی لے جایا کرو۔ پھر صحابہ کرامؓ نے آپ کو جلد دفن کیوں نہ کیا جواب تحریر کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ غلط ہے کہ رسول اللہﷺ کی تجہیزوتکفین تین دن تاخیر سے ہوئی بلکہ اصل صحیح بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رحلت پیر کے دن ہوئی اور آپ ﷺ کی تدفین دوسرے دن رات کو ہوئی۔ اس طرح تقریباً رحلت پاک سے ۳۲ گھنٹے بعد تدفین مبارک عمل میں آئی۔ اب یہ جو تاخیر ہوئی اس کی دو تین وجوہ ہیں۔

(۱)ایک یہ کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہؓ کے جس حجرے میں وفات پائی تھی جنازہ اس حجرے سے باہر نہیں نکالاگیا اور جب اہل ایمان نماز کےلئے ہر طرف سے ٹوٹ پڑے توجگہ تنگ ہونے کہ وجہ سے انہوں نے باری باری اندر جانا شروع کیا۔ نماز میں امام بھی کوئی نہیں تھا پہلے اہل خاندان نے جنازہ پڑھا۔ پھر مہاجرین نے‘ پھر انصار نے۔ اسی طرح مردوں‘ عورتوں اور بچوں نے الگ الگ اندر جاکر جنازہ پڑھا ۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک رات اوردن برابر جاری رہا۔

(۲)دوسری وجہ یہ تھی کہ محبت وعقیدت کی شدت کی بنا پر یقین نہیں آرہا تھا کہ آپ ﷺ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا ہے ۔ حضرت عمرؓ کا تو شدت غم سے یہ حال تھا اور جذبات محبت و عقیدت کی یہ کیفیت تھی کہ تلوار کھینچ لی اورفرمانےلگے جو یہ کہے آنحضرت ﷺ وفات پا گئے میں اس کا سر قلم کردوں گا۔ اس بارے میں صحابہ کرام میں کافی اضطراب اور پریشانی تھی ۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے۔

لوگوں نے حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں بتایا کہ وہ یہ کہہ رہےہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چہرہ مبارک سے چادر ہٹا کر آپ کا بوسہ لیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنےلگے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ اے اللہ کے نبیﷺ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ آپ پر دو موتیں کبھی نہیں جمع کرے گا۔بس ایک ہی موت تھی جو آپ کے لئے لکھی گئی تھی اور آپ کو حاصل ہوچکی۔ آپ ﷺ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں پاکیزہ ہیں۔

اس کے بعد صدیق اکبرؓ باہر تشریف لائے تو دیکھا حضرت عمر لوگوں میں تقریر کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو پھر  زندہ کرے گا اور آپ مفسد لوگوں کےہاتھ پیر کاٹیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے کہا اے قسم کھانے والے بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمرؓ نے کوئی توجہ نہ دی۔ حضرت ابوبکرؓ نےدوبارہ کہا مگر وہ پھر بھی نہ بیٹھے۔ اس پر سیدنا صدیق اکبرؓ نے اپنا خطاب شروع کردیا تو لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمرؓ بھی بیٹھ گئے اور حضرت صدیق اکبرؓ کی تقریر سننے لگے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے حمدو ثناء کے بعد وہ تاریخی الفاظ کہے جو وفات النبیﷺ کے بارے میں ہمیشہ کے لئے سند قرار پائے۔فرمایا:

من کان یعبد محمدا فان محمدا قدمات ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت (ابن ماجه مترجم ج۔۱ کتاب الجنائز باب وفات النبی ص۸۰۶)’’جو کوئی محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا تو آپ وفات پاچکے ہیں اور جو کوئی اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا تو اس کا معبود آج بھی زندہ ہے اور کبھی وفات نہیں پائے گا اور اللہ عزوجل فرماتا ہے۔‘‘(إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ) (الزمر:۳۰) ’’آپ بیشک وفات پانے والے ہیں اور یہ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ پھر یہ آیت کریمہ پڑھی۔

﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَ‌سولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِي۟ن ماتَ أَو قُتِلَ انقَلَبتُم عَلىٰ أَعقـٰبِكُم ۚ وَمَن يَنقَلِب عَلىٰ عَقِبَيهِ فَلَن يَضُرَّ‌ اللَّهَ شَيـًٔا... ﴿١٤٤﴾... سورة آل عمران

’’اور محمد اللہ کے رسول ہی تو ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں اگو وہ وفات پا جائیں یا شہید کردیئے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو (کفر کی طرف) الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کاکچھ نہیں بگاڑ سکے گا اللہ شکر گزاروں کو اجر عظیم دیتا ہے۔‘‘

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں اللہ کی قسم اس وقت شدت غم اور پریشانی کے عالم میں لوگوں کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ کسی کو یہ یاد ہی نہیں رہاتھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیت تلاوت کی تو ان سے سن کر لوگوں کو یہ آیت یاد آئی۔ پھر ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی ۔ تمام صحابہ کرامؓ اس کی تلاوت کررہے تھے اور بے اختیار رو رہے تھے۔

(یہ واقعہ صحیح بخاری شریف کتاب الجنائز مناقب ابی بکر اورکتاب المغازی میں موجود ہے)

جب حضرت عمر فاروقؓ نے یہ آیت سنی اور انہیں بھی یقین آگیا کہ رسول اکرمﷺ کا انتقال ہوگیا تو وہ کھڑے نہ رہ سکے شدت غم سے نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑے۔ (بخاری شریف)

لہٰذا تاخیر کا سبب یہ واقعہ بھی بنا۔

(۳)سیرت نگاروں نےلکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی اس موقع پر اس کیفیت اور مصروفیت کے باعث قبر کنی کا کام بھی غسل و کفن کے بعد شروع ہوا۔ اس لئے بھی کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص101

محدث فتویٰ

تبصرے