سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ کیسے رونما ہوا؟

  • 13781
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 7990

سوال

(17) چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ کیسے رونما ہوا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نارتھ ہمسٹن سے واجد علی صاحب تحریر کرتے ہیں۔

       کئی بار یہ مسئلہ سنا ہے کہ پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ نے اپنی انگلی چاند کی طرف کی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ کیا آپ اس مسئلہ کو وضاحت سے بتا سکتے ہیں’ مجھے سائنس سے تعلق نہیں ہے اور اگر اسلام ایک بات بتاتا ہے تو میں اس کو مانوں گا۔ سائنس کےمطابق چاند نبی کریمﷺ کے آنے سے پہلے بھی آدھا نظر آتا رہا ہے اور پورا بھی دکھائی دیتا رہا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انبیاء کرام سے جن خوارق عادت ( خلاف عادت) امور کا ظہور ہوتا ہے انہیں معجزات کہاجاتا ہے‘ جو ایک طرف ان کی سچائی اور حقانیت کی دلیل ہوتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کی جانب سے ان کے لئے اکرام و انعام۔ مومن کا ہر دور میں یہ عقیدہ رہا ہے کہ کائنات کی ہر شے کامکمل کنٹرول صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ جیسے چاہتا ہے امور کائنات میں تصرف کرتا ہے کوئی دوسرا اس پر نہ معترض ہوسکتا ہے اور نہ ہی دخل دے سکتا ہے اسی طرح مختلف چیزوں کو جو خصوصیات یا چاقتیں دی ہیں وہ بھی  اللہ نے دی ہیں اور وہ ان سے چھیننے پر بھی قادر ہے۔ پانی کی گہرائی میں ڈوب جانا’ آگ میں  داخل ہوتو جل جانا۔ پہاڑ سے چھلانگ لگائے تو ہڈیوں پسلیوں کا ٹوٹ جانا۔ اللہ اگر چاہے تو یہ قوتیں ان سے چھین بھی سکتا ہے کہ آگ جلانے کی صفت سے محروم ہو جائے اور پانی ڈبونے کی قوت سے خالی ہوجائے۔انبیاء کرام کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس طرح عادت کے خلاف امور ظہور پذیر ہوئے۔

سائنس کا تعلق عقل و علم سے ہے جو محدود ہیں اور ان میں ترقی و اضافہ اور تغیر و تبدل بھی ہوتا رہتا ہے اس لئے یہ قرآن سےمتصادم نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی قرآن سائنسی علوم کی نفی کرتا ہے لیکن خود سائنس دانوں کےنزدیک کوئی چیز آخری یا حتمی نہیں ہوتی ۔ چند برس پہلے ایک چیز ترقی کی علامت تھی آج وہ بے کار ہے۔ آج کے سائنس دانوں نے پہلے سائنس دانوں کے بےشمار تھیوریز اور خیالات کو باطل ثابت کردیا ہے اور نہ معلوم کل آنے والے سائنس دان آج کے سائنس دانوں کی کن کن باتوں کو غلط یا فرسودہ قرار دیں گے کیونکہ کامل علم صرف اللہ کی ذات کا ہے’ باقی ہر شےمیں نقص کا امکان و احتمال ہے۔ نبی کریمﷺکا زندہ تابندہ معجزہ قرآن کریم ہے جس کی نظیر نہ کوئی پہلے لاسکا ہے نہ قیامت تک کوئی لاسکے گا اور مسلمانوں کے تنزل و زوال کے باوجود یہ معجزہ پوری شان سے موجود ہے اوراپنے اندر بھٹکی ہوئی انسانیت کی راہ نمائی کی وہ صلاحیت آج بھی اپنے اندر اسی طرح  رکھتا ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے رکھتا تھا ۔ اس کےعلاوہ بھی آپ کےمتعدد معجزے قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔ جن میں قرآن نے ‘‘ شق القمر’’ کے معجزے کاذکر بھی کیا ہے۔

سورہ قمر آیت نمبر ۱ میں ارشاد ہے ﴿اقتَرَ‌بَتِ السّاعَةُ وَانشَقَّ القَمَرُ‌ ﴿١﴾... سورةالقمر’’ قیامت قریب آگئی چاند ٹکڑے ہوگیا۔‘‘

بخاری شریف کی حدیث ہےکہ مکہ والوں نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی نشانی طلب کی تو آپ ﷺ نے ان کوچاند کے دو ٹکڑے دکھائے یہاں تک کہ حراء کا پہاڑ ان دو ٹکڑوں کے درمیان نظر آیا(یعنی دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ تھا)

مسند احمد کی روایت ہے کہ یہ دیکھ کر کفار نے کہا ’’محمد ﷺ نے ہم پر جادو کردیا‘‘ مگر انہی میں سے بعض نے کہا کہ باہر سے آنے والوں نے بھی شق القمر کی تصدیق کی ہے وہ آخر سب پر تو جادو نہیں کرسکتا تھا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی ذات پر دلالت کرتی ہے اسی طرح چاند کا دو ٹکڑے ہونا بھی جہاں رسول اللہ ﷺ کےرسول برحق ہونے پر دال تھا وہاں باری تعالیٰ کی قدرت و طاقت کا مظہر بھی ۔سورج‘ چاند‘ ستارے اور رات و دن کا یہ نظام اس کے اختیار و کنٹرول میں ہے۔ یہ سب اس کے حکم سے ایک خاص نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ وہ جب چاہئے ان میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے اور جب چاہے گا اس سارے نظام کو ختم بھی کردے گا۔ لہٰذا اس میں حیرانی یا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اس طرح کے واقعات سے ایک مومن کا اللہ کی ذات پر ایمان اور زیادہ راسخ ہوتا ہے۔

آپ نے جو یہ لکھا ہے کہ چاند حضورﷺ کے زمانے سےپہلے بھی تو کبھی آدھا اور کبھی پورا نظر آتا تھا یہ درست ہے۔ چاند اپنی روٹین کےمطابق مہینے کےمختلف دنوں میں مختلف اشکال میں نظر آتا ہے اور اس میں کبھی کوئی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوتی لیکن حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کےزمانے میں چاند کےدو ٹکڑے اس طرح نہیں ہوئے تھے کہ کچھ دن آدھا اورکچھ دن مکمل نظر آیا‘ بلکہ ایک ہی دن ایک وقت میں تمام لوگوں نےچاند کے حصے دیکھے۔ دونوں ٹکڑے جداجدا تھے اور احادیث میں دونوں کے درمیان فاصلے کابھی ذکر کیا گیا اور بتایا کہ حرا پہاڑ دونوں ٹکڑوں کے درمیان آگیا تو یہ شق القمر ایک خاص وقت میں کچھ دیر کےلئے دکھایا گیا تھا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص98

محدث فتویٰ

تبصرے