سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) پیری مریدی کی مروجہ شکل کی شرعی حیثیت؟

  • 13774
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3378

سوال

(16) پیری مریدی کی مروجہ شکل کی شرعی حیثیت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ساوتھ آل لندن سے قیوم صاحب لکھتے ہیں: میں اپنے عزیزوں سے ملنے کراچی گیا تھا۔میرے محلے میں دو مسجد یں ہیں ایک بریلوی‘ ایک بھوپالی۔ میرے سارے گھر والے بریلوی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ بریلوی مسجد میں میں نے پہلی بار دیکھا کہ جمعہ کی نماز میں خطبہ کے بعد امام صاحب بیٹھ گئے اور جب اقامت کہی گئی اور جماعت کھڑی ہوئی تو امام صاحب اور چند آدمی اس وقت تک کھٹے نہ ہوئے جب تک اشہد ان محمد رسول اللہ نہ کہا گیا۔میرے پوچھنے پر امام صاحب نے بتایا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ حضورﷺ کا یہی طریقہ تھا۔ کچھ لوگ حضور کا نام سن کر انگوٹھے چومتے ہیں اور آنکھوں کو لگاتے ہیں۔ نماز کے بعد سلام بھی پڑھا گیا۔ یہاں ساؤتھ آل کی جامع مسجد میں بھی سلام پڑھا جاتا ہے لیکن امام صاحب شریک نہیں ہوتے۔

میرے عزیزوں میں پیری مریدی کا بہت زور ہے اور سارے عزیز ایک صاحب کے مرید ہیں جن کا نام شاید محمد سلطان ہے کیونکہ ان کے مرید اپنے کو ’’ سلطانی‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کی خانقاہ شاید ناظم آباد نمبر ۴ کے قریب ہے۔ وہاں مہینہ کی کسی جمعرات کو حلقہ ہوتا ہے اب کے میں بھی گیا وہاں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل لمبی ہے۔ جو چیز مجھے عجیب لگی وہ یہ تھی جب مرید نذرانہ پیش کرتے تو ’’حضرت صاحب ‘‘ (پیر صاحب اپنے آپ کو اسی نام سے کہلواتے ہیں) کے پاؤں چومتے اورآنکھوں سے لگاتے ۔ میں جب ان باتوں پر اعتراض کرتا ہوا تو میرے عزیز مجھے’’وہابی‘‘ کا خطاب دیتے ہیں۔

متذکرہ بالا باتوں پر روشنی ڈالئے کہ وہابی کون ہیں؟ بریلوی کون ہیں؟ ان دونوں فرقوں میں کیا اختلاف ہے؟ پیری مریدی میں کون کون سی باتیں صحیح ہیں اور کون کون سی غلط ؟ وغیرہ وغیرہ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم نے قیوم صاحب کا سوال من و عن نقل کردیا ہے۔ دراصل یہ ایک سوال نہیں بلکہ متعدد سوالات ہیں جن کا الگ الگ اور مفصل جواب دیا جائے گا۔

ان کے سوالات کا خلاصہ یہ ہے۔

۱۔ جمعہ کی نماز کےلئے تکبیر کے کن الفاظ پر امام کو یا مقتدیوں کو نماز کے لئے اٹھنا چاہئے؟

ب۔حضورﷺ کا نام سن کر انگوٹھے چومنے کا حکم۔

ج۔نماز کے بعد کھڑے ہوکے صلوٰۃ والسلام پڑھنا۔

د۔ پیری مریدی کی مروجہ شکل کی شرعی حیثیت

ہ۔وہابی اور بریلوی کی تعریف یا فرق

۱۔نماز کےلئے جب تکبیر یعنی اقامت کہی جائے تو مقتدیوں کے لئے نماز کےلئے اٹھنے کے بارے میں کوئی واضح شکل احادیث میں نہیں آئی۔ ایک یہ قول ہے کہ جب قد قامت الصلوٰۃ کالفظ کہا جائے اس وقت مقتدی اٹھیں۔ دوسرا یہ قول ہے کہ جب تکبیر کہنے والا’’حی علی الفلاح‘‘ کے الفاظ کہے تو مقتدی نماز کےلئے کھڑے ہوجائیں۔تیسرا قول یہ ہے کہ جب امام کو مصلے کی طرف جائے ہوئے دیکھیں تو مقتدی بھی جماعت کےلئے کھڑے ہوجائیں۔ا س آخری قول کے موافق ایک روایت بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’اذا اقیمت الصلوٰة فلا تقوموا حتی تروني‘‘ (فتح الباری ج ۲ کتاب الاذان باب متي یقوم الناس ص ۳۳۱ رقم الحدیث  ۶۳۷ و ۶۳۸ و ۹۰۹۔ نسائي ج ۱ باب قیام الناس اذا ولامام) ’’یعنی اقامت کے وقت اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے دیکھ نہ لو۔‘‘

جمعہ کے خطبہ کے بارے میں آپ نے کراچی کے امام صاحب کا جو طریقہ بیان کیا ہے اس بارے میں کوئی حدیث یا کسی امام کا کوئی قول میری نظر سے نہیں گزرا کیا امام یا مقتدی دونوں اس وقت کھڑے ہوں جب اشھد ان محمد رسول اللہ کہاجائے۔آپ ان امام صاحب سے یہ معلوم کریں کہ وہ حدیث کس کتاب میں ہے جس کی آپ پیروی کرتے ہیں ۔ جمعہ کے دن مسنون طریقہ یہی ہے کہ امام خطبے کے بعد منبر سے سیدھا مصلے پر جائے اور اقامت شروع ہونے کے بعد مقتدی بھی کھڑے ہوجائیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مقتدی کب کھڑے ہوں اس بارے میں کوئی صحیح حدیث منقول نہیں۔ لہٰذا گنجائش ہے کہ مقتدی تکبیر کے بعد کسی وقت بھی کھڑے ہوسکتے ہیں اور بہتر یہی ہے کہ امام کے تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے پہلے مقتدی نماز کے لئے کھڑے ہوجائیں۔

(۲)حضور ﷺ کا اسم گرامی سن کر انگوٹھے چومنے کا رواج عام طور پر ہندوستان پاکستان کے بعض لوگوں میں ہے۔ احادیث پاک یا ائمہ دین کے ارشادات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں کہ آنحضرت ﷺ سے محبت وعقیدت کے اظہار کے لئے وہ یہ طریقہ اختیار کرتے ہوں۔ اور ظاہر ہے کہ محبت و عقیدت یا اجروثواب کے خیال سے کوئی ایسافعل کرنا جو رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور آپ نے بدعت کو بے حد خطرناک قرار دیا ہے۔ یہ انگوٹھے چومنے کی عادت اس لئے بھی غیر مشروع معلوم ہوتی ہے کہ ایک حدیث میں واضح طور پر آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص میرا نام سن کر مجھ پر درود نہیں بھیجتا وہ سب سے بڑا بخیل ہے۔ا گر انگوٹھے چومنے کی بھی کوئی فضیلت ہوتی تو آپ ضرور ارشاد فرماتے کہ درود پڑھنے کےساتھ ساتھ انگوٹھے بھی چوم لیا کرو اور پھر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ آپ کا نام نامی سن کر ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں پر لگانے کی تو شدت سے پابندی کرتے ہیں مگر سرور دو عالم کا نام سن کر آپ پر درود بھیجنا اس کا قطعی خیال نہیں کرتے۔ جو چیز ایک ثابت سنت کو ترک کرنے کا موجب بنے وہ کسی حالت میں بھی جائز قرار نہیں دی جاسکتی۔ اور عقلاً بھی یہ چیز عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے کہ جب ایک شخص کےمنہ سے آپ کا اسم مبارک محمد نکلتا ہے تو اپنے انگوٹھے چومے جائیں۔ چاہئے تو یہ کہ اس منہ کو چوما جائے جس سے یہ پیارانام نکلا ہے’ اپنے انگوٹھوں کو چومنے کی کوئی تک ہمیں نظر نہیں آتی۔

(۳)نماز کے بعد کھڑے ہوکے درودوسلام پڑھنے کا رواج ہمارے ہاں چندسالوں سے شروع ہوا ہے۔ یہ شکل بھی تک دوسرے کسی اسلامی ملک میں ہمیں نظر نہیں آئی۔ کسی بھی چیز کو خاص شکل اور کیفیت سے خصوصی اہمیت کے ساتھ اجروثواب کی نیت سے کرنا اسی وقت جائز ہوسکتا ہے جب اس کا ثبوت قرآن و حدیث یا عمل صحابہؓ سے ملے‘ اس کے بغیر وہ عمل بدعت کے زمرے میں آئے گا اور اللہ کے ہاں قابل قبول نہ ہوگا۔ ظاہر ہے صحابہ اکرامؓ اللہ کے رسولﷺ پر درود وسلام ہم سے زیادہ اور بہتر پڑھتے تھے۔ ان کے دلوں میں محبت و عقیدت بھی ہم سے زیادہ تھی اگر وہ نماز کے بعد کھڑے نہیں ہوتے تھے تو پھر ہمیں اس طریقے کو ایجاد کرنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ نماز کے بعد جو مسنون ذکر یا وظیفے احادیث میں آئے ہیں ان کی تو ہم پرواہ نہیں کرتے مگر جو چیز نہ حضورﷺ سے نہ صحابہؓ سے اور حتیٰ کہ ’’چاروں اماموں‘‘ سے بھی ثابت نہیں ہے اس کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ایسے کام کو ہم کیسے جائز قرار دے سکتے ہیں جس کا ثبوت کوئی نہ ہو جو محض رسماً یا ضدو تعصب کی بنا پر کیا جاتا ہو۔ کسی مولوی صاحب یا پیر صاحب کے کرنے سے کوئی کام دین یا شریعت نہیں بن جاتا۔ بلکہ  اس کےلئے شریعت کے صافی چشموں قرآن و سنت سے یا سلف صالحین کے عمل سے ثبوت مہیا کرناضروری ہے۔

(۴)جہاں تک اولیاء کرام کی کرامتوں کا تعلق ہے تو یہ برحق ہے۔ بزرگوں کا احترام بھی ان کے علم و تقویٰ کی مناسبت سے ضروری ہے لیکن پیری مریدی کی موجودہ مروجہ شکل ہمیں صحابہ کرامؓ یا ان کے بعد خیرون القرون میں کہیں نہیں ملتی۔ اللہ کے حقیقی نیک بندوں نے نذرانے کے طور پر کبھی مال نہیں بٹورا۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو خیروبھلائی کی تعلیمات دیں۔ نیکی کی راہوں پر چلایا مگر ان سے کبھی دنیاوی فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی مریدوں کے اپنے دام میں پھنسانے کےلئے خاص قسم کے لباس اور انقلاب مقرر کئے۔ان کے پاس جو آتا وہ نصیحت و ہمدردی کا پیغام بن کرجاتاجب کہ آج کل صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ جیسا کہ آپ نے بھی لکھا ہے کہ نذرانہ پیش کرنے کے بعد لوگ حضرت صاحب کے پاؤں چومتے اور آنکھوں سے لگاتے ہیں اور پھر سلطانی کہلاتے ہیں۔ یہ سب کاروباری پیری مریدی ہے۔ اگر صحابہ کرام نے دو جہاں کے سردار اور کائنات کے پیرومرشدﷺکے ادب و احترام میں یہ انداز اختیار نہیں کیا تو آج کسی پیر کو یہ حق حاصل کہ وہ لوگوں کو پاؤں میں گرائے یا ان کے سر اپنے سامنے جھکائے اور پھر ان بےچاروں سے یہ سب کچھ کروانے کے بعد نذرانہ بھی وصول کرے۔ قرآنی اور اسلامی زندگی کے تصور ہی کے خلاف ہے۔ اس طرح کی پیری مریدی یا دوسری خرافات اس دور کی پیدا وار ہیں۔ خیرالقرون کے دور کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے۔ آپ کو اس طرزولایت کانام و نشان تک نہ ملے گا۔

(۵)ہم کسی جگہ یا شخصیت کے نام پر مذہب یا مسلک چلانے کے بنیادی طور پر خلاف ہیں۔ قرآن و حدیث کی موجودگی میں کسی دوسری نسبت کی چنداں ضرورت نہیں۔ وہابی نام کا کوئی فرقہ یا مکتب فکر نہیں ہاں چونکہ ’’وہاب‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔

﴿وَهَب لَنا مِن لَدُنكَ رَ‌حمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الوَهّابُ ﴿٨﴾... سورة آل عمران

﴿أَم عِندَهُم خَزائِنُ رَ‌حمَةِ رَ‌بِّكَ العَزيزِ الوَهّابِ ﴿٩﴾... سورة ص

تو اس لحاظ سے ہر مسلمان ’’وہابی‘‘ ہے اور ہر شخص اس طرف نسبت کر سکتا ہے مگر اس نام کا کوئی مخصوص مذہب یا فکر نہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب میں جو ایک عالم شیخ محمد بن عبدالوہاب ہوئے ہیں جو ان کے پیروکار ہیں انہیں وہابی کہا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے اس لئے کہ اس شیخ کانام محمد تھا نہ کہ عبدالوہاب۔ لہٰذا ان کی طرف نسبت ہوتی تو پھر ’’محمدی‘‘ کہاجاتا نہ کہ ’’وہابی‘‘ شیخ محد بن عبدالوہاب کے افکارونظریات سے اتفاق بھی کیاجاسکتا ہے اختلاف بھی جیسا کہ ہر امام یا عالم سے ہوسکتا ہے انبیاءکرام کے سوا کوئی بھی غلطی سے معصوم نہیں۔ ہاں ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ چونکہ شیخ محمد بن عبدالوہاب نے بدعات خرافات اور توہم پرستی کے خلاف قدم اٹھایا ہے تو جہلا اور اہل بدعت اسے وہابی کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انگریز نے اس لفظ کو پروپیگنڈے کا ذریعہ بنا کر مسلمانوں  میں افتراق ڈالنے کی سازش کی تھی۔آپ تحریک آزادی کی تاریخ کامطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ ان تمام لوگوں کو وہابی کہہ کر پکارا گیا جو  انگریز کےخلاف تحریک میں پیش پیش تھے۔ اسی طرح بریلوی بھی کوئی مکتب فکر نہیں جہالت سے آج کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو سنی بریلوی لکھنا شروع کردیا ہے۔ یہ  لوگ شاید مولانا احمد رضا خان کی پیروی بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ نئی نئی  رسمیں نکالنے اور پیری مریدی کا کاروبار کرنے والے حضرات عام طور پر اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی نسبتیں مسلمانوں میں خلفشار کا باعث بنتی ہیں۔ اگر سب لوگ کتاب وسنت کا دامن سختی سے تھام لیں تو شخصیت پرستی سے نجات مل سکتی ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص93

محدث فتویٰ

تبصرے