السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیسٹر سے ابرار صاحب لکھتے ہیں کہ امام عبدالرزاق کی کتاب مصنف عبدالرزاق کی جو روایت پیش کی جاتی ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا ’ کیا یہ صحیح ہے؟ اور حضورﷺ نے یہ دعا کی تھی کہ "واجعل لی نورا" ’’کہ اللہ مجھے نور ہی بنادے۔‘‘ اور پھر قرآن کی یہ آیت بھی﴿قَد جاءَكُم مِنَ اللَّهِ نورٌ وَكِتـٰبٌ مُبينٌ ﴿١٥﴾... سورة المائدة بھی حضور کے نور ہونے کی دلیل ہے ۔ ایک مولوی صاحب یہ دلائل دیتے ہیں۔آپ کی کیا رائے ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس آدمی نے نور کے ثبوت میں جو روایت تحریر کہ ہے’ اس میں اس بات کو بیان کرکے اپنی دلیل کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہےکہ امام عبدالرزاق کی کتاب میں یہ روایت ہے اور یہ امام موصوف امام بخاریؒ اور امام مسلم کے اساتذہ میں سے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام عبداالرزاق کا مقام ائمہ دین میں بڑا اونچا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو روایت ان کی طرف منسوب کی جاتی ہے وہ ثابت بھی ہے یا نہیں اور پھر امام موصوف نے خود اس روایت کے بارے میں کیا کوئی وضاحت کی ہے؟ ہمارے نزدیک یہ روایت غیر ثابت ہےکہ حضور ﷺ نے حضرت جابرؒ سےکہا کہ اے جابر اللہ نے تمام اشیاء سے قبل تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا۔
(۱)اول اس لئے کہ جتنے لوگ یہ روایت پیش کرتے ہیں وہ اس کی سند پیش نہیں کرتے اور علم حدیث کے ساتھ تھوڑا سا تعلق رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ بغیر سند کے کوئی روایت چاہئے کتنا ہی بڑا امام کیوں نہ پیش کرے اسے قبول نہیں کیا جائے گا ۔ خاص طور پر ایک اختلافی موضوع میں تو ٹھوس اور ثقہ راویوں کی بات ہی قبولیت و ترجیح کا درجہ حاصل کرے گی اور یہ مسئلہ چونکہ عقیدے سے تعلق رکھتا ہے اس لئے یہاں ایسی بے سند روایت کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔
(۲)دوم یہ کہ جو آدمی یہ روایت پیش کرتا ہے اور حوالہ امام عبدالرزاق کی کتاب مصنف کا دیتا ہے اسے چاہئے کہ سند کا حوالہ دے اور بتائے کہ یہ روایت سند سمیت مصنف عبدالرزاق کی کونسی جلد کون سے باب اور کس صفحے پر ہے۔ اس کے بعد ہم اس روایت کی سند کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ہمیں تلاش کےباوجود یہ روایت سند کے ساتھ کسی جگہ نہیں مل سکی۔ جو لوگ یہ روایت پیش کرتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ اس کامکمل حوالہ پیش کریں بلکہ ہوسکے تو اس کی فوٹو اسٹیٹ ہمیں بھیج دیں تاکہ ہم بھی اس کی سند ملاحظہ کریں۔
(۳)تیسری بات یہ ہے کہ جامع ترمذی (باب القدر) اور حدیث کی کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت ہم پیش کرسکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا«اول ماخلق اللہ القلم» (جامع الترمذي مترجم ج ابواب القدر باب لاتسلموا علی اھل القدر ص ۷۷۲) ’’کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا‘‘ اب ایک طرف یہ صحیح حدیث ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک بے سند روایت کو کیسے تسلیم کیا جاسکتاہے ۔ کیا نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ دو متضاد چیزوں کو بیان کرسکتے ہیں؟
(۴)دوسری حدیث میں یہ ٹکڑا پیش کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ واجعل لی نورا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ اے اللہ مجھے نور ہی بنادے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ترجمہ بالکل غلط کیا گیا اور جس آدمی نے یہ ترجمہ کیا ہے یا تو وہ جاہل ہے اور یا اس نے جان بوجھ کر بددیانتی سے کام لیا ہے اور معمولی عربی جاننے والا بھی ’’ لی‘‘ کا ترجمہ کرسکتا ہے’’ لی‘‘ کا معنی ہوتا ہے میرے لئے اور پورا ترجمہ ہوگا’’اے اللہ میرے لئے‘‘ نور(روشنی) پیدا فرمادے یا نور کردے’’یعنی آپﷺ نور‘‘ روشی اور ہدایت اللہ کی بارگاہ سے طلب کررہے ہیں جیسا کہ متعدد مقامات پر وہ دعائیں آئی ہیں جو آپ کیا کرتے تھے کہ "اللھم اغفرلی" ’’اے اللہ مجھے بخش دے۔‘‘ "اللھم اھدنی" ’’اے اللہ مجھے ہدایت دے دے۔‘‘
اسی طرح یہاں فرمایا اے اللہ میرے لئے نور کردے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ حضورﷺ نے نور بننے کی دعا کی اور اللہ نے وہ دعا قبول کرکے آپ کو نور بنا دیا’ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دعا سے پہلے آپ کیا تھے؟ اور اگر اس دعا کے بعد اللہ نے آپ کو نور بنادیا تھا تو پھر یہ عقل کے اندھے جو دوسری(اوپر والی) حدیث پیش کرتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے پیدا ہی آپ کے نور کو کیا تھا۔ اس حدیث کی حیثیت کیا ہے کیونکہ خود ہی یہ لکھ دیا کہ دعا کے بعد آپ نور ہوئے کیونکہ اللہ نے آپ کی دعا قبول کرلی۔ اس کامطلب یہ ہے کہ پہلے تو آپ نور نہیں تھے اور یہ روایت غلط ہے کہ سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا۔
(۵)جہاں تک قرآن کی اس آیت کے سلسلے میں مفسرین کے اقوال کا تعلق ہےکہ (قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ) (المائدہ:۱۵) اس سے مراد حضور اکرمﷺ ہیں تو اس امر میں تو کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ آپ کی ذات اقدس کفر’’ظلم‘‘ جہالت و گمراہی کے لئے نور تھی اور اس نور سے ہر قسم کے اندھیرے چھٹ گئے اور ان کی جگہ ایمان اور ہدایت کی روشنی نے لے لی۔ لیکن قرآن میں ایک بھی ایسی آیت نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ آپ اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ اگر صرف نور کے لفظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نور من اللہ ہیں تو پھر سورہ اعراف کی آیت نمبر ۴۶ میں قرآن کو بھی نور کہا گیا سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۶ میں تورات کی اصلی تعلیمات کو نور کہاگیا۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۲ میں دین اسلام کو نور کہاگیا۔ تو قرآنی آیات میں متعدد مقامات پر لفظ نور آیا ہے۔ وہ قرآں ’’دین اسلام‘‘ سچائی اور ہدایت کے لئے استعمال کیا گیا اور اس طرح صاحب رسالت و صاحب قرآن ﷺ کے لئے بھی نور کا لفظ استعمال کیا گیا۔ خود اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں لفظ نور آیا کہ ﴿اللَّهُ نورُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ﴾ بعض مقامات پر سورج اور چاند کو بھی نور کہا گیا ہے جیسے سورہ یونسؑ کی آیت ۴ میں لیکن اکثر مقامات پر نور کا لفظ دراصل ہدایت کے معنی میں گمراہی کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا اگر کتاب کو نور کہا جائے گا تو مراد ہو گی کتاب ہدایت اور اگر رسولﷺ کو نور کہا جائے گا تو مراد رسول ہدایت ہوگا۔ اس میں نہ کوئی اختلاف ہے نہ جھگڑا۔ لیکن اللہ کے نور میں سے نور خدا ہونے کے لئے کوئی دلیل قرآن و حدیث سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ جو ایک روایت یہ لوگ اس بارے میں جگہ جگہ پیش کرتے ہیں اس کی حیثیت کے بارے میں ہم نے شروع میں تحریر کردیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب