سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(09) کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا ہیں؟

  • 13767
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3778

سوال

(09) کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اوڈنس ڈنمارک سے طلعت محمود صاحب لکھتے ہیں

(۱)کیا حضرت علیؓ کو علی مولا اور ’’مشکل کشا‘‘ کہنا درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عربی زبان میں ’’مولیٰ‘‘ کےمختلف معانی ہیں مثلاً مالک وسردار’’غلام‘‘ انعام دینے والا’’محبت کرنے والا‘‘ پڑوسی ’’ مہمان‘‘’’ساتھی‘‘ آزاد شدہ غلام وغیرہ۔

اس لئے اگر کوئی شخص حضرت علی ؓ ابن ابی طالب کو اپنے ساتھی’’محبت کرنے والا‘‘ یا پیارے کےمعنی میں ’’مولیٰ‘‘ کہتا ہے تو یہ جائز ہے لیکن اگر کوئی انہیں آقا و مالک سمجھ کر پکارتا اور بلاتا بھی ہے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ حقیقی مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔

’’ مشکل کشا‘‘ یعنی مشکل یا مصیبت دور کرنے والا یہ کہنا’ پکارنا یا عقیدہ رکھنا بالکل ناجائز ہے اور اگر کوئی شخص حضرت علیؓ کا نام اس عقیدے کے ساتھ پکارتا ہے کہ وہ مشکل دور کرنے پر قادر ہیں تو یہ واضح شرک ہے کیونکہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ زندگی میں ( اسباب کے بغیر) مشکلیں حل کرنے پر قادر تھے اور نہ موت کے بعد وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔

اس سلسلے میں قرآن کی درج ذیل آیات پر اگر غور کر لیا جائے تو ’’مشکل کشائی‘‘ کا یہ مسئلہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی گی۔

﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‌ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يَمسَسكَ بِخَيرٍ‌ فَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ‌ ﴿١٧﴾... سورةالانعام

’’اور اگر اللہ تعالیٰ تمہیں مصیبت سے دوچار کردے تو اس کے سوا اس مصیبت کو ٹالنے والا اور کوئی نہیں وہ کسی کو بھلائی پہنچائے تو وہ ہر بات پر قادر ہے۔‘‘

﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ‌ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِ‌دكَ بِخَيرٍ‌ فَلا ر‌ادَّ لِفَضلِهِ... ﴿١٠٧﴾... سورةيونس

’’اور اگر اللہ کسی کو تنگی میں ڈال دے تو اس تنگی کو اس کے سوا اور کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر کسی کےساتھ وہ بھلائی کا فیصلہ کرلے تو اس کے فضل کو کوئی رد بھی نہیں کرسکتا۔‘‘

﴿إِن يَنصُر‌كُمُ اللَّهُ فَلا غالِبَ لَكُم ۖ وَإِن يَخذُلكُم فَمَن ذَا الَّذى يَنصُرُ‌كُم مِن بَعدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ ﴿١٦٠﴾... سورةآل عمران

’’اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر اس نے تمہیں رسوا کردیا تو پھر کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں۔‘‘

اب ان آیات کے بعد ’’یا علی مدد‘‘ کہنا اور ’’علی مشکل کشا‘‘ کہنا کس زمرے میں آتا ہے ۔ قرآنی احکام کی روشنی میں اس کا تعین کرنا چنداں مشکل نہیں۔

حضرت علیؓ کے دور میں جو فتنے پیدا ہوئے اور حضرت معاویہؓ کی الگ خلافت کی جومشکل پیش آئی وہ زندگی میں اس مشکل کو حل نہ کرسکے پھر خود اچانک شہید کردیئے گئے کے لخت جگر حضرت حسینؓ کو ظالمانہ  طریقے سےشہید کیا گیا مگر وہ کسی کی بھی مدد نہ کرسکے اور نہ ہی مشکل حل کرسکے تو آج وہ کسی کے پکارنے پر اس کی مشکل حل کرنے یا مدد کرنے پر آخر کس طرح قادر ہوسکتے ہیں؟

اس طرح کے عقائد و خیالات قرآنی تعلیمات سے جہالت کہ بنا پر ہی پیدا ہوتے ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص68

محدث فتویٰ

تبصرے