السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض مساجد کے خطیب صاحب وتر پڑھانے کے بعد مسجد کی تمام بتیاں بجھا کر بری گریہ زاری کے ساتھ چیخیں مار مار کر روتے اور چلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں، نیز مساجد میں حاضرین کے لیے سحری کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ مجلس صبح صادق کے قریب برخاست ہوتی ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وتروں کے بعد یا ختم قرآن کے موقع پر بتیاں بجھا کر گریہ زاری کرنا اور چیخیں مار مار کر اجتماعی طور پر دعا مانگنا رسول اللہﷺ، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے ہرگز ثابت نہیں، بلکہ ائمہ سلف نے نہ صرف اس قسم کی دعا سے سختی کے ساتھ منع کیا جائے بلکہ اس کو بدعت لکھا ہے، جیسا کہ امام مالکؒ امام طرطوشی، امام ابو شامہ اور علامہ امیر الحاج کے حوالہ سے اوپر لکھا ہے۔ مزید پڑھیے:
عن ابن القاسم قال سئل مالك عن الذی یقرأ القرآن فیختمه ثم یدعو قال ما سمعت انه یدعی عند القرآن وما ھو من عمل الناس۔ (کتاب المحوادث والبدع: ص۴۹، المدخل ج۲ ص۳۰۸)
’’امام مالک سے ایسے آدمی کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا جو قرآن مجید کے ختم پر (اجتماعی) دعا مانگنا ہے تو امام مالکؒ نے فرمایا کہ میں نے سنا کہ ختم قرآن پر اجتماعی دعا بھی مانگی جاتی ہے اور نہ اس پر اہل علم کا عمل ثابت ہے۔‘‘
وروی ابن القاسم أیضا عن مالك أَنَّ ابا سلمة بن عبدالرحمٰن رای رجلا یدعو رافعا یدیه فانکر ذلك وقال لا تقلصوا تقلیص الیھود۔ قال مالك التقلیص رفع الصوت بالدعاء ورفع الیدین۔ (المدخل: ۳۰۸، ج۲)
’’حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے ایک آدمی کو دیکھا کہ کھڑا ہو کر ہاتھ اونچے اٹھا کر بلند آواز کے ساتھ دعا کر رہا تھا۔ تو کہا کہ تم یہودیوں کی طرح بلند آواز کے ساتھ اور معمول سے زیادہ اونچے ہاتھ اٹھا کر دعا نہ مانگو۔‘‘
موصوف مزید لکھتے ہیں:
ینبغی له أن یتجنب ما احدثوہ بعد ختم القرآن من الدعاء یرفع الاصوات والزعقات وقال اللہ تعالیٰ فی محکم کتابه العزیز اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیة وبعض ھؤلاء یعرضون عن التضرع والخفیة بالدعاء والزعقات مخالف للسنة المطھرة۔ (المدخل: ج۲، ص۳۰۴)
’’سائل کو مناسب ہے کہ لوگوں نے ختم قرآن پر بلند آواز اور شوروغوغا اور چیخ وپکار کے ساتھ دعا مانگنے کی جو بدعت نکال رکھی ہے اس سے الگ تھلگ رہے کیونکہ یہ بدعت اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیۃً(الاعراف:۵۵) کے خلاف ہے۔ بعض لوگ دعا میں اس آیت کے حکم سے اعراض کر کے سنت کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
امام شاطبی اجتماعی دعا پر نکیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَعَنْ أَبِي مُوسَى؛ قَالَ: «كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَجْهَرُونَ بِالتَّكْبِيرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْبِعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ؛ إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا؛ إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا، وَهُوَ مَعَكُمْ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ مِنْ تَمَامِ تَفْسِيرِ الْآيَةِ اُدْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفُیَۃً اِنَّہُ لَا یُحِبُ الْمُعْتَدِیْنَ (الاعراف:۵۵) وقد جاء عن السلف أیضا النھی عن الاجتماع علی الذکر والدعاء بالھیئۃ التی یجتمع علیھا ھؤلاء المبتدعون۔ (الاعتصام للشاطبی: ج۱، ص۲۱۷)
’’ایک سفر میں صحابہ کرام اونچی اونچی تکبیر کہنے لگے تو آپﷺ نے فرمایا سکون اختیار کرو۔ تم سمیع اور قریب خدا کا ذکر کر رہے ہو۔ اور سلف نے اکٹھے ہو کر ذکر کرنے سے اور خاص ہیئت کے ساتھ اجتماعی طور پر مبتدعین کی طرح دعا مانگنے سے منع کر دیا ہے۔‘‘
امام امیر الحاج نے تو یہاں تک لکھا ہے، اگر کوئی آدمی ایسی بدعات کو روکنے پر قادر نہ ہو تو اس کو اپنے گھر میں نماز پڑھ لینی چاہیے اور مسجد میں جانا چھوڑ دے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ختم قرآن پر بتیاں بجھا کر چیخ وپکار اور بلند آواز کے ساتھ دعا مانگنی بدعت ہے۔ اس سے اجتناب لازم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب