سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(217) اصحابِ کہف کا کتا

  • 13738
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3405

سوال

(217) اصحابِ کہف کا کتا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم ایک مسئلے کی تحقیق مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ بعض مولوی حضرات بڑے زور و شور اور جوشِ خطابت کے نشے میں سرشار ہوکر یہ فرماتے ہیں کہ اصحاب کہف کا کتا بھی اپنی وفاداری کے سبب جنت میں جائے گا، جب کہ کتا نجس العین ہے اور جنت پاکیزہ مقام ہے جو اللہ کے مقربین کے لئے مخصوص ہے اس میں حرام اور نجس جانور ک دخول کا کیا تک بنتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض الناس کا یہ قول کہ ’’اصحابِ کہف کا کتا جنت میں داخل ہوگا‘‘ اس کی کوئی دلیل میرے علم میں نہیں ہے۔ جو شخص اس پر بضد ہے کہ یہ کتا ضرور جنت میں جائے گا اس سے دلیل طلب کریں اور مجھے لکھ کر بھیج دیں۔ محمد بن موسیٰ الدمیری (۷۴۲ھ تا ۸۰۸ھ) نے بغیر کسی سند کے خالد بن معدان سے نقل کیا ہے کہ جنت میں تین جانوروں کے علاوہ اور کوئی جانور نہیں جائے گا، اصحابِ کہف کا کتا، عزیر علیہ السلام کا گدھا اور صالح علیہ السلام کی اونٹنی۔( حیوۃ الحیوان ج۲ ص۲۶۲)

یہ بے سند و بے حوالہ قول ہے۔

امداد اللہ انور دیوبندی نے ابن نجیم حنفی (متوفی ۹۷۱ھ) اور المستطرف (غیر مسند اور ناقابل اعتماد کتابض کے حوالے سے لکھا ہے کہ جنت میں پانچ جانور جائیں گے۔ اصحابِ کہف کا کتا، اسماعیل علیہ السلام کا دنبہ، صالح علیہ السلام کی اونٹنی، عزیر علیہ السلام کی گدھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی براق۔ (جنت کے حسین مناظر ص۵۳۱)

امداد اللہ دیوبندی نے حموی شرح الاشباہ والنظائر وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ قتادہ (تابعی) کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی، موسیٰ علیہ السلام کی گائے، یونس علیہ السلام کی مچھلی، سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی اور بلقیس کا ہدہد۔ (جنت کے حسین مناظر ص۵۳۱، ۵۳۲)

اسی متروک دیوبندی نے سیوطی سے نقل کیا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کا بھیڑیا بھی جنت میں جائے گا۔ (ایضاً ص۵۳۲)

یہ سب بے سند اور بے اصل حوالے ہیں جن کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اصحابِ کہف کا کتا جنت میں جائے گا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص499

محدث فتویٰ

تبصرے