سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(212) ولید بن مغیرہ اور جاوید احمد غامدی

  • 13733
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3182

سوال

(212) ولید بن مغیرہ اور جاوید احمد غامدی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ صحیح ہے کہ مشرکینِ مکہ میں سے ولید بن مغیرہ المخزومی نے جب قرآن سنا تو بے اختیار کہہ اٹھا: ’’بخدا، تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھ کر نہ شعر سے واقف ہے نہ رجز اور قصیدہ سے اور نہ جنوں کے الہام سے۔ خدا کی قسم، یہ کلام جو اس شخص کی زبان پر جاری ہے، ان میں سے کسی چیز سے مشابہ نہیں ہے۔ بخدا، اس کلام میں بڑی حلاوت اور اس پر بڑی رونق ہے۔ اس کی شاخیں ثمربار ہیں، اس کی جڑیں شاداب ہیں، یہ لازماً غالب ہوگا، اس پر کوئی چیز غلبہ نہ پاسکے گی اور یہ اپنے نیچے ہر چیز کو توڑ ڈالے گا۔‘‘ (السیرۃ النبویہ لابن کثیر ۱؍۴۹۹ بحوالہ میزان تصنیف: جاوید احمد غامدی ص۱۷)

اصولِ حدیث اور اسماءالرجال کی روشنی میں اس واقعے کی تحقیق کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مذکورہ واقعہ اپنی تفصیل کے ساتھ حافظ ابن کثیر کی کتاب: السیرۃ النبویہ اور البدایہ والنہایہ (نسخہ محققہ ج۳ص۲۷۴) میں بحوالہ بیہقی نقل کیا گیا ہے۔

امام بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ (ج۲ص۱۹۸) میں یہ واقعہ درج ذیل سند سے موجود ہے:

’’حدثنا محمد بن عبداللہ الحافظ قال: اخبرنا ابوعبدالله محمد بن علی الصنعانی بمکة قال: حدثنا اسحاق بن ابراهیم قال: اخبرنا عبدالرزاق عن معمر عن ایوب السختیانی عکرمة عن ابن عباس ‘‘

امام بیہقی کے استاد محمد بن عبداللہ الحافظ (حاکم نیشاپوری) کی کتاب المستدرک (ج۲ص۵۰۷ ح۳۸۷۲) میں یہ روایت اسی سند اور متن سے موجود ہے۔ حاکم اور ذہبی دونوں نے اسے صحیح کہا ہے۔ (!)

محمد بن علی بن عبدالحمید الصنعانی کی حدیث کی تصحیح سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدوق تھے۔ ان کی وفات ۳۸۱ھ تا۴۰۰ھ کے درمیان ہوئی ہے۔

دیکھئے تاریخ الاسلام  للذہبی (ج۲۷ ص۴۰۸)

اس روایت میں اسحاق بن ابراہیم سے مراد الدبری ہے، جس کی پانچ دلیلیں پیشِ خدمت ہیں:

۱:             مستدرک الحاکم میں حاکم نے محمد بن علی بن عبدالحمید عن اسحاق بن ابراہیم بن عباد کی سند سے روایتیں لکھی ہیں۔ مثلاً دیکھئے ج۱ص۴۳ ح۱۳۰

بلکہ بعض مقامات پر اسی راوی سے ’’ثنا اسحاق بن ابراہیم الدبری‘‘ کی صراحت موجود ہے۔ دیکھئے المستدرک ج ۴ ص۴۲۲ ح۸۳۰۲

۲:            مشہور محدث واحدی نے ابوالقاسم الخدامی (عبدالرحمٰن بن احمد بن محمد بن عبدان العطار، وثقہ عبدالغافرفی المنتخب من السیاق ص۴۸۱ ت۱۰۲۰) عن محمد بن عبداللہ بن نعیم (الحاکم) سے روایت کیا ہے اور اسحاق بن ابراہیم الدبری کی صراحت کی ہے۔ دیکھئے اسباب النزول للواحدی (ص۳۷۵۔ ۳۷۶، سورۃ المدثر)

تنبیہ:  اسباب النزول میں کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی سے ’’اسحٰق بن ابراہیم اللزبری‘‘ چھپ گیا ہے۔!

۳:            محمد بن علی بن عبدالحمید کی وفات اگر ۳۸۱ھ تسلیم کرلی جائے تو امام اسحاق بن راہویہ ان سے ۱۴۳سال پہلے ۲۳۸ھ میں فوت ہوئے تھے۔

فرض کریں کہ جس سال امام اسحاق بن راہویہ فوت ہوئے تھے، اسی سال محمد بن علی پیدا ہوئے تو اس لحاظ سے ان کی عمر ۱۴۳ سال بنتی ہے جو بہت زیادہ اور غیرمعمولی ہے لہٰذا کتبِ حدیث میں اس کا تذکرہ نہ ہونا اس کی دلیل ہے کہ محمد بن علی بن عبدالحمید نے امام اسحاق بن راہویہ کو نہیں پایا تھا اور نہ وہ ان کے زمانے میں موجود تھے۔

۴:            حافظ ذہبی نے محمد بن علی کے ذکر کے بعد فرمایا: ’’سمع من اسحاق الدبری جملة صالحة وحدث بمکة‘‘ انھوں نے اسحاق الدبری سے اچھی روایتیں سنی تھیں اور مکے میں حدیث بیان کی۔ (تاریخ الاسلام ۲۷؍۴۰۸)

۵:            امام اسحاق بن راہویہ کی سند سے یہ روایت حدیث کی کسی باسند کتاب میں نہیں ملی۔ معلوم ہوا کہ حافظ ابن کثیر الدمشقی رحمہ اللہ کا اور ان کی اتباع میں متعدد علماء مثلاً شیخ البانی رحمہ اللہ (صحیح السیرۃ النبویہ ص۱۵۸) کا اس روایت کو امام اسحاق بن راہویہ (اسحاق بن ابراہیم بن مخلد) کی طرف منسوب کرنا غلط ہے، اور صحیح یہ ہے کہ اسے اسحاق بن ابراہیم بن عباد الدبری نے بیان کیا تھا۔

حافظ ابن کثیر کی غلطی کی وجہ یہ ہے کہ اسحاق بن ابراہیم الدبری اور اسحاق بن ابراہیم بن مخلد عرف ابن راہویہ میں ولدیت کا نام مشترک ہے لہٰذا انھیں تحقیق کا موقع نہ مل سکا۔ واللہ اعلم۔

مصنف عبدالرزاق کی عام روایتوں کے علاوہ اسحاق بن ابراہیم الدبری کی عبدالرزاق بن ہمام سے روایتیں دو وجہ سے ضعیف ہیں:

۱:             عبدالرزاق آخری عمر میں نابینا ہونے کے بعد اختلاط (حافظے کی کمزوری) کا شکار ہوگئے تھے۔

امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ہم عبدالرزاق کے پاس ۲۰۰ (ہجری) سے پہلے آئے تھے اور ان کی نظر صحیح تھی، جس نے ان کی نظر چلی جانے کے بعد ان سے سنا ہے تو اس کا سماع ضعیف ہے۔ (تاریخ دمشق لابی زرعۃ الدمشقی:۱۱۶۰، وسندہ صحیح)

امام نسائی نے فرمایا: ’’فیه نظر لمن کتب عنه بآخرة‘‘

جس نے ان کے آخر میں ان سے لکھا ہے، اس میں نظر ہے۔ (کتاب الضعفاء:۳۷۹)

اسحاق بن ابراہیم الدبری نے عبدالرزاق سے ان کے بہت زیادہ آخری دور میں سنا تھا۔ دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح (ص۴۶۰، دوسرا نسخہ ص۴۹۸)

دبری نے (عبدالرزاق کی وفات ۲۱۱ھ سے پہلے) ۲۱۰ھ میں ان سے سنا تھا۔

دیکھئے الکواکب النیرات مع تحقیق عبدالقیوم بن عبدرب النبی (ص۲۷۵)

۲:            اسحاق الدبری نے جب عبدالرزاق سے سنا تو اس کی عمر سات سال کے قریب تھی۔ دیکھئے میزان الاعتدال (ج۱ ص۱۸۱، دوسرا نسخہ ج۱ ص۳۳۲)

اس کی توثیق کے باوجود حافظ ذہبی نے کہا: ’’لکن روی عن عبدالرزاق احادیث منکرۃ۔۔۔‘‘ لیکن اس نے عبدالرزاق سے منکر حدیثیں بیان کیں۔ (میزان الاعتدال ۱؍۱۸۱)

دبری کی بیان کردہ روایتِ مذکورہ کے خلاف ثقہ راوی سلمہ بن شبیب کی بیان کردہ اسی روایت کی سند درج ذیل ہے: ’’عبدالرزاق عن معمر عن رجل عن عکرمۃ: ان الولید بن المغیرۃ جاء۔۔۔‘‘ (تفسیر عبدالرزاق ج۲ص۲۶۳ ح۳۳۸۴)

عبدالرزاق کے علاوہ یہی روایت محمد بن ثور الصنعانی نے ’’معمر عن عباد بن منصور عن عکرمۃ‘‘ کی سند کے ساتھ مرسلاً بیان کی ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری ج۲۹ ص۹۸ وسندہ صحیح الیٰ عبدالرزاق)

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اسحاق بن ابراہیم الدبری کی بیان کردہ روایت شاذ یا منکر ہے اور اگر یہ عبدالرزاق تک صحیح بھی ہوتی تو دو وجہ سے ضعیف ومردود ہے:

۱:             عبدالرزاق مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے۔

۲:            تفسیر عبدالرزاق اور محمد بن ثور (ثقہ) کی روایتوں کی روشنی میں محفوظ روایت مرسل ہے اور مرسل کی سند میں بھی رجل (عباد بن منصور؍ضعیف مدلس) ہے لہٰذا یہ روایت صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے۔

جاوید احمد غامدی نے اپنی کتاب میزان کی ابتدا میں یہ ضعیف روایت پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ غامدی میزان کا تحقیق اور علم حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بطورِ فائدہ عرض ہے کہ محمد بن عمران المرزبانی (معتزلی مجروح عندالجمہور) نے بغیر سند کے نقل کیا کہ فرزدق نے لبید بن ربیعہ کا ایک شعر سنا تو خچر سے اتر کر سجدہ کیا۔ (الاصابہ۳؍۳۲۷)

حافظ ابن عبدالبر نے بغیر سند کے نقل کیا کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لبید سے شعر سنانے کی فرمائش کی تو انھوں نے کہا: بقرہ اور آل عمران کے بعد اب شعر کہاں؟ (الاستیعاب ج۳ص۳۲۷، میزان الغامدی ص۱۷)

یہ دونوں بے سند حوالے جاوید احمد غامدی نے بطورِ جزم نقل کیے ہیں۔

ہرشخص پر ضروری ہے کہ جو حوالہ بھی پیش کرے، اس کی خود تحقیق کرے اور تحقیق کے بعد ہی اسے پیش کرے۔ اگر وہ خود تحقیق نہیں کرسکتا تو حوالے پیش نہ کرے بلکہ علماء کی طرف رجوع کرکے تحقیق کرانے کے بعد ہی استدلال کرے، ورنہ وہ اس حدیث کا مصداق بن جائے گا جس میں آیا ہے: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کرتا پھرے۔ دیکھئے صحیح مسلم (۵، ترقیم دارالسلام:۷، ۸)

ان دوبے سند حوالوں اور ایک ضعیف روایت سے استدلال نے یہ ثابت کردیا کہ روایات کی تحقیق اور دینی مسائل میں جاوید احمد غامدی پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے۔ (۳۰؍نومبر ۲۰۰۹ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص485

محدث فتویٰ

تبصرے