السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قاضی ابویوسف یعقوب بن ابراہیم (متوفی ۱۸۲ھ) کی طرف منسوب کتاب ’’الرد علیٰ سیر الاوزاعی‘‘ میں لکھا ہوا ہے:
’’حدثنا ابن ابی کریمة عن ابی جعفر عن رسول الله صلی الله علیه وسلم انه دعا الیهود فسالهم فحدثوه حتی کذبوا علیٰ عیسیٰ علیه الصلوة والسلام، فصمد النبی صلی الله علیه وسلم المنبر فخطب الناس فقال: ان الحدیث سیفشو عنی فما اتاکم عنی یوافق القرآن فهو عنی، وما اتاکم عنی یخالف القرآن فلیس عنی‘‘ ہمیں (خالد) ابن ابی کریمہ نے ابوجعفر (عبداللہ بن مسور) سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلا کر پوچھا، تو انھوں نے حدیثیں بیان کیں حتیٰ کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام پر جھوٹ بولا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: میرے بارے میں حدیثیں پھیل جائیں گی پس تمھارے پاس میری کوئی حدیث قرآن کے مطابق پہنچے تو وہ میری حدیث ہے۔ اور تم تک میری طرف سے جو روایت قرآن کے مخالف پہنچے تو وہ میری حدیث نہیں ہے۔ (ص۲۴، ۲۵)
کیا یہ روایت صحیح و قابلِ اعتماد ہے؟ تحقیق کرکے جواب دیں۔ شکریہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ روایت موضوع ہے۔
دلیل اول:اس روایت میں ابوجعفر سے مراد عبداللہ بن مسور (الہاشمی) ہے۔
دیکھئے التاریخ الکبیر للبخاری (۳؍۱۶۸) الثقات لابن حبان (۶؍۲۶۲) تاریخ بغداد (۸؍۲۹۲) واخبار اصبہان (۱؍۳۰۵)
حافظ ابونعیم الاصبہانی لکھتے ہیں: ’’ابوجعفر هو عبداللہ بن مسور‘‘ (اخبار اصبہان ۱؍۳۰۵)
اس عبداللہ بن مسور کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے کہا: ’’کان یضع الحدیث ویکذب‘‘ وہ حدیثیں گھڑتا اور جھوٹ بولتا تھا۔ (کتاب الجرح والتعدیل ۵؍۱۶۹وسند صحیح)
ابن حبان نے کہا: وہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا اور تھوڑی روایتیں بیان کرنے کے باوجود بے اصل مرسل روایتیں بیان کرتا تھا۔ اگر وہ ثقہ راویوں کی موافقت بھی کرے تو اس کی روایت سے استدلال جائز نہیں ہے۔ (کتاب المجروحین۲؍۲۴)
ذہبی نے کہا: ’’یکذب‘‘ وہ جھوٹ بولتا تھا۔ (دیوان الضعفاء والمتروکین: ۲۳۱۳)
یہ شخص بالاجماع کذاب و مجروح ہے۔
تنبیہ: تہذیب الکمال اور تہذیب التہذیب میں غلطی سے خالد بن ابی کریمہ کے استادوں میں ابوجعفر الباقر کا نام لکھ دیا گیا ہے جس کا کوئی ثبوت سلف صالحین سے نہیں ہے۔
دلیل دوم: ابوجعفر عبداللہ بن مسور کی مرسل روایات بے اصل ہوتی ہیں۔
دلیل سوم: قاضی ابویوسف بذاتِ خود جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور مردود الراویۃ ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث:۱۹ص۴۵ تا۵۵
دلیل چہارم: کتاب الرد علی سیر الاوزاعی باسند صحیح قاضی ابویوسف سے ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے الحدیث: ۱۹ص۵۳، ۵۴
دلیل پنجم: یہ موضوع روایت قرآن مجید کی آیت: ﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ...٧﴾...سورة الحشر" اور تمھیں رسول جو(حکم ) دےاسے لے لو۔ (الحشر:۷) کے سراسر خلاف ہونے کی وجہ سے بھی مردود ہے۔
ابوالوفاء الافغانی (متروک الحدیث) نے اس روایت کے کچھ موضوع اور باطل شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھئے حاشیہ الرد علی سیر الاوزاعی (ص۲۵ تا۲۸)
یہ تمام شواہد موضوع، باطل اور مردود ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب