سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(203) جناتی بندر اور زنا

  • 13724
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2148

سوال

(203) جناتی بندر اور زنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد رفیع مفتی ’’ریسرچ فیلو ادارہ اشراق لاہور‘‘ فرماتے ہیں کہ

’’بخاری میں بھی غلط احادیث موجود ہیں مثلاً بخاری کی یہ حدیث کی عمروبن میمون کہتے ہیں: ’’میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بندریا کو دیکھا، اس نے زنا کیا تھا اور اس کے پاس بہت سے بندر جمع تھے (میرے سامنے) ان بندروں نےاسے سنگسار کیا (یہ دیکھ کر) میں نے بھی ان کے ساتھ اسے سنگسار کیا‘‘ [بخاری، رقم:۳۸۴۹] اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور جانور دونوں ہی یکساں طور پر انسانی شریعت کے مکلف ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔‘‘

میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ محمد رفیع صاحب کی اس بات میں کتنی حقیقت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محمد رفیع صاحب کی اس بات میں ذرا برابر حقیقت نہیں ہے کیونکہ روایتِ مذکورہ بلحاظ سند حسن لذاتہ وبلحاظِ متن بالکل صحیح ہے۔

اس کی مفصل تحقیق کے لیے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: ۲۴ ص۲۰

روایتِ مذکور نہ حدیثِ رسول ہے اور نہ اثرِ صحابی بلکہ ایک تابعی کا قول ہے اور اس میں بندروں سے مراد جن ہیں۔

دیکھئے فتح الباری (ج۷ص۱۶۰) اور الحدیث حضرو: ۲۴ص۲۰

یہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ جن مکلف مخلوق ہے اور جنوں کا مختلف اشکال اختیار کرنا بھی ثابت ہے لہٰذا تابعی کے اس قول پر اعتراض عجیب و غریب ہے۔!

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص472

محدث فتویٰ

تبصرے