سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(201) «انه لا یستغاث بی وانما یستغاث بالله» کی تحقیق

  • 13722
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1450

سوال

(201) «انه لا یستغاث بی وانما یستغاث بالله» کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک دفعہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عبداللہ بن ابی سے تنگ آکر ایک دوسرے کو یہ کہا کہ آؤ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فریادرسی کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی یہ بات سن کر فرمایا: «انه لا یستغاث بی وانما یستغاث بالله» (طبرانی ومسند احمد)

اس حدیث کی بھی تحقیق مطلوب ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت «انه لا یستغاث بی وانما یستغاث بالله» [بے شک مجھ سے مدد نہیں مانگی جاتی بلکہ مدد تو صرف اللہ سے مانگی جاتی ہے] طبرانی نے درج ذیل سند و متن سے بیان کی ہے: ’’حدثنا احمد بن حماد بن زغبة المصری: حدثنا سعید بن عفیر: حدثنا ابن لهیعة عن الحارث ابن یزید عن علی بن رباح عن عبادة قال قال ابوبکر: قوموا نستغیث برسول الله صلی الله علیه وسلم من هذا المنافق فقال رسول الله صلی الله علیه وسلم: «انا لا یستغاث بی، انما یستغاث بالله عزوجل»‘‘

عبادہ (بن الصامت رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ابوبکر (الصدیق رضی اللہ عنہ) نے کہا: اٹھو اس منافق کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے مدد نہیں مانگی جاتی، مدد صرف اللہ تعالیٰ سے مانگی جاتی ہے۔ (جامع المسانید والسنن لابن کثیر ۷؍۱۴۰ ح۴۹۰۴)

اس روایت کے بارے میں حافظ ہیثمی لکھتے ہیں: ’’رواہ الطبرانی ورجالہ رجال الصحیح غیر ابن لھیعۃ وھو حسن الحدیث‘‘ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں سوائے ابن الہیعہ کے اور حسن الحدیث ہیں۔ (مجمع الزوائد ۱۰؍۱۵۹)

میری تحقیق میں یہ روایت تین وجہ سے ضعیف ہے:

اول:  ابن الہیعہ مدلس ہیں۔ (دیکھئے طبقات المدلسین ۱۴۰؍۵، الفتح المبین ص۷۷)

اور یہ روایت عن سے ہے۔ یہ بات عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔

دوم: ابن لہیعہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ صرف اس وقت حسن الحدیث ہیں جب سماع کی تصریح کریں اور ان کی بیان کردہ روایت ان کے اختلاط سے پہلے کی ہو۔ درج ذیل راویوں نے ان کے اختلاط سے پہلے سنا تھا: (۱) عبداللہ بن المبارک (۲)عبداللہ بن وہب (۳)عبداللہ بن یزید المقری [تہذیب التہذیب ۵؍۳۳۰] (۴)عبداللہ بن مسلمہ القعنبی [میزان الاعتدال ۲؍۲۸۲] (۵)یحییٰ بن اسحاق السیلحینی [تہذیب التہذیب ۲؍۴۲۰] (۶)ولید بن مزید [المعجم الصغیر للطبرانی ۱؍۲۳۱] (۷)عبدالرحمٰن بن مہدی [لسان المیزان ۱؍۱۰، ۱۱] (۸) اسحاق بن عیسیٰ [میزان الاعتدال ۲؍۴۷۷] (۹)سفیان ثوری (۱۰)شعبہ(۱۱)اوزاعی (۱۲)عمرو بن الحارث المصری [ذیل الکواکب النیرات ص۴۸۳] (۱۳)لیث بن سعد [فتح الباری ۴؍۳۴۵ تحت ح۲۱۲۷] (۱۴)بشر بن بکر [الضعفاء للعقیلی ۲؍۲۹۴]

ہمارے علم کے مطابق ان چودہ راویوں کے علاوہ کسی اور راوی کا ابن الہیعہ سے قبل از اختلاط سماع ثابت نہیں ہے جن میں سعید بن کثیر بن عفیر بھی ہیں لہٰذا یہ روایت ابن الہیعہ کے اختلاط کی وجہ سے بھی ضعیف ہے۔

سوم: علی بن رباح اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس حدیث میں ایک راوی ’’رجل‘‘ [مرد] ہے۔ دیکھئے مسند الامام احمد (۵؍۳۱۷ ح۲۲۷۰۶) طبقات ابن سعد (۱؍۲۸۷) اور جامع المسانید لابن کثیر (۷؍۱۴۰)

یہ ’’رجل‘‘ مجہول ہے۔

نیز دیکھئے مجمع الزوائد (۸؍۴۰ قال: رواہ احمد وفیہ راولم یسم وابن الہیعۃ)

خلاصۃ التحقیق: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہیے جیسا کہ قرآن مجید (الانفال :۹، ۱۰) سے ثابت ہے لیکن «انه لا یستغاث بی» الخ والی روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ تیسیر العزیز الحمید کی تخریج ’’النہج السدید‘‘ میں جاسم الدوسری نے بھی اس روایت کو ’’ضعیف ‘‘ قرار دیا ہے (ص۸۸ ح۱۶۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص468

محدث فتویٰ

تبصرے