سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(197) کلمہ طیبہ پڑھنے والی ایک ہرنی کا قصہ

  • 13718
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1932

سوال

(197) کلمہ طیبہ پڑھنے والی ایک ہرنی کا قصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’مارچ ۲۰۰۶ء کے ماہنامہ ’’محدث‘‘ میں امام حرم الشیخ راشد الخالد کا صحن کعبہ میں پیش کردہ وہ خطبۂ جمعہ جس سے تحریک ناموس رسالت نے جنم لیا، کا ترجمہ کیا ہے۔ اس میں امام موصوف کے بیان کردہ اس واقعے کی تحقیق طلب ہے۔ ’’زید بن ارقم ؓ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے کی ایک گلی سے گزر رہے تھے۔ کسی دیہاتی نے ایک ہرنی کو جنگل سے پکڑ کر باندھ رکھا تھا۔ جب وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ ایک ہرنی وہاں بندھی ہوئی ہے۔ ہرنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو شکوہ کناں ہوئی۔ کہ یہ دیہاتی مجھے جنگل سے شکار کرکے لے آیا ہے۔ میرے تھنوں کا دودھ مجھ پر گراں ہوگیا ہے۔ مجھے آزاد کردیں کہ میں اپنے بچوں کے پاس چلی جاؤں اور میرے دودھ سے مجھے آرام مل جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اگر میں تجھے چھوڑ دوں تو کیا تو اکیلی چلی جائے گی؟ اس نے کہا: ہاں چلی جاؤں گی۔ اسی دوران (میں) وہ دیہاتی بھی آگیا، جس نے اسے باندھ رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا اس ہرنی کو بیچوگے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ آپ کی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہرنی کو آزاد کردیا۔ حضرت زید بن ارقمؓ کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے صحرا میں اس کو آواز لگاتے ہوئے سنا۔ وہ کہہ رہی تھی: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ حضرت ام سلمہؓ اور دیگر صحابہؓ سے اس کے اور طرق بھی ہیں۔ (ماہنامہ محدث اپریل ۲۰۰۶ ص۲۸، ۲۹)‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ روایت دلائل النبوۃ للبیہقی (۶؍۳۵) دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی (ص۱۳۳ ح۲۷۳) تلخیص المتشابہ فی الرسم للخطیب (۲؍۷۳۰) میں ’’یعلی بن ابراهیم الغزال: ثتا الهیثم بن حماد علی ابی کثیر عن زید بن ارقم رضی اللہ عنه‘‘ کی سند سے مروی ہے۔ اسے سیوطی نے الخصائص الکبری (۲؍۶۱) میں بیہقی اور ابونعیم سے نقل کیا ہے۔ اس قصے کے راوی یعلیٰ بن ابراہیم کے بارے میں حافظ ذہبی نے کہا: ’’لااعرفه، له خبر باطل عن شیخ واه‘‘ میں اسے نہیں جانتا، اور اس کی (بیان کردہ) خبر باطل ہے جو اس نے ایک کمزور استاد سے بیان کی ہے۔ (میزان الاعتدال ۴؍۴۵۶)

حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا: ’’هذا موضوع‘‘ یہ (روایت) موضوع (من گھڑت) ہے۔ (لسان المیزان ۶؍۳۱۴ وجدید ۷؍۵۱۲)

ہیثم بن حماد اور ابوکثیر کے بارے میں حافظ ذہبی نے کہا کہ یہ دونوں معروف نہیں ہیں۔ (دیکھئے میزان الاعتدال ۴؍۳۲۱)

خطیب نے کہا: ’’الهیثم بن حماد فی عداد المجهولین، یروی عن ابی کثیر شیخ غیر مسمی‘‘ ہیثم بن حماد مجہولوں میں سے ہے، وہ ابوکثیر سے روایت بیان کرتا ہے جس کا نام معلوم نہیں۔ (تلخیص المتشابہ ۲؍۷۳۰)

حافظ ابن حجر کا خیال ہے کہ ہیثم بن حماد سے مراد ہیثم بن جماز ہے۔ (لسان المیزان ۶؍۲۰۴)

’’ضعیف الحدیث، منکر الحدیث‘‘ (الجرح والتعدیل ۹؍۸۱)

معلوم ہوا کہ سیوطی نے خصائص کبریٰ میں موضوع روایتیں بغیر کسی جرح  و تنقید کے نقل کررکھی ہیں لہٰذا اس کتاب کی روایتوں پر بغیر تحقیق کے اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے۔

دوسری روایت: سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت دلائل النبوۃ للبیہقی (۶؍۳۴) میں ’’علی: بن قادم: حدثنا ابوالعلاء خالد بن طھمان عن عطیہ عن ابی سعید‘‘ کی سند سے مروی ہے۔ اس کا بنیادی راوی عطیہ بن سعد العوفی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ (دیکھئے الحدیث:۲۴ص۴۰)

عطیۃ العوفی مدلس تھا۔ (طبقات المدلسین:۱۲۲؍۴)

یہ محمد ابن السائب الکلبی کو ابوسعید کہہ کر اس سے تدلیس کرتا تھا۔ (کتاب المجروحین الابن حبان ۲؍۱۷۶)

محمد بن السائب الکلبی کذاب تھا، دیکھئے ’’الحدیث‘‘ (۲۴ص۵۲تا۵۴)

لہٰذا یہ سند موضوع ہے۔

تیسری روایت: اسے طبرانی (الاوسط: ۵۵۴۳) اور ابونعیم الاصبہانی (دلائل النبوۃ ص۱۳۳ ح۲۷۴) نے ’’محمد ابن عثمان بن ابی شیبۃ: حدثنا ابراہیم بن محمد بن میمون: حدثنا عبدالکریم بن ھلال الجعفی عن صالح لمری عن ثابت البنانی عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ‘‘ کی سند سے روایت کیا ہے۔ اس میں ابراہیم بن محمد بن میمون کٹر شیعہ اور جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔

دیکھئے لسان المیزان (۱؍۱۰۷)

عبدالکریم بن ہلال غیر معروف (مجہول) ہے۔ دیکھئے میزان الاعتدال (۲؍۶۴۷)

ولسان المیزان (۴؍۵۲) ودیوان الضعفاء للذہبی (۲۵۹۷) اور المغنی فی الضعفاء (۳۷۸۶) صالح المری ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب: ۲۸۴۵) ومجمع الزوائد (۸؍۲۹۵)

لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف، مردود اور باطل ہے۔

چوتھی روایت: اسے طبرانی (المعجم الکبیر ۲۳؍۳۳۱، ۳۳۲ ح ۷۶۳) اور ابونعیم الاصبہانی (البدایہ والنہایہ ۶؍۱۵۵) نے ’’حبان بن اغلب بن تمیم کے بارے میں امام بخاری نے کہا: ’’منکر الحدیث‘‘ وہ منکر حدیثیں بیان کرتا تھا۔ (التاریخ الکبیر ۲؍۷۰)

ہیثمی نے کہا: ’’وفیہ اغلب بن تمیم وھو ضعیف‘‘ اور س میں اغلب بن تمیم ہے وہ ضعیف ہے۔ (مجمع الزوائد۸؍۲۹۵)

لہٰذا یہ روایت بھی سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

پانچویں روایت: ابن ابی خثیمہ نے التاریخ الکبیر میں ’’شریک عن عمر بن عبداللہ عن یعلیٰ بن مرۃ عن ابیہ عن جدہ‘‘ کی سند سے بیان کی۔ (المعتبر فی تخریج احادیث المنہاج والمختصر للزرکشی ص۱۱۹، ۱۲۰)

اس میں قاضی شریک مدلس ہیں۔ (طبقات المدلسین۵۶؍۲)

عمر بن عبداللہ بن یعلیٰ ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب: ۴۹۳۳ و تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء ص۷۷)

اس کا باپ عبداللہ بن یعلیٰ بن مرہ ضعیف ہے۔ (دیوان الضعفاء للذہبی: ۲۳۵۳، نیز دیکھئے لسان المیزان ۳؍۳۷۹)

لہٰذا یہ روایت بھی مردود ہے۔

تنبیہ: یہ روایت مجھے ابن ابی خثیمہ کی کتاب ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں نہیں ملی اور نہ حافظ ابن حجر کو یہ روایت کتابِ مذکور میں ملی ہے۔

دیکھئے حاشیہ المعتبر فی تخریج احادیث المنہاج والمختصر (ص۱۲۰)

خلاصۃ التحقیق: ہرنی والا یہ قصہ ثابت نہیں ہے لہٰذا اسے بغیر جرح کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص460

محدث فتویٰ

تبصرے