السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طارق جمیل صاحب فرماتے ہیں: ’’نباتہ بن یزید نخعی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یمن کے علاقے سے اللہ کے راستے میں نکلے، راستے میں گدھا مرگیا، ساتھیوں نے کہا، سامان ہمیں دے دو، کہا: نہیں، چلو میں آتا ہوں، ان کو آگے روانہ کیا، خود مصلی بچھایا، اللہ اکبر، دونفل پرھے: اے میرے مولا، تو ہر چیز سے غنی، میں ہر چیز کا محتاج، تو مردوں کا زندہ کرنے والا، گدھے کی روح تونے قبض کی ہے، مجھے لمبا سفر کرنا ہے، مجھے اس کی ضرورت ہے اے اللہ اسے زندہ کردے، یہ کہہ کر اٹھے، چھڑی اٹھائی اور ایک ماری، کہا: اٹھو اللہ کے حکم سے، وہ ایک دم گدھا کود کے کھڑا ہوگیا‘‘ (دلچسپ اصلاحی واقعات ص۲۲۳) کیا یہ واقعہ صحیح ثابت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ واقعہ حافظ ابن حجر نے الاصابۃ میں ابوبکر بن درید کی کتاب ’’الاخبار المنثورہ‘‘ سے ’’ابن الکلبی عن ابیہ عن مسلم بن عبداللہ بن شریک النخعی‘‘ کی سند سے نقل کیا ہے۔ (ج۳ص۵۸۲، القسم الثالث: ت۸۸۵۰)
اس کا راوی محمد بن السائب الکلبی کذاب ہے۔
سلیمان التیمی نے کہا: ’’کان بالکوفة کذابان احدهما الکلبی‘‘ کوفہ میں دو کذاب (جھوٹے راوی) تھے ان میں سے ایک کلبی ہے۔ (تہذیب التہذیب ۹؍۱۵۷)
یزید بن زریع کہتے ہیں: ’’اشھد ان الکلبی کافر‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ کلبی کافر ہے۔ (تہذیب التہذیب ۹؍۱۵۸)
جوزجانی نے کہا: ’’کذاب ساقط‘‘ کلبی جھوٹا ساقط ہے۔ (تہذیب التہذیب۹؍۱۵۹)
اس کا دوسرا راوی ہشام بن محمد بن السائب الکلبی ہے۔
اس کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: ’’متروک‘‘ ابن عساکر نے کہا:
’’رافضی لیس بثقۃ‘‘ یہ رافضی ہے ثقہ نہیں ہے۔ (لسان المیزان ۶؍۱۹۶)
تنبیہ: ابن الکلبی تک سند نامعلوم ہے۔
خلاصۃ التحقیق: یہ روایت موضوع (جعلی، من گھڑت) ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب