سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(177) کیا امام ابوحنیفہ نے کوئی کتاب لکھی تھی؟

  • 13698
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1519

سوال

(177) کیا امام ابوحنیفہ نے کوئی کتاب لکھی تھی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہلِ حدیث میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کوئی کتاب نہیں لکھی، ان کے اقوال ان کی وفات کے تقریباً تین سو سال بعد کتب فقہ کی شکل میں لکھے گئے۔ دیوبندی حضرات سے جب گفتگو ہوتی ہے تو وہ ایک کتاب (مسندِ امام اعظم رحمہ اللہ) کا نام لیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتاب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔ کیا یہ کتاب واقعی ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی لکھی ہوئی ہے یا نہیں اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس وقت دنیا میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں ہے جسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نےخود لکھا یا مرتب کیا ہو۔ یہ عین ممکن ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کچھ کتابیں لکھیں ہوں مگر صد افسوس کہ حنفیت کے دعویداروں نے ان کتابوں کو ضائع کردیا ہے یا وہ مرور زمانہ کی نذر ہوگئیں ہیں۔ واللہ اعلم

’’مسند امام اعظم‘‘ کے نام سے جو مسند متاخرین کے ہاں مشہور ہوگئی ہے، اس کے مقدمے میں عبدالرشید نعمانی دیوبندی نے لکھا ہے کہ ’’اس وقت جس کتاب کا ترجمہ مسند امام اعظم کے نام سے پیش کیا جارہا ہے یہ درحقیقت امام عبداللہ حارثی کی تالیف ہے۔ جس کا اختصار علامہ حصکفی نے کیا ہے اور ملا عابد سندی نے اس کی ابواب فقہ پر ترتیب کی ہے۔‘‘ (ص۲۴ طبع: ادارہ نشریات اسلام، اردوبازار لاہور)

حارثی مذکور  کی ولادت ۲۶۴ھ اور وفات ۳۷۵ھ ہے۔ کل عمر ۸۱ سال تھی۔ دیکھئے لسان المیزان (ج۳ص۴۲۹ترجمہ ۴۷۸) یعنی یہ شخص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وفات (۱۵۰ھ) کے ۱۱۴سال بعد پیدا ہوا تھا۔ اسے امام احمد السلیمانی وغیرہ نے کذاب کہا ہے۔ ابوزرعہ، احمد بن الحسین الرازی، حاکم، خطیب اور الخلیلی نے جرح کی ہے اور کسی نے بھی اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ (دیکھئے میزان الاعتدال ۲؍۴۹۶ ولسان المیزان ۳؍۳۴۸، ۳۴۹)

لہٰذا یہ شخص بالاتفاق ضعیف اور مہتمم بالکذب ہے، ایسے شخص کی روایت، اصولِ حدیث کی رُو سے مردود ہوتی ہے۔ حارثی سے لے کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تک (اکثر)اسانید (بھی) نامعلوم (اور مردود) ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص408

محدث فتویٰ

تبصرے