سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) سرفراز خان صفدر کا علمی و تحقیقی مقام!

  • 13657
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3424

سوال

(136) سرفراز خان صفدر کا علمی و تحقیقی مقام!

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سرفراز خان صفدردیوبندی نے ایک کتاب لکھی ہے: ’’مقامِ ابی حنیفہ‘‘

اس کتاب میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کی تعریف و توثیق کے بارے میں بہت سے محدثین کرام کے اقوال لکھے ہیں اور کتابوں کے حوالے بھی دئیے ہیں۔ کیا یہ اقوال ان محدثین کرام سے ثابت ہیں، جن کا سرفراز خان صفدر مذکور نے ذکر کیا ہے؟

کسی ڈاکٹر انوار احمد اعجاز(؟) نے سرفراز خان کے بارے میں لکھا ہے:

’’امام اہل سنت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا نام نامی ملت اسلامیہ میں اپنے تحقیقی وعلمی کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آپ نے ۵۰ کے قریب کتب یادگار چھوڑی ہیں جن کا علمی و تحقیقی معیار نہایت بلند ہے۔

۔۔۔ لیکن ’’احسن الکلام‘‘، ’’تسکین الصدور‘‘، ’’اظہار العیب‘‘، ’’الکلام المفید‘‘، ’’راہ سنت‘‘، ’’شوق حدیث‘‘، ’’طائفہ منصورہ‘‘ اور ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ میں جس انداز سے علمی و تحقیقی اور فنی کمالات کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس کی بدولت ان تصنیفات نے برصغیر کے سبھی دینی مفکرین سے بے پناہ دادپائی، خاص طور پر ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ تو ایک ایسا شاہکار ہے کہ اس کی نظیر شاید ہی پیش کی جاسکے۔‘‘ (دیوبندی رسالے: الشریعہ کا سرفراز خان صفدر نمبر ص۲۰۳، بمطابق جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

کیا درج بالا باتیں صحیح ہیں اور کیا واقعی مقامِ ابی حنیفہ نامی کتاب میں علمی و تحقیقی اور فنی کمالات کا مظاہرہ کیا گیا ہے؟

غیرجانبدارانہ تحقیق اور انصاف سے جواب دیں۔ جزا کم اللہ خیرا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمدللہ رب العالمین والصلوٰة والسلام علی رسوله الامین، امابعد:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿واذا قلتم فاعدلوا﴾

اور جب تم بات کرو تو عدل (انصاف) کرو۔ (الانعام:۱۵۲)

نیز فرمایا: ﴿ولا یجرمنکم شنان قوم علی الا تعدلوا اعدلو هواقرب للتقوی﴾ کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر  نہ اُکسائے کہ تم انصاف نہ کرو۔ (بلکہ) عدل و انصاف کرو، یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ (المائدہ:۸)

اس اصول کو دل و جان سے پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ کے خط کا جواب درج ذیل ہے: جو کتابیں اپنے مصنفین سے ثابت ہیں، ان کی دو قسمیں ہیں:

اول:        کتاب کے مصنف نے یہ شرط لگائی ہے کہ میری کتاب کی ہر روایت اور ہر قول میرے نزدیک باسند صحیح ثابت ہے مثلاً صحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام مرفوع مسند متصل احادیث۔ اگر ایسی کتاب کو امت کا بالاتفاق تلقی بالقبول حاصل ہو تو اس کی روایات پر اعتماد کیا جاتا ہے اور بغیر کسی خوف کے ان روایات کا حوالہ دینا جائز ہے۔

دوم:         کتاب کے مصنف نے صحیح یا ضعیف کی کوئی شرط نہیں لگائی بلکہ کسی خاص مقصد کے لیے ہر قسم کی روایات یا اقوال جمع کرکے لکھ دئیے مثلاً تاریخ بغداد للخطیب البغدادی، الانتقاء لابن عبدالبر، مناقب موفق المکی اور عام کتبِ حدیث و کتبِ تاریخ۔

اس قسم کی تمام کتابوں کی صرف وہی روایت قابلِ اعتماد ہوتی ہے، جس کتاب کا مصنف بذاتِ خود ثقہ و صدوق یعنی قابلِ اعتماد ہو اور جس کی سند صاحبِ کتاب سے آخری قائل و فاعل یا متن تک متصل اور صحیح و حسن لذاتہ ہو۔

اگر یہ شرطیں یا ان میں سے ایک شرط مفقود ہو تو پھر ایسی کتابوں سے کوئی روایت یا قول نقل کرکے جلد اور صفحے کا حوالہ دینا بے فائدہ اور فضول ہے بلکہ مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے جو کہ شرعاً حرام ہے۔

اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ محمد سرفراز خان صفدر کڑمنگی دیوبندی نے ’’مقامِ ابی حنیفہ‘‘ نامی کتاب میں کتابوں کا حوالہ دے کر امام ابوحنیفہ کی تعریف و توثیق میں جو روایات لکھی ہیں، ان میں سے بہت سی روایات سنداً صحیح و ثابت نہیں بلکہ موضوع، باطل، مردود اور ضعیف ہیں۔ فی الحال ان میں سے بطورِ نمونہ صرف دس روایات مع تحقیق پیشِ خدمت ہیں:

۱) سرفراز خان صفدر نے لکھا ہے:

’’محدث اسرائیلؒ فرماتے تھے کہ نعمانؒ بن ثابتؒ کیا ہی خوب مرد تھے جو ہر ایسی حدیث کے حافظ تھے جس میں فقہ ہوتی تھی اور اس کی وہ خوب بحث و تمحیص کیا کرتے تھے اور اس میں فقہ کی تہ تک پہنچتے تھے۔۔۔(بغدادی جلد۱۳ ص۳۳۹)‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۷۲، نیز دیکھئے ص۱۱۲)

(۱) تاریخ بغداد (ج۱۳ ص ۳۳۹ ت ۷۲۹۷) اور کتاب: اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ للصمیری (ص۹) کی اس روایت کی سند میں ابوالعباس احمد بن محمد بن الصلت بن المغلس الحمانی المعروف بابن عطیہ راوی ہے، جس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’کان ینزل المشرقیة ببغداد، رأیته فی سنة سبع وتسعین ومائتین۔۔۔ وما رأیت فی الکذابین اقل حیاء منه‘‘

وہ بغداد کے مشرقی محلے میں رہتا تھا، میں نےاسے ۲۹۷ (ہجری) میں دیکھا۔۔۔ میں نے جھوٹے لوگوں میں اتنا بے حیا (بے شرم جھوٹا) اور کوئی نہیں دیکھا۔ (الکامل لابن عدی ج۱ص۲۰۲، دوسرا نسخہ ج۱ص۳۶۷، ۳۶۸)

(۲)حافظ ابن حبان نے فرمایا: ’’ابوالعباس من اهل بغداد یروی عن العراقیین، کان یضع الحدیث علیهم‘‘ ابوالعباس اہلِ بغداد میں سے ہے، وہ عراقیوں سے روایت کرتا تھا، وہ ان پر حدیث گھڑتا تھا۔ (کتاب المجروحین ج۱ص۱۵۳، دوسرا نسخہ ج۱ص۱۶۸)

(۳)امام دارقطنی نے کہا: ’’یضع الحدیث‘‘ وہ حدیث گھڑتا تھا۔ (الضعفاء والمتروکون:۵۹، سوالات الحاکم:۳۴، تاریخ بغداد ج۵ص۳۴ و سندہ صحیح)

(۴)امام ابن ابی الفوارس نے کہا: ’’کان یضع‘‘ وہ (حدیثیں) گھڑتا تھا۔ (تاریخ بغداد ج۴ص۲۹ت ۱۸۹۶، وسندہ صحیح)

(۵)خطیب بغدادی نے کہا: اس نے حدیثیں بیان کیں، ان میں اکثر باطل ہیں، اس نے انھیں گھڑا تھا۔ (تاریخ بغداد ج۴ص۲۰۷)

(۶)حافظ ابن الجوزی نے احمد بن الصلت کو حدیث کا چور قرار دیا۔

دیکھئے کتاب الموضوعات (ج۳ص۱۱۸، دوسرا نسخہ ج۳ ص۳۴۱ ح۱۵۸۱)

(۷)حاکم نیشاپوری نے کہا: ’’روی عن القعبنی ومسدود اسماعیل بن ابی اویس وبشر بن الولید احادیث وضعھا، وقد وضغ المتون ایضا مع کذبه فی لقی هولاء‘‘ اس نے قعبنی، مسدد، اسماعیل بن ابی اویس اور بشدر بن الولید سے حدیث بیان کیں جنھیں اس نے گھڑا تھا، اس نے ان سے ملاقات کے جھوٹ کے علاوہ روایتوں کے متن بھی بنائے۔۔۔ (المدخل الی الصحیح ص۱۲۱ ت۱۹)

(۸)ابونعیم اصبہانی نے کہا: وہ ابن ابی اویس، قعبنی اور ایسے شیوخ سے مشہور اور منکر روایتیں بیان کرتا تھا جن سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی، وہ ’’لا شیء‘‘ کوئی چیز نہیں ہے۔ (کتاب الضعفاء لابی نعیم ص۶۵ ت۳۱)

(۹)احمد بن الصلت کے بارے میں حافظ ذہبی نے کہا: ’’کان یضع الحدیث‘‘ وہ حدیث گھڑتا تھا۔ (المغنی فی الضعفاء ج۱ص۸۹ت۴۲۶)

اور کہا: ’’وضاع‘‘ وہ حدیثیں گھڑنے والا تھا۔ (دیوان الضعفاء للذہبی ص۲۹ ج۱ ت۵۰)

ذہبی نے مزید کہا: ’’کذاب وضاع‘‘ الخ وہ جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا ہے۔ الخ (میزان الاعتدال۱؍۱۴۰)

(۱۰)حافظ ابن کثیر الدمشقی نے احمد بن الصلت کے بارے میں کہا: ’’احد الوضاعین للاحادیث‘‘ وہ حدیث گھڑنے والوں میں سے ایک تھا۔ (البدایہ والنہایہ ج۱۲ ص۲۷ وفیات ۳۰۸ھ)

دس علماء کی ان گواہیوں سے معلوم ہوا کہ ابن الصلت الحمانی کذاب اور وضاع تھا۔

اس کذاب ووضاع کی روایت کو بطورِ حجت پیش کرکے سرفراز خان (صاحب) نے علمی و تحقیقی اور فنی کمال کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ کذب بیانی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔

ثابت ہوا کہ انوار احمد اعجاز (؟) نے مذکورہ عبارت میں غلط بیانی سے کام لیا ہے اور اس کا یہ کہنا کہ ’’برصغیر کے سبھی دینی مفکرین سے بے پناہ داد پائی‘‘ بالکل جھوٹ اور افتراء ہے۔

اس کذاب اور وضاع (احمد بن الصلت الحمانی) پر دوسرے علماء نے بھی جرح کی ہے اور ابن ابی خیثمہ سے ابن الصلت (مذکور) کی توثیق و تعریف قطعاً ثابت نہیں ہے۔ نیز دیکھئے التنکیل بما فی تانیب الکوثر ی من الاباطیل (۱؍۱۷۰۔ ۱۷۳ ت۳۴)

۲) سرفراز خان صفدر نے لکھا:

’’عبداللہؒ بن ادریسؒ ایک موقع پر امام ابوحنیفہؒ کی آمد پر ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے، اس پر اُن کے کچھ رفقاء نے جن میں امام ابوبکرؒ بن عیاشؒ بھی تھے معترض ہوئے کہ آپ اس شخص کے لیے کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ابوحنیفہؒ کا پایہ علم میں بہت بلند ہے اگر میں ان کے علم کے لیے نہ کھڑا ہوتا تو ان کی عمر کے لحاظ سے کھڑا ہوتا اور اگر عمر کا لھاظ بھی نہ کرتا تو قمت لفقھہ (ان کی فقہ کے لیے کھڑا ہوتا)۔ اگر فقہ کے لیے بھی نہ کھڑا ہوتا تو ان کے زہد کے لیے کھڑا ہوتا۔ (تاریخ بغداد جلد۱۳ ص۳۴۱)‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۷۵)

اس روایت میں ایک راوی ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید الہمد انی المعروف بابن عقدہ ہے، جس کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: ’’وہ گندا آدمی تھا‘‘ آپ اس کے رافضی ہونے کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ (دیکھئے تاریخ بغداد۵؍۲۲، لسان المیزان ۱؍۲۶۴ ت۸۱۷، اور میری کتاب: علمی مقالات ج۱ص۴۷۷)

امام دارقطنی نے مزید فرمایا: وہ منکر روایتیں کثرت سے بیان کرتا ہے۔ (تاریخ بغداد۵؍۲۲وسندہ صحیح)

ابوعمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا البغدادی المعروف بابن حیویہ نے فرمایا: ابن عقدہ جامعہ براثا (بغداد) میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یا (سیدنا) ابوبکر اور (سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہما) کی برائیاں اور سب و شتم لکھواتا تھا،  میں نے جب یہ دیکھا تو اس کی حدیث کو ترک کردیا اور اس کے بعد میں اس سے کوئی چیز بھی روایت نہیں کرتا ہوں۔ (سوالات حمزہ السہمی:۱۶۶، وسندہ صحیح)

محمد بن الحسین بن مکرم البغدادی البصری نے ایک سچا واقعہ بیان کیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن عقدہ نے عثمان بن سعید البری رحمہ اللہ کے بیٹے کے گھر سے کتابیں چرالی تھیں۔ (دیکھئے الکامل فی الضعفاء لابن عدی۱؍۲۰۹ وسندہ صحیح، علمی مقالات ج۱ص۴۷۸)

یعنی ابن عقدہ چور تھا۔

ابن عقدہ کا استاذ ابومحمد عبداللہ بن ابراہیم بن قتیبہ الانصاری الکوفی مجہول الحال ہے، میرے علم کے مطابق کسی سے اس کی توثیق ثابت نہیں۔

اس کے مجرد ذکر کے لیے دیکھئے غایۃ النہایہ لابن الاثیر (۱؍۴۰۳ت۱۷۱۶)

اس روایت کی سند میں ابراہیم بن البصیر نامعلوم ہے۔ اگر اس سے مراد ابراہیم بن النضر ہے تو وہ بھی مجہول ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ان شاء اللہ

اسماعیل بن حماد نام کے دو آدمی تھے:

(۱)          اسماعیل بن حماد بن ابی سلیمان

(۲)         دوسرا اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ الفقیہ۔

ثانی الذکر کو معتدل امام بن عدی نے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔

دیکھئے الکامل لابن عدی (۱؍۳۰۸، دوسرا نسخہ ۱؍۵۰۹۔۵۱۰)

اسے حافظ ابن الجوزی (الضعفاء والمتروکین ۱؍۱۱۰) اور حافظ ذہنی (دیوان الضعفاء ۱؍۸۳ ت۳۹۴) دونوں نے اسے ضعفاء (ضعیف راویوں) میں درج کیا۔ حافظ ابن حجر نے بطورِ جزم امام مطین سے نقل کیا کہ وہ (اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ) قرآن کو مخلوق سمجھتا تھا اور کہتا تھا، یہ میرا دین ہے، میرے باپ اور میرے دادا کا دین ہے۔

امام مطین یا حافظ ابن حجر نے کہا: اس نے دونوں (باپ اور دادا) پر جھوٹ بولا ہے۔ (لسان المیزان ج۱ص۳۹۹، دوسرا نسخہ ج۱ص۶۱۸)

اخبار ابی حنیفہ للصیمری (ص۷۳) میں اس روایت کی ایک اور سند ہے، جس کا جائزہ درج ذیل ہے:

اس کا پہلا راوی ابوالقاسم عبداللہ بن محمد (بن عبداللہ بن ابراہیم بن عبید) المعدل (البحتری الحلوانی الشاہد) کذاب تھا۔ محدث ازہری نے اس کے بارے میں کہا:

’’ویضع الحدیث‘‘ اور وہ حدیث گھڑتا تھا۔ (تاریخ بغداد ج۱۰ص۱۳۷ ت۵۲۷۷)

تفصیل کے لیے دیکھئے میزان الاعتدال (۲؍۴۹۷) اور لسان المیزان (۳؍۳۵۰۔۳۵۱، دوسرا نسخہ ۴؍۱۴۳۔۱۴۴)

امام دار قطنی وغیرہ محدیثنِ بغداد نے اسے احادیث اور سندیں گھڑنے والا قرار دیا۔ (دیکھئے سوالات حمزہ السہمی:۳۲۹)

عبدالصمد بن عبیداللہ الدلال اور عبداللہ بن ابراہیم بن قتیبہ دونوں کی توثیق نامعلوم ہے۔

ابراہیم بن النضر نامعلوم ہے اور اسماعیل بن حماد غیرمتعین ہے جیسا کہ سابقہ روایت کی تحقیق میں گزر چکا ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ روایت بھی موضوع ہے۔

تنبیہ:        امام عبداللہ بن دریس سے ان موضوع روایات کے برعکس امام ابوحنیفہ پر جرح ثابت ہے۔ دیکھئے کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی (۴؍۴۴۰وسندہ صحیح) اور تاریخ بغداد (ج۱۳ ص۳۹۳ وسندہ صحیح)

۳) سرفراز خان صفدر نے لکھا ہے:

’’ابو مسلم المستملیؒ نے امام ابوخالد یزیدؒ بن ہارونؒ سے دریافت کیا کہ آپ کی ابوحنیفہؒ اور ان کی کتابیں دیکھنے کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ:

اگرتم فقہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو ان کی کتابوں کو ضرور دیکھو کیونکہ میں نے فقہا میں سے کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا جو ان کے قول کو دیکھنا ناپسند کرتا ہو۔‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۷۶ بحوالہ تاریخ بغداد ج۱۳ ص ۳۴۲)

اس روایت میں احمد بن محمد بن الصلت الحمانی کذاب ہے۔ دیکھئے روایت نمبر۱

عبداللہ بن محمد الحلوانی بھی کذاب ہے۔ دیکھئے روایت نمبر۲

یعنی یہ روایت موضوع ہے۔

تنبیہ:       امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ادرکت الناس فما رأیت احدا اعقل ولا افضل ولا اورع من ابی حنیفة‘‘ میں نے لوگوں کو دیکھا تو ابوحنیفہ سے زیادہ عقلمند، افضل اور زیادہ پرہیزگار دوسرا کوئی نہیں دیکھا۔ (تاریخ بغداد ۱۳؍۳۶۴ وسندہ صحیح، الاسانید الصحیحہ فی اخبارالامام ابی حنیفہ قلمی ص۷۴)

معلوم ہوا کہ امام یزید بن ہارون سے امام ابوحنیفہ کی تعریف ثابت ہے لیکن صریح توثیق ثابت نہیں۔ واللہ اعلم۔

۴) سرفراز خان صفدر نے کہا:

’’امام عبداللہؒ بن المبارکؒ کے سامنے کسی شخص نے امام ابوحنیفہؒ کی شان میں گستاخی کی تو وہ شیرِببر کی طرح گرجتی ہوئی آواز میں فرمانے لگے ویحک۔ تعجب ہے تجھ پر تو اس شخص کی شان میں گستاخی کررہا ہے جس نے پینتالیس سال پانچ نمازیں ایک وضو سے پڑھی ہیں اور جو رات کو پورا قرآن کریم دو رکعتوں میں ختم کرتا رہا ہے۔ (بغدادی ص۳۵۵ ج۱۳ومناقب موفق ص۲۳۶ ج۱ وتبییض الصحیفہ ص۳۵)‘‘ (مقامِ ابی حنیفہ ص۷۹، ۸۰)

مناقب موفق میں یہ روایت خطیب بغدادی کی سندومتن سے مذکور ہے اور تبییض الصحیفہ للسیوطی (ص۱۱۴) میں بغیر سند اور بغیر حوالے کے لکھی ہوئی ہے لہٰذا تبییض کا حوالہ مردود ہے۔

تاریخ بغداد اور اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری (ص۷۷) کی اس روایت کے درج ذیل راویوں کی توثیق نامعلوم ہے:

(۱)منصور بن ہاشم (مجہول)

(۲)احمد بن ابراہیم (غیرمتعین)

(۳)محمد بن سہل بن منصور المروزی (نامعلوم)

معلوم ہوا کہ یہ روایت ان مجہول راویوں کی وجہ سے موضوع ہے۔

تنبیہ:       امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے کہا: ’’روایت افقه الناس۔ واما افقه الناس فابوحنیفة‘‘ اور میں نے لوگوں میں سب سے بڑا فقیہ دیکھا۔۔۔ لوگوں میں سب سے بڑے فقیہ ابوحنیفہ ہیں۔ (تاریخ بغداد۱۳؍۳۴۲۔۳۴۳ وسندہ صحیح)

ابن المبارک نے مزید کہا: جب سفیان (ثوری) اور ابوحنیفہ (کسی مسئلے پر) جمع ہوجائیں تو ان کے مقابلے میں فتویٰ دینے کے لیے کوئی شخص کھڑا ہوسکتا ہے؟ (تاریخ بغداد ۱۳؍۳۴۳وسندہ صحیح)

اور فرمایا: جب یہ دونوں یعنی ثوری اور ابوحنیفہ کسی چیز پر جمع ہوجائیں تو وہ چیز قوی ہے۔ (تاریخ بغداد۱۳؍۳۴۳، الانتقاء ص۱۳۲، وسندہ صحیح)

امام ابن المبارک نے کہا: اگر کسی کے لیے رائے سے بات کرنا مناسب ہوتا تو وہ ابوحنیفہ کے لیے مناسب تھا کہ وہ رائے سے کہیں۔ (تاریخ بغداد۱۳؍۳۴۳وسندہ صحیح)

ان تعریفی روایات میں صریح توثیق کا کوئی ذکر نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ یہ تمام روایات دوسری صحیح روایات کی رو سے منسوخ ہیں۔

ثقہ و صدوق ابراہیم بن شماس فرماتے تھے: ابن المبارک نے اپنی وفات سے تھوڑے دن پہلے ابوحنیفہ کی حدیث کو کاٹ دیا تھا۔ (معرفۃ العلل والرجال لعبداللہ بن احمد بن حنبل ۲؍۱۴۳ ت ۱۷۴۹، وسندہ صحیح) نیز دیکھئے الاسانید الصحیحہ (قلمی ص۲۱۰تا۲۱۹)

نعمان بن ثابت پر امام عبداللہ بن المبارک کی صحیح و ثابت جرح کے لیے دیکھئے الاسانید الصحیحہ (قلمی ص۲۱۰۔۲۱۹) الکامل لابن عدی (۷؍۲۴۷۴وسندہ صحیح) کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل (۳۴۶وسندہ صحیح) کتاب الثقات لابن حبان (۸؍۶۹۔۷۰وسندہ صحیح)

۵) سرفراز خان صفدر نے لکھا:

’’نضرؒ بن شمیلؒ فرماتے ہیں کہ لوگ فقہ سے غافل اور بے خبر و خفتہ تھے۔ ابوحنیفہؒ نے ان کو جگایا ہے۔۔۔(بغدادی جلد ۱۳ص۳۴۵)‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۸۱)

اس روایت میں احمد بن الصلت الحمانی کذاب ہے۔ دیکھئے یہی مضمون روایت نمبر ۱

۶) سرفراز خان صفدر نے لکھا ہے:

’’محمدؒ بن بشیرؒ کا بیان ہے کہ میں امام سفیان ثوریؒ اور امام ابوحنیفہؒ کے پاس آتا جاتا رہتا تھا۔ تو جب میں سفیانؒ کے پاس حاضر ہوتا تو وہ فرماتے۔ تم کہاں سے آئے ہو؟ میں کہتا کہ ابوحنیفہؒ کے پاس سے آیا ہوں تو وہ فرماتے کہ:۔۔۔ واقعی تم تو زمین کے فقیہ تر انسان کے پاس سے آئے ہو۔۔۔ (بغدادی ص۲۴۴ج۱۳)‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۸۰)

اس روایت میں عمر بن شہاب العبدی راوی ہے جس کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے اور نہ کسی سے اس کی توٖثیق ثابت ہے لہٰذا یہ مجہول ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ روایت عمر بن شہاب کے مجہول ہونے کی وجہ سے موضوع ہے اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے جرح کی متواتر روایات کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے منکرومردود ہے۔

امام سفیان ثوری کی امام ابوحنیفہ پر جرح کی روایات کے لیے دیکھئے: معرفۃ العلل والرجال (۲؍۲۲۵رقم ۱۶۲۲، وسندہ صحیح) تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی (۱۳۳۶، وسندہ حسن) طبقات المحدثین باصبہان (۲؍۱۱۰، مخطوطہ ۱؍۱۱۰، وسندہ حسن) اور کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد ۱؍۱۹۵ح ۲۷۸ وسندہ حسن)

۷) سرفراز خان صفدر نے کہا:

’’امام صدر الائمہؒ مکیؒ اپنی سند کے ساتھ امام زفرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ:

بڑے بڑے محدثین مثلاً زکریاؒ ابن ابی زائدہ، عبدالملکؒ بن ابی سلیمان، لیث بن ابی سلیم، مطرفؒ بن طریفؒ اور حصینؒ بن عبدالرحمٰنؒ وغیرہ امام ابوحنیفہؒ کے پاس آتے جاتے رہتے تھے اور ایسے (دقیق) مسائل ان سے دریافت کرتے تھے جو ان کو درپیش ہوتے تھے اور جس حدیث کے بارے میں ان کو اشتباہ ہوتا ہے اس کے متعلق بھی وہ ان سے سوال کرتے تھے۔ (مناقب موفق ج۲ص۱۴۹)‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۱۱۳)

عرض ہے کہ صدرالائمہ موفق مکی معتزلی اور رافضی تھا۔ کردری حنفی نے کہا:

’’وذکر صدر الائمة المکی اخطب الخطباء الخوارزمی المعتزلی القائل بتفضیل علی علی کل الصحابة‘‘ یعنی موفق مکی معتزلی تھا، وہ تمام صحابہ پر علی (رضی اللہ عنہ) کی فضیلت کا قائل تھا۔ (مناقب الکردری ج۱ص۸۸)

موفق رافضی معتزلی نے یہ روایت ابومحمدالحارثی (عبداللہ بن محمد بن یعقوب البخاری) سے نقل کی۔ دیکھئے مناقب الموفق (ج۲ص۱۴۸)

ابومحمد الحارثی کے بارے میں ابواحمد الحافظ وغیرہ نے بتایا کہ وہ حدیث بناتا تھا۔ (کتاب القراءۃ للبیہقی ص۱۵۴، دوسرا نسخہ ص۱۷۸ ح۳۸۸ وسندہ صحیح)

نیز دیکھئے لسان المیزان (۳؍۳۴۸۔۳۴۹) اور میری کتاب: نورالعینین (ص۴۳)

حارثی کا مزعوم استاد اسماعیل بن بشر مجہول ہے۔

معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی موضوع ہے۔

۸) سرفراز خان نے لکھا ہے:

’’چنانچہ امام صدرالائمہ مکیؒ، امام حسنؒ بن زیادؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ:

امام ابوحنیفہ نے چار ہزار حدیثیں روایت کی ہیں۔ دوہزار صرف حمادؒ کے طریق سے اور دو ہزار باقی شیوخ سے ۔ (مناقب موفق ج۱ ص۹۶)‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۱۱۶)

یہ روایت تین وجہ سے موضوع ہے:

اول:         آلِ تقلید کا صدرالائمہ رافضی اور معتزلی تھا۔ دیکھئے روایت نمبر۷

دوم:         موفق رافضی و معتزلی اور حسن بن زیاد اللؤلؤی کے درمیان سند غائب ہے۔ اس رافضی کی پیدائش سے پہلے حسن بن زیاد مر گیا تھا لہٰذا اس روایت کی سند کہاں ہے؟

سوم:        حسن بن زیاد مشہور کذاب تھا۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: اور حسن اللؤلؤی کذاب ہے۔ (تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری: ۱۷۶۵، میری کتاب: علمی مقالات ج۲ص۳۳۷)

عبدالغفار دیوبندی (کذاب) نے لکھا ہے: ’’سید الحفاظ یحییٰ بن معین الحنفی المقلد‘‘ (دیوبندی رسالہ: قافلۂ حق ج۳شمارہ۴ص۱۹)

امام یحییٰ بن معین نہ تو حنفی تھے اور نہ مقلد بلکہ ان کے بارے میں ھاکم نیشاپوری نے کہا: اہلِ حدیث کے امام (المستدرک ج۱ص۱۹۸ ح۷۱۰، علمی مقالات ج۱ ص۱۶۴ فقرہ۱۳)

نیز دیکھئے (ایک سوال کے جواب میں) میرا مضمون: امام یحییٰ بن معین اور توثیق ابی حنیفہ؟ حسن بن زیاد کے بارے میں امام نسائی نے فرمایا: ’’کذاب خبیث‘‘ (الطبقات للنسائی آخر کتاب الضعفاء ص۲۶۶، دوسرا نسخہ ص۳۱۰)

یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا: ’’الحسن اللؤلؤی کذاب‘(کتاب المعرفۃ والتاریخ ۳؍۵۶)

امام یزید بن ہارون (جنھیں سرفراز خان صفدر نے الحافظ القدوہ اور شیخ الاسلام کہا ہے۔ دیکھئے مقام ابی حنیفہ ص۷۶) نے حسن بن زیاد کے بارے میں فرمایا: کیا وہ مسملان ہے؟ (الضعفاء للعقیلی ج۱ص۲۲۷وسندہ صحیح، اخبار القضاۃ لابن حیان ۳؍۱۸۹، وسندہ صحیح، علمی مقالات ج۲ص۳۳۷) یہ شخص امام سے پہلے سر اٹھاتا تھا اور امام سے پہلے سجدہ کرتا تھا، نیز ایک دفعہ نماز کے دوران میں سجدے میں ایک لڑکے کا بوسہ لے لیا اور اس حرکت کو ایک سچے امام نے دیکھا تھا۔

ایسے گندے کذاب کی روایت سے سرفراز خان کڑمنگی نے استدلال کرکے اپنے بارے میں یہ ثابت کردیا ہے کہ علم و تحقیق اور انصاف سے یہ شخص (سرفراز خان) بہت دور اور ترویجِ اکاذیب میں بہت مصروف تھا۔

۹) سرفراز خان صفدر نے لکھا ہے:

’’امام وب زکریا یحییٰ ؒ بن معینؒ سے دریافت کیا گیا کہ: ۔۔۔کیا امام ابوحنیفہ ؒ حدی میں سچے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں سچے تھے۔ (جامع بیان العلم ج۲ص۱۴۹)‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۱۲۸)

جامع بیان العلم و فضلہ لبن عبدالبر میں یہ روایت محمد بن الحسین الازدی الموصلی الحافظ کے حوالے سے موجود ہے۔ اس ازدی کے بارے میں امام ابوبکر البرقانی نے اشارہ کیا کہ وہ ضعیف تھا۔ خطیب بغدادی نے کہا: اس کی حدیث میں غرائب اور منکر روایتیں ہیں، وہ حافظ تھا۔۔۔ (تاریخ بغداد ج۲ ص۲۴۴ ت ۷۰۹)

حافظ ذہبی نے اسے ضعیف راویوں میں ذکر کیا اور کہا: وہ منکر روایتیں اور غرائب بیان کرنے والا تھا، برقانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیوان الضعفاء والمتروکین ۲؍۲۹۲ ت۳۶۷۲)

حافظ ابن حجر نے کہا: اورازدی ضعیف ہے۔۔۔ الخ (ہدی الساری ص۳۸۶ ترجمۃ احمد بن شبیب)

نیز دیکھئے مضمون: امام یحییٰ بن معین اور توثیقِ ابی حنیفہ؟ (ص۱)

یہ شخص امام ابن معین کی وفات (۲۳۳ھ) کے ۱۴۱ سال بعد ۳۷۴ھ میں فوت ہوا۔

ازدی مذکور نے امام ابن معین تک کوئی سند بیان نہیں کی لہٰذا یہ بے سندومجروح روایت موضوع ہے۔

۱۰) سرفراز خان نے کہا:

’’حضرت روحؒ بن عبادہؒ فرماتے ہیں کہ میں ۱۵۰ھ میں مشہور محدث ابنِ خریجؒ کے پاس تھا کہ اچانک حضرت امام ابوحنیفہؒ کی وفات کی خبر آگئی۔ ابن جریجؒ نے انا للہ الخ پڑھ کر صدمہ کے ساتھ یہ فرمایا کہ:

ای علم ذھب۔ (بغدادی ۱۳ ص۳۳۸) کتنا با علم رخصت ہوگیا ہے۔‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۷۱، ۷۲)

اس روایت کا ایک راوی ابومحمدعبداللہ بن جابر بن عبداللہ الطرسوسی البزاز ہے، جس کے بارے میں ابواحمد الحاکم نے کہا: ’’ذھب الحدیث۔۔۔منکر الحدیث‘‘ وہ حدیث میں گیا گزرا ہے۔۔۔ وہ منکر حدیثیں بیان کرتا تھا۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر ۲۹؍۱۵۹۔ ۱۶۰)

سیوطی نے عبداللہ بن جابر کی ایک روایت کو اللالی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ (۱؍۴۱۷) میں ذکر کیا ہے۔

اس طرسوسی کی توثیق نامعلوم ہے۔ اس کا شاگرد ابوالحسن احمد بن جعفر بن حمدان الطرسوسی ہے جس کی توثیق کہیں نہیں ملی یعنی وہ بھی مجہول تھا۔

خلاصہ یہ کہ یہ روایت موضوع ہے۔

یہ دس مثالیں بطورِ نمونہ اور تعارف پیش کی گئی ہیں ورنہ سرفراز خان کی اس کتاب اور دیگر کتابوں میں موضوع، ضعیف اور مردود روایات کثرت سے ہیں۔

ابن الندیم (محمد بن اسحاق بن محمد بن اسحاق بن الندیم الوراق) نام کا ایک رافضی معتزلی تھا۔ دیکھئے لسان المیزان (۵؍۷۲، دوسرا نسخہ ۵؍۷۰۷)

حافظ ابن حجر نے کہا: وہ غیرموثوق ہے یعنی ثقہ نہیں ہے۔ (ایضاً ص۷۲)

پھر انھوں نے ابن الندیم کے مفتری (جھوٹے) ہونے کا ثبوت پیش کیا۔

دیکھئے لسان المیزان  (ج۵ ص۷۳۔ ۷۴)

حافظ ذہبی نے کہا: ’’الشیعی المعتزلی‘‘ (تاریخ الاسلام ج۲۷ ص۳۹۸)

یاقوت الحموی نے کہا: ’’وکان شیعیا معتزلیا‘‘ وہ شیعہ معتزلی تھا۔ (منجم الادباء ج ۱۸ ص۱۷ ت۶)

صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی نے کہا: وہ شیعہ معتزلی تھا۔ (الوافی بالوفیات ج۲ ص۱۳۹ ت ۵۶۹ )

اس شیعہ معتزلی رافضی کی توثیق کسی قابلِ اعتماد محدث سے ثابت نہیں ہے مگر سرفراز خان صفدر نے باربار اس کے اقوال سے استدلال کیا۔ (دیکھئے مقامِ ابی حنیفہ ص۸۲، ۱۰۸) اور کہا: ’’مشہور قدیم اور ثقہ مؤرخ امام ابوالفرج محمدؒ بن اسحاقؒ بن ندیمؒ۔۔۔‘‘ (الکلام المفید فی اثبات التقلید ص۲۴۳)

سبحان اللہ! دیوبندیوں ک رافضی معتزلی امام اور پھر اس پر سہاگا یہ کہ ثقہ بھی (؟!) مبارک ہو!

اسی ایک حوالے سے صاف ظاہر ہے کہ آلِ دیوبند کا اوڑھنا بچھونا کذب وافتراء اور تہمت بر ابریاء ہے۔

سرفرازخان صفدر نے اس کتاب اور دوسری کتابوں میں ضعیف اور غیرثابت اقوال و روایات سے کثرت کے ساتھ استدلال کیا ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ سرفراز خان صفدر کی کتابوں میں علمی و تحقیقی اور فنی کمالات کا کوئی مظاہر نہیں کیا گیا بلکہ جھوٹی روایات اور غیرثابت اقوال پھیلانے کا بہت بڑا مظاہرہ کیا گیا ہے لہٰذا عام مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے لوگوں سے بچ کر رہیں اور اپنی آخرت خراب نہ کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص375

محدث فتویٰ

تبصرے