سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(135) مرزا غلام احمد قادیانی کون تھا؟

  • 13656
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 9230

سوال

(135) مرزا غلام احمد قادیانی کون تھا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مرزا ادیانی غیرمقلد تھا، کیا یہ بات صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر غیر مقلد سے مراد اہلِ حدیث ہے تو بعض لوگوں کی یہ مذکورہ بات بالکل غلط ہے بلکہ کالا جھوٹ ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ مرزا قادیانی دعویٔ نبوت سے پہلے پکا تقلیدی تھا۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کا ایک تحقیقی مضمون درج ذیل ہے:

مرزا غلام احمد قادیانی کون تھا؟ اس سلسلے میں بیس(۲۰) حوالے مع تبصرہ پیشِ خدمت ہیں:

۱) فیض احمد فیض بریلوی نے لکھا ہے:

’’تحریکِ قادیانیت کے بانی کا نام مرزا غلام احمد تھا۔۔۔ جہاں تک معلوم ہوسکا ہے اُن کا آباواجداد حنفی المذہب مسلمان تھے اور خود مرزا صاحب بھی اپنی اوائلِ زندگی میں انہی کے قدم بہ قدم چلتے رہے۔‘‘ (مہر منیر سوانح حیات مہر علی شاہ گولڑوی ص۱۶۵)

’’اس وقت تک مرزا صاحب کے عقائد وہی تھے جو ایک صحیح العقیدہ سنی مسلمان کے ہونے چاہئیں۔۔۔‘‘ (مہر منیر ص۱۶۶)

یہ کتاب بریلوی پیر غلام محی الدین کی اجازت اور ایماء سے شائع ہوئی ہے۔

۲) محمد حیات خان بریلوی نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں (مہرعلی شاہ گولڑوی کی کتاب: سیفِ چشتیائی کے پیش لفظ میں) لکھا ہے:

’’جہاں تک معلوم ہوسکا ان کے آباواجداد حنفی المذہب مسلمان تھے۔ اور خود مرزا صاحب بھی اپنی اوائلِ زندگی میں انہی کے قدم بہ قدم چلتے رہے۔‘‘ (پیش لفظ: سیفِ چشتیائی صفحہ ت)

یہ کتاب بھی بریلوی پیر غلام محی الدین کی اجازت اور ایماء سے شائع ہوئی ہے۔

۳) مرزا قادیانی نے جمادی الاولیٰ ۱۳۰۸ھ (بمطابق دسمبر ۱۸۹۰ء) میں ’’فتح اسلام‘‘ نامی رسالہ شائع کیا۔ دیکھئے مرزائیوں کی کتاب: روحانی (شیطانی) خزائن (ج۳ص۱) اس رسالے میں مرزا نے کہا:

’’سواے مسلمانو! اس عاجز کا ظہور ساحرانہ تاریکیوں کے اٹھانے کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے۔‘‘ (فتح اسلام ص۶، دوسرا نسخہ ص۷)

رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے لکھا ہے:

’’مولوی غلام احمد صاحب قادیانی کی فتح الاسلام بندہ نے بھی دیکھی اجمالاً ان کو جو اول گمان تجدید ہوا ہے یہ اس کا ہی ضمیمہ ہے کہ اب ان کے مخیلہ میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ مثیل عیسیٰ ہوں اس باب میں بندہ یہ گمان کرتا ہے کہ دنیاطلبی تو ان کو مقصود نہیں بلکہ ایک خودپسندی ان کے مخیلہ میں بوجہ صلاحیت قایم ہوئی تھی اب یہ خیالات بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اس کو وہ دین و تائید دین اور اپنے کمالات جانتے ہیں اس میں مجبور ہیں۔ اس مثلِ عیسیٰ ہونے کو اور نزول عیسیٰ علیہ السلام اور دجال کی روایات کے حقیقی معنی کے انکار کو چند جگہ سے جو بندہ سے استفسار کیا گیا تو بندہ نے یہ لکھا ہے کہ یہ عقیدہ فاسد و خطا خلاف جملہ سلف خلف کے ہے ان کو مالیخولیا ہو گیا ہے کہ خلاف عقل کے ایسی بات لکھتے ہیں کہ تمام عالم نے اس کو نہ سمجھا اب ان کو اس کی فہم ہوئی اس پر اشتہار مباحثہ دیا ہے اور بندہ کو مخاطب بنایا ہے اور تکفیر نہیں چاہیے کہ وہ ماول ہے اور معذور ہے فقط مولوی عبداللہ کو منع کرنا۔۔۔‘‘ (مکاتیبِ رشید یہ ص۹۰ مکتوب: ۱۳۸)

ابوالقاسم محمد رفیق دلاوری دیوبندی نے لکھا ہے:

’’جن حضرات نے فتواے تکفیر سے اختلاف کیا ان میں حضرت مولٰنا رشید احمد صاحب چشتی گنگوہیؒ جوان دنوں علمائے حنفیہ میں نہایت ممتاز حیثیت رکھتے تھے اور اطراف و اکناف ملک کے حنفی شائقین علم حدیث اس فن کی تکمیل کے لیے ان کے چشمۂ فیض پر پہنچ کر تشنگی سعادت سے سیراب ہورہے تھے سب سے پیش پیش تھے۔ انھوں نے علمائے لدھنایہ کے فتواے تکفیر کی ممانعت میں ایک مقالہ لکھ کر قادیانی صاحب کو ایک مرد صالح قرار دیا اور اس کو حضرات مکفرین کے پاس لدھیانہ روانہ کیا۔۔۔‘‘ (رئیس قادیان ج۲ص۳)

دلاوی دیوبندی نے رشید احمد گنگوہی دیوبندی سے نقل کیا:

’’کسی مسلمان کی تکفیر کرکے اپنے ایمان کو داغ لگانا اور مواخذۂ اخروی سر پر لینا سخت نادانی ہے۔ یہ بندہ جیسا اس بزرگ (مرزا صاحب) کو کافر فاسق نہیں کہتا اس کو مجدد وولی بھی نہیں کہہ سکتا۔ صالح مسلمان سمجھتا ہوں۔ اوراگر کوئی پوچھے تو ان کے ان کلمات کی تأویل مناسب سمجھتا ہوں۔ اور خود اس سے اعراض و سکوت ہے۔ فقط والسلام (رشید احمد)‘‘ (رئیس قادیان ج۲ص۵)

رشید احمد گنگوہی کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ مرزا قادیانی دیوبندی المذہب تھا، ورنہ اسے گنگوہی کا ’’صالح مسلمان‘‘ اور ’’بزرگ‘‘ کہنا کیا مقصد رکھتا ہے؟

۴) عبدالماجد دریاآبادی دیوبندی نے اشرف علی تھانوی کا ایک واقعہ لکھا ہے:

’’سنہ خوب یاد نہیں، غالباً ۱۹۳۰ء تھا، حکیم الامت تھانویؒ کی محفل خصوصی میں نماز چاشت کے وقت حاضری کی سعادت حاصل تھی ذکر مرزائے قادیانی اور ان کی جماعت کا تھا اور ظاہر ہے ک ذکر ’’ذکرِ خیر‘‘ نہ تھا حاضرین میں سے ایک صاحب بڑے جوش سے بولے ’’حضرت ان لوگوں کا دین بھی کوئی دین ہے، نہ خدا کو مانیں نہ رسول کو‘‘ حضرت نے معاً لہجہ بدل کر ارشاد فرمایا کہ ’’یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان کا کوئی اختلاف نہیں، اختلاف رسالت میں ہے اور اس کے بھی صرف ایک باب میں یعنی عقیدۂ ختمِ رسالت میں بات کو بات کی جگہ پر رکھنا چاہیے۔ جو شخص ایک جرم کا مجرم ہے، یہ تو ضرور نہیں کہ دوسرے جرائم کا بھی ہو۔‘‘ ارشاد نے آنکھیں کھول دیں اور صاف نظر آنے لگا کہ ۔۔۔‘‘ (سچی باتیں ص۲۱۲، طبع نفیس اکیڈمی کراچی)

تھانوی کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ مرزائیوں کا دیوبندیوں کے ساتھ توحید میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف صرف رسالت کے ایک باب (عقیدۂ ختمِ رسالت) میں ہے (نیز دیکھیے یہی مضمون، فقرہ نمبر۱۲) اور یاد رہے کہ یہ بیان مرزا کی موت کے بہت عرصے بعد ۱۹۳۰ء کا ہے۔

۵) ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی (ڈائریکٹر اسلامک اکیڈمی مانچسٹر) نے لکھا ہے:

’’مولانا غلام احمد قادیانی اور مولانا احمد رضا خاں بریلوی میں انگریز دوستی کی بنا ء پر اصلاحی تحریکوں کی مخالفت قدرِ مشترک تھی۔‘‘ (مطالعۂ بریلویت ج۱ ص۲۱۶، طبع دارالمعارف لاہور)

مولانا چونکہ عزت و احترام والا لقب ہے جو علماء کے بارے میں استعمال ہوتا ے لہٰذا اس دیوبندی حوالے سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام احمد قادیانی آلِ دیوبند کا ’’مولانا‘‘ تھا۔ یاد رہے کہ رشید احمد گنگوہی کے نزدیک مرزا قادیانی ایک ’’مولوی‘‘ تھا۔ دیکھئے فقرہ:۳

۶) غازی احمد (سابق کرشن لال) سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج، بوچھال کلاں ضلع چکوال نے مرزا ناصر احمد قادیانی بن مرزا بشیر احمد بن غلام احمد سے اپنی ملاقات کا تذکرہ درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے:

’’میں نے عرض کیا مجھے ایک بات اور دریافت کرنا ہے۔ میں نے مرزا صاحب کی تحریر پڑھی ہے کہ میں اور میری جماعت کے افراد فقہی مسلک میں امام ابوحنیفہؒ کے پیروکار ہیں۔ ناصر صاحب میں بھی حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہوںَ

ناصر صاحب نے اظہار مسرت فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ مرزا صاحب تو آپ کے خیال کے مطابق منصب نبوت پر سرفراز تھے۔ کیا یہ امر منصبِ نبوت کے شایان شان ہے کہ ایک نبی ایک امتی کے فقہی مسلک کا پیروکار اور مقلد ہو۔ کیا یہ مقام نبوت کی توہین نہیں؟ ناصر صاحب نے فرمایا اس سوال کا جواب بھی کسی دوسری مجلس میں تفصیل کے ساتھ دوں گا۔‘‘ (من الظلمات الی النور۔ کفر کے اندھیروں سے نورِاسلام تک ص۹۳)

غازی احمد حنفی کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام احمد اپنے آپ کو امام ابوحنیفہ کا پیروکار کہتا تھا اور مرزا ناصر احمد نے بھی اپنے دادا کی اس بات کا انکار نہیں کیا۔

۷) بشیر احمد قادری دیوبندی نے ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی کی کتاب: مجدداعظم کے حوالے سے بطورِ استدلال لکھا ہے:

’’مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نئے نئے پڑھ کر اور مولوی بن کر جو بٹالہ آئے تو چونکہ یہ اہلحدیث تھے، اس لیے حنفیوں کو ان کے خیالات بہت گراں گزرے۔ بعض اختلافی مسائل میں بحث کرنے کے لیے حنفیوں نے حضرت اقدس مرزا صاحب کی طرف رجوع کیا اور ایک نمائندہ حضرت اقدس کو قادیان سے بٹالہ لے آیا، شام کو مولوی محمدحسین بٹالوی اور ان کے والد مسجد میں تھے، جو حضرت اقدس وہاں پہنچ گئے، بحث شروع ہوئی، مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے تقریر کی۔ حضرت قدس نے تقریر سن کر فرمایا کہ اس میں تو کوئی بات ایسی نہیں جو اقابل اعتراض ہو۔ تو میں تردید کس بات کی کروں۔ ان لوگوں کو جو آپ کو لائے تھے، بہت مایوسی ہوئی اور وہ آپ سے بہت ناراض ہوئے، لیکن آپ نے محض اللہ کے لیے اس بحث کو ترک کردیا۔ کیونکہ محض دھڑے بندی کے لیے آپ حق بات کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ مجدد اعظم ج۲ص۱۳۴۳

ناظرین کرام! ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ مرزا صاحب نے بٹالوی صاحب کے نظریات و خیالات کی کس طرح تائیدوتصویب کی ہے۔ اگر مرزا صاحب ابتداءً مقلد ہوتے تو لازماً بٹالوی صاحب کے نظریات کی تردید کرتے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب پہلے غیرمقلدانہ خیالات کے حامل تھے، پھر غیرمقلدیت سے ترقی کرکے نبوت کا دعویٰ کرکے ایک دنیا کو گمراہ کیا۔‘‘ (ترک تقلید کے بھیانک نتائج طبع چہارم ص۴۷،۴۸)

اس دیوبندی حوالے سے ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اہلِ حدیث نہیں تھا بلکہ وہ دیوبندی و بریلوی (یا عرفِ عوام میں: حنفی) تھا اور حنفیوں کا مناظر تھا، ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک اہلِ حدیث کے مقابلے میں اختلافی مسائل میں حنفی حضرات ایک اہلِ حدیث مناظر پیش کرتے؟

یاد رہے کہ بشیر احمد قادری نے ’’غیرمقلدانہ خیالات‘‘ اور ’’غیرمقلدیت سے ترقی‘‘ وغیرہ الفاظ لکھ کر بہت بڑا جھوٹ بولا ہے، جس کی تردید اس کے ذکر کردہ حوالے سے ہی ظاہر ہے۔

۸) فیض احمد فیض بریلوی نے لکھا ہے:

’’ادھر چاچڑاں (ریاست بہاولپور) کے مشہور شیخِ طریقت اور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید چشتی بھی ابتدا میں مرزا صاحب کے متعلق بہت حسنِ ظن رکھتے تھے۔ خواجہ صاحبؒ ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوئے اور حضرت قبلۂ عالم قدس سرہ کے قادیانی معرکۂ لاہور کے قریباً ایک سال بعد ۱۹۰۱ء میں انتقال فرماگئے۔‘‘ (مہرمنیر ص۲۰۴، ۲۰۵)

فیض احمد فیض نے مزید لکھا ہے:

’’اس پر خواجہ صاحبؒ نے اپنے جواب میں اعانت فی الدین کا وعدہ کرتے ہوئے مرزا صاحب کی شان میں تعریفی کلمات تحریر فرمائے۔ آپ کے ملفوظات ’’اشارات فریدی‘‘ میں مذکور ہے کہ جب علماء نے مرزا صاحب کے خلاف لکھنا شروع کیا تو خواجہ صاحبؒ نے فرمایا یہ شخص حمایتِ دین پر کمربستہ ہے۔ علماء تمام مذاہب باطلہ کو چھوڑ کر اس نیک آدمی کے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں۔ حالانکہ وہ اہل سنت والجماعت سے ہے اور صراطِ مستقیم پر ہے۔ لیکن جب مرزا صاحب کی نئی کتابیں خواجہ صاحبؒ کے پاس پہنچیں جن میں ان کے منفرد عقائد اور ’’مسیح موعود‘‘ اور ’’ظلّی اور بروزی‘‘ نبوت کے دعاوی درج تھے تو آپ نے بھی مولوی حسین بٹالوی کی طرح علانیہ اپنی بیزاری کا اظہار کیا۔‘‘ (مہرمنیرص۲۰۵)

اس بریلوی حوالے سے ثابت ہوا کہ خواجہ غلام فرید چاچڑاں والے کے نزدیک مرزا قادیانی بریلوی یا دیوبندی تھا۔

۹) مولانا محمد داود ارشد حفظہ اللہ نے لکھا ہے:

 ’’حاجی نواب دین گولڑوی لکھتا ہے کہ

جہاں تک معلوم ہوسکا ہے ان کے آباواجداد حنفی المذہب مسلمان تھے اور خود مرزا صاحب بھی اپنی اوائل زندگی میں انہی کے قدم بقدم چلتے رہے۔ (آفتاب گولڑہ اور فتنۂ مرزائیت ص۱۵۰)‘‘ (تحفۂ حنفیہ ص۵۲۷)

۱۰) خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے لکھا ہے:

’’ہم اور ہمارے مشائخ سب کا مدعی نبوت و مسیحیت قادیانی کے بارے میں یہ قول ہے کہ شروع شروع جب تک اس کی بدعقیدگی ہمیں ظاہر نہ ہوئی بلکہ یہ خبر پہونچی کہ وہ اسلام کی  تائید کرتا ہے اور تمام مذاہب کو بدلائل باطل کرتا ہے تو جیسا کہ مسلمانوں کو مسلمان کے ساتھ زیبا ہے ہم اس کے ساتھ حسن ظن رکھتے اور بعض ناشائستہ اقوال کو تاویل کرکے محمل حسن پر حمل کرتے رہے اس کے بعد جب اس نے نبوت و مسیحیت کا دعویٰ کیا تھا اور عیسیٰ مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا منکر ہوا اور اس کا خبیث عقیدہ اور زندیق ہونا ہم پر ظاہر ہوا تو ہمارے مشائخ نے اس کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا قادیانی کے کافر ہونے کی بابت ہمارے حضرت مولٰینا رشید احمد گنگوہی کا فتویٰ تو طبع ہوکر شائع بھی ہوچکا بکثرت لوگوں کے پاس موجود ہے کوئی چھپی ڈھکی بات نہیں۔‘‘ (المہند علی المفند: السوال السادس والعشرون ص۲۶۸، ۲۶۹)

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ دیوبندی مشائخ کے نزدیک مرزا کی بدعقیدگی شروع میں ظاہر نہ ہوئی تھی بلکہ وہ ’’اسلام‘‘ کی تائید کرتا تھا اور یہ مشائخ اس کے ساتھ حسن ظن رکھتے تھے یعنی دوسرے لفظوں میں مرزا غلام احمد شروع میں دیوبندی یا دیوبندیوں کا ہم عقیدہ تھا۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کے ان دس حوالوں کے بعد مرزا اور آلِ مرزا کی تحریروں سے دس حوالے پیشِ خدمت ہیں جن سے صراحتاً مرزا کا دیوبندی و بریلوی (یا عرفِ عام میں: حنفی) ہونا ثابت ہوتا ہے:

۱۱) مرزا غلام احمد قادیانی نے اہلِ حدیث کو وہابی کے لقب سے یاد کرتے ہوئے کہا: ’’میرا دل ان لوگوں سے کبھی راضی نہیں ہوا اور مجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوتی کہ مجھے وہابی کہا جائے اور میرا نام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا۔ میں ان کی مجلسوں میں بیٹھتا رہا ہوں۔ ہمیشہ لفاظی کی بو آتی رہی ہے یہی معلوم ہوا کہ ان میں نرا چھلکا ہے مغز بالکل نہیں ہے۔۔۔‘‘ (ملفوظات مرزا ج۲ص۵۱۵، ۱۳؍نومبر۱۹۰۲ء)

تنبیہ:        مرزائیوں کے نزدیک وہابی سے مراد اہلِ حدیث ہے۔

دیکھئے یہی مضمون (فقرہ نمبر۱۲) اور سیرت المہدی (حصہ دوم ص۴۸)

۱۲) مرزا غلام اور قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد (قادیانیوں کے خلیفہ دوم) نے لکھا ہے: ’’نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ احمدیت کے چرچے سے قبل ہندوستان میں اہل حدیث کا بڑا چرچا تھا اور حنفیوں اور اہلِ حدیث کے درمیان (جن کو عموماً لوگ وہابی کہتے ہیں، بڑی مخالفت تھی اور آپس میں مناظرے اور مباحثے ہوتے رہتے تھے اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے گویا جانی دشمن ہورہے تھے۔۔۔ اور ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی کا میدان گرم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گو دراصل دعویٰ سے قبل بھی کسی گروہ سے اس قسم کا تعلق نہیں رکھتے تھے جس سے تعصب یا جتھہ بندی کا رنگ ظاہر ہو لیکن اصولاً آپ ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی ظاہر فرماتے تھے اور آپ نے اپنے لئے کسی زمانہ میں بھی اہلِ حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا۔ حالانکہ اگر عقائدوتعامل کے لحاظ سے دیکھیں تو آپ کا طریق حنفیوں کی نسبت اہل حدیث سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۴۸، ۴۹ فقرہ:۳۵۷)

مرزا بشیر احمد کی اس عبارت سے پانچ باتیں ثابت ہوئیں:

۱:             مرزا غلام احمد قادیانی اہلِ حدیث نہیں تھا۔

۲:            مرزا غلام احمد قادیانی غیرمتعصب حنفی تھا۔

۳:            اہلِ حدیث کو لوگ وہابی کہتے تھے لہٰذا مرزا اور اس کے مقلدین کی تحریروں میں جہاں بھی وہابی کا لفظ ہوگا، اس سے مراد دیوبندی نہیں بلکہ صرف اہلِ حدیث مراد ہیں۔

۴:            مرزا قادیانی اپنے آپ کو ہمیشہ حنفی ظاہر کرتا تھا۔

۵:            مرزا قادیانی نے کسی زمانے میں بھی اپنے لیے اہلِ حدیث نام پسند نہیں کیا۔

تنبیہ:        مرزا بشیر احمد کا یہ کہنا کہ ’’عقائدوتعامل کے لحاظ سے مرزا کا طریق حنفیوں کی بہ نسبت اہل حدیث سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔‘‘ کئی لحاظ سے غلط اور جھوٹ ہے:

اول:        عقائد کا ایک بڑا مسئلہ توحید ہے اور اشرف علی تھانوی دیوبندی نے مرزائیوں کے بارے میں کہا: ’’توحید میں ہمارا ان کا کوئی اختلاف نہیں‘‘ (سچی باتیں ص۲۱۲، دیکھئے یہی مضمون فقرہ:۴)

دوم:         عقائد کا ایک باب ختم نبوت پر ایمان ہے۔ محمد قاسم نانوتوی نے لکھا ہے:

’’بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘ (تخذیر الناس ص۳۴، دوسرا نسخہ ص۸۵)

یعنی دیوبندیوں کے  نزدیک اگر خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اگر کوئی نبی پیدا ہوجائے تو پھر بھی ختم نبوت کے عقیدے میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔!

بعینہٖ یہی عقیدہ مرزائیوں کا ہے بلکہ عبدالرحمن خادم مرزائی نے نانوتوی کے مذکورہ قول کو اپنی کتاب میں بطورِ حجت پیش کیا ہے۔ دیکھئے قادیانیوں کی: پاکٹ بک (ص۲۷۶)

سوم:         مرزائیوں کا تعامل بھی اہلِ حدیث کے خلاف ہے مثلا:

مرزا بشیر احمد قادیانی نے میاں عبداللہ سنوری قادیانی سے نقل کیا کہ

’’۔۔۔اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا۔‘‘ الخ (سیرت المہدی حصہ اول ص۱۶۲ فقرہ:۱۵۴)

۱۳) مرزا قادیانی کے مرید اور خلیفۂ اول حکیم نور الدین بھیروی نے کہا:

’’حضرت مرزا صاحب اہل سنت والجماعت خاص کر حنفی المذہب تھے۔ س طائفہ ظاہرین علی الحق میں سے تھے والحمد للہ رب العالمین ۲۹اگست۱۹۱۲ء‘‘ (کلام امیر المعروف ملفوظات نور حصہ اول ص۵۴، بحوالہ تحفۂ حنفیہ ص۵۲۴)

۱۴) محمد علی لاہور مرزائی نے لکھا ہے:

’’آپ کی اس وقت کی قبولیت عامہ کی ایک جھلک اس ریویو میں نظر آتی ہے جو مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو اہلِ حدیث کے لیڈر تھے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر کیا۔ یہ ریویو اس لحاظ سے  اور بھی حیرت انگیز ہے کہ حضرت مرزا صاحب ابتداء سے آخر زندگی تک علی الاعلان حنفی المذہب رہے۔‘‘ (تحریک احمدیت ص۱۱)

یعنی بٹالوی صاحب نے حنفی المذہب مرزا قادیانی کی کتاب پر ریویو لکھا تھا۔

۱۵) مرزا بشیر احمد قادیانی نے لکھا ہے:

’’حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی دینی ضرورت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ اعلان فرما دیں کہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقیدتاً اہلِ حدیث تھے۔۔۔‘‘ الخ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۴۸ فقرہ:۳۵۷)

تنبیہ:        مرزا بشیر احمد کا حکیم نورالدین قادیانی کو ’’عقیدتاً اہلِ حدیث‘‘ کہنا غلط اور جھوٹ ہے۔ ابوالقاسم دلاوری دیوبندی نے نورالدین کے بارے میں لکھا ہے:

’’۔۔۔لیکن ایسے ایسے اکابر کی صحبت اٹھانے کے باوجود طبیعت آزادی کی طرف مائل تھی اس لیے حنفیت پر قائم نہ رہ سکے۔ پہلے اہلِ حدیث بنے۔ لیکن اس سے بھی جلد سیر ہوگئے۔۔۔‘‘ (رئیس قادیان ج۱ص۸۱)

اس دیوبندی حوالے سے معلوم ہوا کہ حکیم نورالدین بھیروی حنفی (یعنی دیوبندی یا بریلوی) تھا۔

تنبیہ:       دلاوری کا یہ کہنا کہ ’’پہلے اہلِ حدیث بنے۔‘‘ غلط اور جھوٹ ہے۔

۱۶) مرزا قادیانی نے لکھا ہے:

’’کہ یہودیوں میں حضرت مسیح کے منکر اہلحدیث ہی تھے۔ انہوں نے ان پر شور مچایا۔ اور تکفیر کا فتویٰ لکھا اور ان کو کافر قرار دیا۔ اور کہا کہ یہ شخص خدا کی کتابوں کو مانتا نہیں۔‘‘ (کشتی نوح ص۶۵، دوسرا نسخہ ص۶۰، قادیانی: روحانی اخزائن ج۱۹ ص۶۷)

یہ تحریر اہلِ حدیث پر بہت بڑا بہتان ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا اہلِ حدیث نہیں تھا۔

۱۷) مرزا قادیانی نے کہا:

’’ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے۔ ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک اباحت ہے، کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے۔ ذرا سا علم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں ہوجاتا۔ کیا وہ اس لائق ہے کہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری سے آزاد ہوجائے۔ قرآن شریف کے اسرار سوئے مطہر اور پاک لوگوں کے اور کسی پر نہیں کھولے جاتے ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے ایک حنفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے۔۔۔‘‘ الخ (ملفوظات قادیانی ج۱ص۵۳۴، ۱۵؍اگست ۱۹۰۱ء)

فقرہ نمبر۱۲ کے تحت گزر چکا ہے کہ قادیانیوں کے نزدیک وہابی سے مراد اہلِ حدیث ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ مرزا اور مرزائیوں کا مذہب اہلِ حدیث کے برخلاف ہے اور ہر شخص کو مرزائیت میں آنے کے بعد، پہلے حنفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے۔

۱۸) مرتضیٰ خان حسن بی اے قادیانی نے لکھا ہے:

’’۔۔۔ہم فقہ کو بھی مانتے ہیں اور فقہائے عظام کی دل سے قدر کرتے ہیں اور ان کے اجتہاد اور تفقہ کی قدر کرتے ہیں۔ ہم بالخصوص حضرت امام ابوحنیفہ کی فقہ پر عمل پیرا ہیں۔ اسی کی ہدایت ہمارے امام حضرت مرزا صاحب نے فرمائی ہے۔‘‘ (مجدد زمان بجواب دو نبی ص۲۱۷، بحولہ تحفۂ حنفیہ ص۵۲۵)

۱۹) مرزا قادیانی نے کہا:

’’سخت تعجب ان لوگوں کے فہم پر ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اہلِ ھدیث اور غیرمقلد ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم توحید کی راہوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو حنفیوں کو یہ الزام دیتے ہیں کہ تم بعض اولیاء کو صفاتِ الٰہیہ میں شریک کردیتے ہو اور ان سے حاجتیں مانگتے ہو۔‘‘ الخ (تحفۂ گولڑویہ ص۱۲۱، دوسرا نسخہ ص۷۰، قادیانی: روحانی خزائن ج۱۷ ص۲۰۷؍حاشیہ)

یہ تحریر خود بتارہی ہے کہ اس کا لکھنے والا اہلِ حدیث نہیں بلکہ حنفیت کا دفاع کرنے والا ہے۔

۲۰) مولانا عبدالغفوراثری حفظہ اللہ نے لکھا ہے:

’’روزنامہ نوائے وقت ج۳۷، شمارہ۲۱۲، ۱۱؍دسمبر ۱۹۷۶ء میں ہے کہ:

’’۱۰۔دسمبر (وقائع نگار) قادیانی جماعت کا سالانہ جلسہ آج ربوہ میں شروع ہوا فرقہ قادیان کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا ہم جو محسوس کرتے ہیں اور سچ سمجھتے ہیں اس کا اعلان کرتے رہیں گے۔۔۔ انہوں نے اپنےعقائد کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس مذہب کو مانتے ہیں جو نبی آخر الزماں لے کر آئے۔ ہمارا فقہ حنفی فقہ ہے۔‘‘ (حنفیت اور مرزائیت ص۵۵، طبع ۱۹۸۷ء)

قارئین کرام! ان بیس حوالوں سے یہ ثابت ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اہلِ حدیث نہیں بلکہ دیوبندی یا بریلوی (عرفِ عوام میں: حنفی) تھا لہٰذا ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی، عبدالحق خان بشیر دیوبندی اور آلِ دیوبندو آلِ بریلوی کے جن لکھاریوں نے اِدھر اُدھر کے اعمال فقیہہ والے حوالوں اور تحریفات سے مرزا قادیانی کو اہلِ حدیث ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، وہ سب جھوٹ، باطل اور مردود ہے۔

تنبیہ:        ہمارے ذکر کردہ حوالوں کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی اہلِ حدیث نہیں تھا مثلاً:

۱:             مفتی محمدصادق قادیانی نے ’’اہل حدیث و یہود‘‘ کا باب باندھ کر مرزا قادیانی سے نقل کیا : ’[ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہلحدیث کے ساتھ ہوا۔ کہ ہم قرآن پیش کرتے، اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں۔‘‘ (ذکرِ حبیب ص۲۹۵، نیز دیکھئے ملفوظات مرزا ج۲ص۲۰۳)

۲:            مرز اقادیانی نے کہا: ’’باقی رہا شریعت کا عملی حصہ، سو ہمارے نزدیک سب سے اوّل قراان مجید ہے۔ پھر احادیثِ صحیحہ جن کی سنت تائید کرتی ہے۔ اگر کوئی مسئلہ ان دونوں میں نہ ملے تو پھر میرا مذہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جاوے کیونکہ ان کی کثرت اس بات کی دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی یہی ہے۔ مگر ہم کثرت کو قرآن مجید و احادیث کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتے ہیں۔ ان کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ قیاس صحیح بھی خلاف ہیں۔ ایسی حالت میں احمدی علماء کا اجتہاد اولیٰ بالعمل ہے۔۔۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص363

محدث فتویٰ

تبصرے