سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) امام بخاری تدلیس سے بری تھے

  • 13654
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2241

سوال

(133) امام بخاری تدلیس سے بری تھے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک دیوبندی نے غلط بیان سے کام لیتے ہوئے کہا تھا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’طبقات المدلسین‘‘ میں امام بخاری رحمہ اللہ کو مدلس کہا ہے لیکن پڑھنے پر پتا چلا کہ امام موصوف نے امام ابن مندہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے اور اس کا رد بھی کیا ہے۔ قول یہ ہے: ’’اخرج البخاری قال فلان و قال لنا فلان، وھو تدلیس‘‘ مجھے جاننا یہ ہے کہ ایسی بات کا کہنا امام بخاری کی کس کتاب سے ثابت ہے؟ اور کیا یہ بات کہنا ’’قال فلان و قال لنا فلان‘‘ تدلیس کے ضمن میں آتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری (۵۵۹۰) میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وقال ھشام بن عمار……‘‘ حافظ ابن حزم نے اس روایت پر جرح کی ہے لیکن یہ روایت نہ منقطع ہے اور نہ مدلس بلکہ متصل اور صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے فتح الباری دیکھیں۔ غیر مدلس راویوں کا ’’قال فلان‘‘ یا ’’قال لنا فلان‘‘ کہنا کبھی تدلیس نہیں کہلاتا۔ مثلاً مشہور ثقہ تابعی ابوجمرہ فرماتے ہیں: ’’قال لنا ابن عباس……‘‘ (صحیح بخاری: ۳۵۲۲م)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد ابو جمرہ نصر بن عمران الضبعی البصری رحمہ اللہ کا مدلس ہونا قطعا ثابت نہیں ہے۔ ابن عون نے فرمایا: ’’قال لنا ابراھیم…‘‘ (صحیح مسلم ترقیم دارالسلام:۵۰)

ابراہیم نخعی کے شاگرد ابو عون عبداللہ بن عون بن ارطبان البصری المزنی اور عمرو بن مرہ کے بارے میں امام شعبہ نے فرمایا: ’’مار ایت احدا من اصحاب الحدیث الا یدلس الا ابن عون وعمرو بن مرۃ‘‘ میں نے اصحابِ حدیث میں سے جنھیں دیکھا ہے، وہ سب تدلیس کرتے تھے سوائے ابن عون اور عمرو بن مرہ کے۔ (مسند ابن الجعد: ۵۰ روایۃ البغوی و سندہ حسن، دوسرا نسخہ ۲۷۷/۱ ح۵۲، تاریخ دمشق لابن عساکر ۲۲۲/۳۳)

یعنی امام شعبہ کے نزدیک ابن عون تدلیس نہیں کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ’’قال فلان‘‘ یا ’’قال لنا فلان‘‘ کی وجہ سے امام بخاری کو مدلس قرار دینا غلط ہے۔ غالباً اسی وجہ سے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کی مخلوقات میں سے امام بخاری سب سے زیادہ تدلیس سے دور ہیں۔ (اغاثۃ اللبفان ۲۶۰/۱، لفت المبین ص۲۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص341

محدث فتویٰ

تبصرے