سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(120) صحیح ابن خزیمہ اور صحیح احادیث

  • 13641
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2562

سوال

(120) صحیح ابن خزیمہ اور صحیح احادیث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب یہ کہا جائے کہ امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ اپنی کتاب صحیح ابن خزیمہ میں حدیث روایت کرنے کے بعد ’’اس کی سند صحیح ہے‘‘ بھی کہتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ابن خزیمہ النیسابوری رحمہ اللہ نے صحیح ابن خزیمہ کے شروع میں فرمایا: ’’مختصر المختصر من المسند الصحیح عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (ج۱ ص۳)

ان کا اپنی اس کتاب کو المسند الصحیح کہنا، اس کی دلیل ہے کہ کتاب مذکور میں ہر حدیث امام ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہے، الا یہ کہ وہ کسی روایت کو خود ضعیف کہہ دیں یا کوئی کلام کرکے ضعف کی طرف اشارہ کر دیں۔

حافظ ابن حجر العسقلانی کے استاذ حافظ ابن الملقن نے صحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے: ’’وصححہ ابن خزیمۃ ایضا لذکرہ ایاہ فی صحیحہ‘‘ اور ابن خزیمہ نے بھی اس حدیث کو اپنی صحیح میں ذکر کرنے کی وجہ سے صحیح قرار دیا ہے۔ (البدر المنیر ج۱ ص۶۱۹)

علمائے کرام اور عام لوگوں کا یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ جس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے بغیر کسی جرح کے اپنی کتاب: صحیح ابن خزیمہ میں روایت کیا تو وہ کہتے ہیں: اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا ے یا صحیح قرار دیا ہے۔

مثلاً حدیث: «هو الطهور ماؤه، الحلال میتته»

سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار (مچھلی) حلال ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ: ۱۱۱، ۱۱۲) کے بارے میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے: ’’و صححہ ابن خزیمۃ‘‘

اور اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ (بلوغ المرام:۱)

چھوٹے بچے کے پیشاب کے بارے میں ایک حدیث سیدنا ابو السمح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے امام ابن خزیمہ (ج۱ ص۱۴۳ ح۲۸۳) نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث کے بارے میں محمد بن علی النیموی نے کہا: ’’وصححہ ابن خزیمۃ‘‘ اور اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ (آثار السنن ص۳۷ حدیث:۴۸)

حالانکہ صحیح ابن خزیمہ میں امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کے ساتھ ’’سندہ صحیح‘‘ نہیں لکھا، لہٰذا ثابت ہوا کہ امام ابن خزیمہ کا کسی حدیث کو اپنی کتاب: صحیح ابن خزیمہ میں بغیر جرح کے صرف نقل کر دینا ہی، ان کی طرف سے اس حدیث کو صحیح قرار دینا ہے۔

یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ صحیح ابن خزیمہ کی ہر حدیث کے ساتھ اگر امام ابن خزیمہ نے ’’سندہ صحیح‘‘ لکھا ہوگا تو وہ حدیث امام ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہوگی، ورنہ نہیں۔!!

بلکہ صرف ان کا بغیر جرحکے روایت کر دینا ہی تصحیح ابن خزیمہ ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص303

محدث فتویٰ

تبصرے