السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محدثین کرام نے کتب صحیحہ کے علاوہ دوسری کتابوں میں ضعیف اور م دود روایات کیوں لکھی ہیں؟ براہِ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ ابن حجر نے فرمایا: ’’بل اکثر المحدثین فی الاعصار الماضیة من سنة مائتین و هلم جرا اذا ساقوا الحدیث یاسنادہ اعتقدوا انهم برؤا من عهدته۔ والله اعلم‘‘
بلکہ سن دو سو ہجری سے لے کر بعد کے گزشتہ زمانوں میں محدثین جب سند کے ساتھ حدیث بیان کر دیتے تو یہ سمجھتے تھے کہ وہ اس کی مسئولیت سے بری ہوچکے ہیں۔ واللہ اعلم (لسان المیزان ج۳ ص۷۵ ترجمۃ سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی، دوسرا نسخہ ج۳ ص۳۵۳، اللالی المنصوعہ للسیوطی ج۱ ص۱۹، دوسرا نسخہ ص۲۵، تذکرۃ الموضوعات للفتنی ص۷)
حافظ ابن تیمیہ نے فرمایا: لیکن (ابو نعیم الاصبہانی نے) روایات بیان کیں جیسا کہ ان جیسے محدثین کسی خاص موضوع کے بارے میں تمام روایتیں بیان کر دیتے تھے تاکہ (لوگوں کو) علم ہو جائے۔ اگرچہ ان میں سے بعض کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی تھی۔ (منہاج السنہ ج۴ ص۱۵)
سخاوی نے کہا: اکثرمحدثین خصوصاً طبرانی، ابو نعیم اور ابن مندہ جب سند کے ساتھ حدیث بیان کرتے تو وہ یہ عقیدہ رکھتے یعنی سمجھتے تھے کہ وہ اس کی مسئولیت سے بری ہوچکے ہیں۔ (فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث ج۱ ص۲۵۴، الموضوع)
ان تحقیقات سے معلوم ہوا کہ صحیحین ک علاوہ کتب حدیث مثلاً الادب المفرد للبخاری اور مسند احمد وغیرہما میں ضعیف حدیثیں بھی ہیں، جنھیں سند کے ساتھ روایت کرکے محدثین کرام بری الذمہ ہوچکے ہیں۔ یہ روایات انھوں نے بطورِ حجت و استدلال نہیں بلکہ بطورِ معرفت و روایت بیان کر دی تھیں لہٰذا اصول حدیث اور اسماء الرجال کو مدنظر رکھنے کے بغیر صحیحین ک علاوہ دیگر کتب حدیث کی روایات سے استدلال یا حجت پکڑنا اور انھیں بطورِ جزم بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب