السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب ’’علم الرجال‘‘ پوری طرح مرتب و مدون ہوچکا ہے اور اب اس میں نہ کوئی کمی اور نہ ہی بیشی ہوسکتی ہے تو پھر آج اتنا اختلاف کیوں ہے ہر مسلک کے علماء کا بلکہ ایک ہی مسلک کے علماء کا ایک ہی روایت پر حکم مختلف کیوں ہوتا ہے۔ اگر کوئی روایت حقیقتاً ضعیف ہے تو اس کا ضعف ’’علم الرجال‘‘ کی کتب میں مفصلاً موجود ہے اور اسی طرح صحیح اور حسن کا۔ اس کے باوجود مختلف مسالک کے علماء میں جرح و تعدیل، رد و قدح اور رد و قبول میں اتنا ہیر پھیر کیوں ہے۔ بس ذرا اس کو واضح طور پر سمجھا دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اختلاف کی وجہ تقلید ہے۔
انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب ایک حدیث کو قوی تسلیم کرکے چودہ سال اس کا جواب سوچتے رہے۔ دیکھئے درس ترمذی (ج۲ ص۲۲۴) و العرف الشذی و معارف السنن و فیض الباری (ج۲ ص۳۷۵)
رشیدد احمد لدھیانوی دیوبندی نے کہا:
’’معہذا ہمارا فتوی اور عمل قول امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا اس لیے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لیے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفۂ مجتہد ہے۔‘‘ (ارشاد القاری الی صحیح البخاری ص۴۱۲)
محمود حسن دیوبندی نے کہا:
’’الحق والانصاف ان الترجیع للشافعی فی هذه المسئلة و نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفة‘‘
حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں، ہم پر ہمارے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ (التقریر للترمذی ص۳۶)
قاری رحمت دین دیوبندی نے حضرو میں میرے سامنے کہا تھا کہ
’’اگر تم دو سو حدیثیں رفع یدین کے بارے میں پیش کرو تو میں نہیں مانتا‘‘
یہ ہے اصل سبب جس کی وجہ سے مرضی کی حدیث کو صحیح اور مخالف کی حدیث کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے۔
علی محمد حقانی دیوبندی نے اپنی مرضی والی حدیث میں یزید بن ابی زیاد کوث قہ اور مرضی کے خلاف والی حدیث میں یزید بن ابی زیاد کو ضعیف قرار دیا ہے۔
دیکھئے نبوی نماز (سندھی ج۱ ص۳۵۵ و ص۱۶۹)
امین اوکاڑوی دیوبندی نے مرضی والی حدیث میں ’’عطاء بن ابی رباح کو دو سو صحابہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہے‘‘ کا اعتراف کیا ہے اور مرض کے خلاف حدیث میں عطاء بن ابی رباح کو دو سو صحابہ سے ملاقات انکار کر دیا ہے۔
دیکھئے مجموعہ رسائل طبع ۱۹۹۱ء ج۱ ص۲۶۵ (نماز جازہ میں سورۃ فاتحہ کی شرعی حیثیت ص۹) اور جۃ ص۱۵۶ (تحقیق مسئلہ آمین ص۴۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب