السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اگر پانچ ماہ کا بچہ ماں کے پیٹ میں مر جائے تو کیا اس کا جنازہ پڑھا جائے گا۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! گرنے والا حمل اگر کم از کم چار ماہ کا ہو تو واجب ہے کہ اسے غسل دیا جائے، کفن پہنایا جائے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے کیونکہ جب وہ چار ماہ کا ہو جاتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے،اور وہ زندوں میں شمار ہونے لگتا ہے۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «إِنَّ أَحَدَکُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِی بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا نطفة ثُمَّ يَکُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يَکُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يَبْعَثُ اليهُ الملک ، َ فيُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ» (صحیح بخاری:3208) ’’تم میں سے ہر ایک کے تخلیقی اجزاء اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی صورت میں جمع رہتے ہیں، پھر وہ چالیس دن تک لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے اور پھر اسی طرح چالیس دن تک بوٹی کی صورت میں ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے، جوآکر اس میں روح پھونکتا ہے۔‘‘ یہ کل ایک سو بیس دن یعنی چار ماہ بنتے ہیں، لہٰذا جب حمل اس مدت کے بعد گرے تو اسے غسل دیاجائے گا، کفن پہنایا جائے گا، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور روز قیامت اسے بھی لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔اور اگر حمل چار ماہ کی مدت سے پہلے ساقط ہو جائے تو پھر اسے نہ غسل دیا جائے گا، نہ کفن پہنایا جائے گا، نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے کسی بھی جگہ دفن کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، انسان نہیں ہے۔ ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب فتوی کمیٹیمحدث فتوی |