سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) صحابی ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ پر ایک بہتان اور اس کا رد

  • 13621
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5581

سوال

(100) صحابی ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ پر ایک بہتان اور اس کا رد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّـهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٧٥ فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٧٦ فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّـهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿٧٧﴾... سورة التوبة

ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ اپنے فضل سے ہمیں (مال) دے گا تو ہم ضرور صدقہ خیرات کریں گے اور ضرور ہم صالحین میں سے ہوں گے۔ پس جب اللہ نے انھیں اپنے فضل سے (مال) عطا کیا تو انھوں نے بخل کیا اور منہ پھیر کر اعراض کرتے ہوئے چلے گئے۔ پس اللہ کے ساتھ وعدہ خلافی اور ان لوگوں کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے اللہ نے قیامت تک ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا۔ (سورۃ التوبۃ: ۷۵۔۷۷)

اس آیت کی تشریح میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہوا ہے کہ ’’یہ آیت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم س درخواست کی کہ میرے لیے مالداری کی دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا: تھوڑا مال جس کا شکر ادا ہو اس بہت سے مال سے اچھا ہے جو اپنی طاقت سے باہر ہو۔ اس نے دوبارہ درخواستکی تو آپ نے سمجھایا: کیا اپنا حال اللہ کے نبی جیسا رکھنا پسند نہیں کرتا؟ واللہ میں اگر چاہتا تو پہاڑ سونے  چاندی کے بن کر میرے ساتھ چلتے۔ اس نے کہا: واللہ میرا ارادہ ہے کہ اللہ مجھے مالدار کر دے تو میں خوب سخاوت کروں، ہر ایک کو اس کا حق ادا کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے مال میں برکت کی دعا فرمائی تو اس کی بکریوں میں اتنا اضافہ ہوا کہ مدینہ شریف اس کے جانوروں کے لیے تنگ ہوگیا۔

یہ (ثعلبہ بن حاطب) ایک میدان میں نکل گیا۔ ظہر و عصر تو جماعت کے ساتھ ادا کرتا، باقی نمازیں اسے جماعت سے نہیں ملتی تھیں۔ جانوروں میں اور برکت ہوئی تو اسے اور دور جانا پڑا۔ اب سوائے جمعہ کے سب جماعتیں اس سے چھوٹ گئیں۔ مال بڑھتا گیا۔ ہفتے بعد جمعہ کے لیے آنا بھی اس نے چھوڑ دیا۔ آنے جانے والے قافلوں سے پوچھ لیا کرتا تھا کہ جمعہ کے دن کیا بیان ہوا؟

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال دریافت کیا تو لوگوں نے سب کچھ بیان کردیا۔ آپ نےاظہار افسوس فرمایا۔

ادھریہ آیت نازل ہوئی کہ ان کے مال سے صدقہ (زکوٰۃ) لے  لو۔ (سورہ توبہ: ۱۰۳)

اور صدقات کے احکام بھی بیان ہوئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو زکوٰۃ اکٹھا کرنے کے لیے بھیجا اور فرمایا کہ ثعلبہ سے اور بنی سلیم کے فلاں آدمی سے صدقہ (زکوۃ) لے آؤ۔

یہ دونوں جب ثعلبہ کے پاس پہنچے اور فرمانِ رسول دکھایا تو یہ کہنے لگا: واہ واہ یہ تو جزئیے کی بہن ہے، یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کافروں سے جزیہ لیا جاتا ہے۔ بنو سلیم والے آدمی نے تو اپنے بہترین جانور زکوٰۃ میں نکال کر ان دونوں آدمیوں کے حوالے کئے۔ مگر ثعلبہ نے زکوۃ ادا نہ کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ پر اظہار افسوس کیا اور بنو سلیم والے شخص کے لئے برکت کی دعا کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات (التوبہ: ۷۵۔۷۷) نازل فرمائیں۔ ثعلبہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے جب یہ سب کچھ سنا تو ثعلبہ سے جاکر واقعہ بیان کیا اور آیت بھی سنائی۔ وہ آپ کے پاس آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول کیا جائے تو آپ نے فرمایا: اللہ نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ یہ (ثعلبہ) اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک اس کی کوئی چیز قبول نہ فرمائی۔ پھر بعد میں صدیق اکبر، عمر فاروق رضی اللہ عنہا نے بھی اس کی زکوٰۃ قبول نہ فرمائی۔

’’پھر خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو یہ ازلی منافق پھر آیا اور لگا منت سماجت کرنے لیکن آپ نے بھی یہی جواب دیا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلیفوں نے تیرا صدقہ قبول نہیں کیا تو میں کیسے قبول کروں؟ چنانچہ قبول نہیں کیا۔ اسی اثناء میں یہ شخص ہلاک ہوگیا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر مترجم ج۲ ص۵۸۸، ۵۸۹، طبع مکتبہ قدوسیہ لاہور، ۲۰۰۳ء بتصرف یسیر)

کیا یہ واقعہ صحیح سند سے ثابت ہے؟

تحقیق کرکے تفصیل سے جواب دیں، جزا کم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی رسوله الامین، امابعد:

تفسیر ابن کثیر میں یہ واقعہ بحوالہ تفسیر ابن جریر طبری (۱۳۰/۱۰، ۱۳۱) و تفسیر ابن ابی حاتم الرازی (۱۸۴۷/۶۔ ۱۸۴۹)

’’معان بن رفاعۃ عن علی بن یزید عن ابی عبدالرحمن القاسم بن عبدالرحمن عن ابی امامۃ الباھلی رضی اللہ عنہ‘‘ مذکور ہے۔ (ج۳ ص۴۱۶، ۴۱۷)

تفسیر ابن کثیر کے محقق جناب عبدالرزاق المہدی لکھتے ہیں:

’’اسنادہ واہ بمرۃ و المتن باطل……… و اسنادہ ضعیف جدا‘‘ یہ انتہائی کمزور سند ہے اور یہ متن باطل ہے۔ اور اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ (حاشیہ تفسیر ابن کثیر ۴۱۷/۳)

اس کا راوی علی بن یزید الالھانی سخت ضعیف راوی ہے۔

امام بخاری فرماتے ہیں: ’’منکر الحدیث‘‘ (کتاب الضعفاء بتحقیقی تحفۃ الاقویاء ص۷۹ ت۲۶۲)

امام بخاری کے نزدیک اس شخص سے روایت حلال نہیں ہے جسے وہ ’’منکر الحدیث‘‘ کہہ دیں۔ (دیکھئے لسان المیزان ج۱ ص۲۰)

امام نسائی نے فرمایا: ’’متروک الحدیث‘‘ (کتاب الضعفاء و المتروکین:۴۳۲)

متروک راوی کی روایت، بغیر تنبیہ کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (ص۳۸)

اس سند کا دوسرا راوی معان بن رفاعہ: للین الحدیث (یعنی ضعیف) ہے۔ (التقریب: ۶۷۴۷)

خلاصۃ اتحقیق:

یہ روایت باطل اور مردود ہے۔

اس روایت پر تفصیلی جرح کے لئے عداب محمود الحمش کی کتاب ’’ثعلبۃ بن حاطب، الصحابی المفتری علیہ‘‘ دیکھیں (ص۶۷ تا ۷۳)

تنبیہ:

تفسیر ابن کثیر عربی میں ’’ازلی منافق‘‘ کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ اب اس روایت کے شواہد (تائید والی روایتوں) کا جائزہ پیش خدمت ہے:

۱:       ’’محمد بن سعد العوفی عن ابیہ عن عمہ عن ابیہ عن ابیہ عن ابن عباس‘‘ کی سند سے ایک مختصر روایت اس کی مؤید ہے۔ (دیکھئے تفسیر طبری ۱۳۰/۱۰ و تفسیر ابن ابی حاتم ۱۸۴۹/۶ ح۱۰۵۰۰)

اس روایت میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نیچے سارے راوی ضعیف ہیں۔

(۱) محمد بن سعد العوفی ضعیف عند الجمہور ہے۔ (۲) سعد بن محمد بن الحسن العوفی جہمی (سخت گمراہ) ہے [دیکھئے لسان المیزان ۱۹/۳] کسی نے بھی اس کی توثیق نہیں کی (۳)سعد العوفی کا چچا الحسین بن الحسن بن عطیۃ العوفی ضعیف و مجروح ہے۔ [دیکھئے لسان المیزان ۲۷۸/۲] (۴) الحسن بن عطیۃ العوفی ضعیف ہے۔ [تقریب:۱۲۵۶] (۵) عطیۃ العوفی ضعیف الحفظ و مدلس ہے۔ [دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیقی:۴/۱۲۲ ضعفہ الجمہور]

خلاصۃ التحقیق:

یہ سند باطل و مردود ہے۔

۲:            ’’ابن جریر الطری قال: حدثنا ابن حمید قال: ثنا سلمة عن ابن اسحاق عن عمرو بن عبید عن الحسن‘‘ الخ (تفسیر طبری ۱۳۳/۱۰)

اس یں محمد بن حمید الرازی: ’’حافظ ضعیف، وکان ابن معین حسن الرای فیہ‘‘ ہے (تقریب:۵۸۳۴) ابن معین کی حسن رائے جمہور کی جرح کے مقابلے میں  مردود ہے۔ محمد بن اسحاق بن یسار صدوق مدلس ہے اور روایت معنعن (عن سے) ہے۔ عمرو بن عبید المعتزلی: کذاب ہے۔ دیکھئے میری کتاب تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری (ص۸۱ ت۲۶۹) و تہذیب التہذیب (۷۰/۸) و میزان الاعتدال (۲۷۳/۳)

خلاصۃ التحقیق:

یہ سند عمرو بن عبید کی وجہ سے موضوع ہے۔

۳:            قتادہ تابعی سے روایت ہے:

’’ذکرلنا ان رجلا من الانصار اتی مجلس من الانصار فقال: لئن آتاه اللہ مالا لیو دین الی کل ذی حق حقه قاتاه اللہ مالا فصنع فیه ماتسمعون‘‘

ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایک انصاری آدمی انصار یوں کی مجلس میں آیا اور کہا: اگر اللہ مجھے مال دے تو میں ہر حق دار تک اس کا حق پہنچا دوں گا۔ پس اللہ نے اسے مال دیا تو اس نے وہ کام کیا جو آپ سن رہے ہیں۔ (تفسیر طبری ۱۳۱/۱۰ من طریق سعید عن قتادہ بہ)

اس میں سعید بن ابی عروبہ ثقہ مدلس ہیں۔ دیکھئے میری کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (۲/۵۰) و تقریب التہذیب (۳۳۶۵)

لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ قتادہ سے ثابت ہی نہیں ہے۔

تنبیہ:

اس ضعیف راوی میں ثعللبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ کا نام مذکور نہیں ہے۔

۴:            مجاہد تابعی سے روایت ہے: ’’رجلاان خرجا علی ملا قعود فقالا: واللہ لئن رزقنا اللہ لنصدقن، فلما رزقهم بخلوابه‘‘

دو آدمی ایک گروہ کے پاس سے گزرے جو بیٹھے ہوئے تھے تو ان دونوں نے کہا: واللہ اگر ہمیں اللہ رزق دے تو ہم ضرور صدقہ کریں گے۔ پس جب اللہ نے انھیںرزق دیا تو انھوں نے بخل کیا۔ (تفسیر طبری ۱۳۲/۱۰ و تفسیر ابن ابی حاتم ۱۸۴۹/۶ ح۱۰۵۰۱ من حدیث ابن ابی نجیح عن مجاہدبہ)

اس روایت کے راوی عبداللہ بن ابی نجیح ثقہ مدلس ہیں۔ دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیقی (۳/۷۷) و تقریب التہذیب (۳۶۶۲) لہٰذا یہ روایت ابن ابی نجیح کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

تنبیہ:

اس ضعیف روایت میں بھی ثعلبہ رضی اللہ عنہ کا نام موجود نہیں ہے۔

تحقیق کا خلاصہ:

ان تمام روایات کی تحقیق کا نتیجہ اور خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا ثعلبہ بن حاطب الانصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ قصہ بے بنیاد و باطل ہے جسے بعض قصہ گو حضرات مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ اس مردود قصے سے سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہ بری ہیں۔

تنبیہ:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحقیق میں ثعلبہ بن حاطب الانصاری البدری رضی اللہ عنہ دوسرے صحابی ہیں اور ثعلبہ بن حاطب اور ابن ابی حاطب الانصاری، غیر البدری رضی اللہ عنہ دوسرے صحابی ہیں۔

دیکھئے الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (طبع بیت الافکار ص۱۵۶ ت۹۷۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص271

محدث فتویٰ

تبصرے