السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضورؐ نے منقول ہے کہ ابن عباسؓ نے خواب میں آپ کو دیکھا چہرہ گرد آلود ہے بال بکھرے ہوئے ہیں ہاتھ میں خون کی بوتل تھی حضرت عباسؓ نے پوچھا یارسول اللہ یہ خون کی بوتل کیسی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں مقتتل حسین گاہ سے آرہا ہوں اور تمام دن حضرت حسینؓ اور ان کے خاندان کا خون اکٹھا کرتا رہا۔ (مظاہر حق جدید،صفحہ نمبر ۷۹۳ امام بیہقی اور مسند احمد)
مولانا صاحب کچھ شیعہ حضرات نے ان احادیث پر اعتراض کیا ہے اور ان کی اسناد کے صحیح ہونے پر شک کیا ہے۔ آپ مہربانی فرما کر ہمیں قرآن و حدیث اور اسماء الرجال سے مطالعہ فرما کر ان کے راویوں کے بارے میں تحقیق و وضاحت تحریر فرمائیں۔
اگر یہ روایات صحیح ہیں تو بھی ان کے بارے میں مدلل تحریر کریں اور اگر ضعیف اور غریب ہیں تو ان کے ضعیف اور کمزور سند ہونے کی وجہ تحریر کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی رسوله الامین، امابعد:
یہ روایت مظاہر حق قدیم (ج۵ ص۷۳۸) و مشکوۃ المصابیح (ح۶۱۸۱) میں بحوالہ دلائل النبوۃ للبیقہی (۴۷۱/۶) و مسند احمد (۲۴۲/۱ ح۲۱۶۵) مذکور ہے۔
وعن ابن عباس انه قال: رایت النبی صلی الله علیه وسلم فیما یری النائم ذات یوم بنصف النهار اشعث اغبر، بیده قارورة فیهادم، فقلت: بابی انت و امی ماهذا؟ قال: «هذا دم الحسین و اصحابه، لم ازل التقطه منذ الیوم، فاحصی ذلک الوقت فاجد قتل ذلک الوقت»
ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: میں نے ایک دن دوپہر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل ہے۔ میں ن ے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہں، یہ کیا ہے؟ (یعنی آپ کی یہ حالت اورخون کی بوتل یا پیالہ کیوں ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین (رضی اللہ عنہ) اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، اسے میں (قتل گاہ حسین میں) صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں۔
(ابن عباس نے) فرمایا: پھر میں نے اس (خواب کے) وقت کو یاد رکھا تو معلوم ہوا کہ اسی وقت (اور دن) وہ (حسین رضی اللہ عنہ) شہید ہوئے تھے۔
اسے احمد (االمسند ۲۴۲/۱ ح۲۱۶۵، ۲۸۳/۱ ح۲۵۵۳ کتاب فضائل الصحابۃ ۷۷۹/۲ ح۱۳۸۱) طبرانی (الکبیر ۱۱۰/۳ ح۲۸۲۲، ۱۸۵/۱۲ ح۱۲۸۳۷) حاکم (۳۹۷/۴، ۳۹۸ ح۸۲۰۱) بیہقی (دلائل النبوۃ ۴۷۱/۶) اور ابن عساکر (تاریخ دمشق ۲۲۸/۱۴) نے حماد بن سلمہ عن عمار بن ابی عمار عن ابن عباس کی سند سے روایت کیا ہے۔ اسے امام حاکم و ذہبی دونوں نے صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ ابن کثیرالدمشقی نے کہا: ’’تفرد بہ احمد و اسنادہ قوی‘‘ اسے (کب سبعہ میں سے) صرف احمد نے روایت کیا ے اور اس کی سند قوی ہے۔ (البدایۃ و النہایۃ ۲۰۲/۸)
شیخ وصی اللہ بن محمد عباس المدنی المکی فرماتے ہیں:
’’اسنادہ صحیح‘‘ اس کی سند صحیح ہے۔ (تحقیق فضائل الصحابۃ ۷۷۹/۲)
آپ صحیح مسلم و سنن اربعہ کے مرکزی راوی ہیں: مثلاً دیکھئے صحیح مسلم (ج۱ ص۵۶ ح۹۵/۱۱۰) و ترقیم دارالسلام (۲۱۴، ج۱ ص۷ز ح۱۱۹/۱۸۷، ج۱ ص۹۱ ح۱۶۲/۲۵۹) حماد بن سلمہ پر جرح مردود ہے۔
امام یحیی بن معین نے کہا: ’’حماد بن سلمۃ ثقۃ‘‘ حماد بن سلمہ قابل اعتماد راوی ہیں۔ (الجرح والتعدیل ۱۴۲/۳ و سندہ صحیح)
نیز دیکھئے تاریخ الدارمی: ۳۷ و سوالات ابن الجنید:۱۷۲، وقال: ثقہ ثبت
العجلی المعتدل نے کہا: ’’بصری ثقة، رجل صالح، حسن الحدیث‘‘ (التاریخ بترتیب الہیثمی و السبکی: ۳۵۴)
یعقوب بن سفیان الفارسی یا حجاج (بن منہال) نے کہا: ’’وھو ثقۃ‘‘ (کتاب المعرفۃ و التاریخ ۶۶۱/۲)
اسے درج ذیل محدثین نے بھی ثقہ و صحیح کہا ہے:
۱: احمد بن حنبل (سوالات ابن ہانی: ۲۱۳۰، ۳۱۳۱ و موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل ۲۹۹/۱)
۲: ابن حبان (کتاب الثقات ۲۱۶/۶ و صحیح ابن حبان الاحسان: ۱۴، ۲۲، ۵۰)
۳: ابن شاہین (ذکر من اختلف العلماء و نقاد الحدیث فیہ ص۴۱)
۴: الترمذی (۷۲، ۳۰۷، ۱۲۳۸……)
۵: ابن الجارود (۴۶، ۱۰۷، ۱۲۴)
۶: الحاکم (۶۰۸/۲ ح۴۲۰۵ وغیرہ)
۷: ابن خزیمہ (۲۰۸/۱ ح۴۰۰ و ح ۳۶۰، ۱۴۱۲)
۸: الساجی: ’’کان حافظا ثقة مامونا‘‘ (تہذیب التہذیب ۱۵/۳) وغیرہم
حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ’’المام الحافظ شیخ الاسلام‘‘ (تذکرۃ الحفاظ ۲۰۲/۱ ت۱۹۷)
’ولم ینحط حدیثه عن رتبة الحسن‘‘ اور اس کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گرتی۔ (سیر اعلام النبلاء ۴۴۶/۷)
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: ’’ثقۃ عابد اثبت الناس فی ثابت، و تغیر حفظہ باخرۃ‘‘ ثقہ عابد تھے، ثابت (البنانی) سے روایت کرنے میں سب لوگوں سے زیادہ ثقہ ہیں، آپ کا حافظہ آری عمر می متغیر ہوگیا تھا۔ (تقریب التہذیب ۱۴۹۹)
حماد بن سلمہ سے روایت مذکورہ درج ذیل محدثین نے بیان کی ہے۔
۱: عبدالرحمن بن مہدی (احمد/۲۴۲)
۲: عفان (احمد/۲۸۳)
۳: الحسن بن موسی الاشیب (الحاکم فی المستدرک ۳۹۷/۲) وغیرہم
حماد بن سلمہ سے عبدالرحمن بن مہدی، عفان اور حسن بن موسیٰ کی روایات صحیح مسلم میں بطورِ حجت موجود ہیں۔ (تہذیب الکمال / موسسۃ الرسالۃ ۲۷۸/۲ و صحیح مسلم ۸۱/۲۹۷ دارالسلام: ۴۴۹، ۲۰۳/۳۴۷، سلام: ۵۰۰، ۱۱۹/۱۸۷ اسلام: ۳۱۴)
صحیحین میں جس مختلط و متغیر الحفظ راوی سے استدلال کیا گیا ہے اس کی دلیل ہے کہ مذکورہ روایات قبل از اختلاط کی ہیں۔ دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح (ص۴۶۶ دوسرا نسخہ ۴۹۹) خلاصہ یہ کہ روایت مذکورہ پر اختلاط کی جرح مردود ہے کیونکہ یہ اختلاط و تغیر سے پہلے کی ہے۔ والحمدللہ
یہ روایت صحیح (یا حسن لذاتہ) ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب