السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کا خاوند فوت ہوچکا ہے، اس عورت کی ایک جوان بیٹی بھی ہے، ان کا ذریعہ آمدنی کچھ بھی نہیں ہے، لڑکی کی ماں بیمار ہے، اگر لڑکی کام کاج کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلتی ہے تو لوگ اس کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں، کوئی شادی ک لئے بھی تیار نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ وہ گھر کو کس طرح چلائے؟ آیا اپنے آپ کو ان درندوں کے حوالے کر دے، بھوکی مر جائے، خودکشی ک رے، مانگنا شروع کر دے، ماں کا گلا دبا دے، وہ کیا کرے؟ ایسے ملک میں جہاں اسلامی قوانین بھی لاگو نہیں ہیں، ایسی صورت میں وہ کس کے پاس جائے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرطِ صحت سوال، اس کے محلے والے اور اردگرد کے لوگوں پر یہ لازم ہے کہ اس عورتکی، زکوٰۃ و صدقات وغیرہ سے بھر پور امداد کریں۔ اگر وہ نہیں کریں گے تو سارے لوگ گناہ گارہوں گے۔ رہا برائی کرنا، جان بوجھ کر بھوکا مر جانا، خودکشی کرنا، ماں کا گلا دبا دینا وغیرہ تو یہ سارے کام حرام ہیں۔ گلی کوچوں میں مانگنا بھی انتہائی مذموم و ناجائز ہے۔ محلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے اس نوجوانلڑکی کا نکاح کسی صحیح العقیدہ آدمی سے کر دیں تاکہ فتنہ کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اکثر لوگ مستحقین تک زکوٰۃ و صدقات نہیں پہنچاتے۔ صرف ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو انھیں ووٹ دیں یا خان، ملک، چوہدری وغیرہ کہیں۔ ذاتی مفاد کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور بعض ایسے بدنصیب بھی ہوتے ہیں جن کا سارا مال مختلف جماعتیں اور پارٹیاں لے جاتی ہیں اور بہانہ یہ ہوتا ہے کہ ہم دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ حالانکہ حکم یہ ہے کہ «ابدا بمن تعول» اس شخص سے شروع کرو جس کا نان و نفقہ تمھارے ذمہ ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۴۲۷، صحیح مسلم: ۱۰۳۴)
اگر مخیر حضرات ان جماعتوں اور پارٹیوں کے جال سے نکل کر صحیح العقیدہ اور مستحق اشخاص تک زکوٰۃ و صدقات وغیرہ پہنچائیں تو ان شاء اللہ کوئی غریب، غریب نہیں رہے گا۔ ضرورت یہ ہے کہ ائمہ مساجد و خطباء حضرات لوگوں کی صحیح تربیت کریں۔ انھیں انفاق مال کا صحیح طریقہ بتائیں نہ کہ وہ اپنی جھولیاں بھرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں۔!
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب