السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر دو آدمی آپس میں جھگڑتے ہیں اور دونوں پھر آپس میں اللہ کی رضا کے لئے صلح کر لیتے ہیں تو اس کی فضیلت کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ابن ابی شیبہ کی ایک حدیث میں آیا ہے: «وأیما بدا صاحبه کفرت ذنوبه» اوران دونوںمیں سے بھی جو بھی (صلح میں) ابتدا کرتا ہے تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ (الترغیب و الترہیب ج۳ ص۴۵۶)
اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھئے صحیح الترغیب و الترہیب (۵۰/۳، ۵۱ ح۲۷۵۹)
لیکن مجھے اس یک سند نہیں ملی لہٰذا اس تصحیح میں نظر ہے۔
[بعد میں اس کی سند مل گئی جو مع متن درج ذیل ہے:
’’ابوبکر بن ابی شیبة: حدثنا اسحاق بن منصور: ثنا عبدالوارث عن یزید الرشک عن معاذة عن هشام(بن) عامر قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم:
«لا یحل ان یصطر مافوق ثلاث فان اصطرما فوق ثلاث لم یجتمعا فی الجنة ابدا و أیهما بدا صاحبه کفرت ذنوبه وان هو سلم فلم یرد علیه ولم یقبل سلامه رد علیه الملک ورد علی ذلک الشیطان» (الاحکام الکبریٰ لعبد الحق الاشبیلی ۱۸۲/۳، بحوالہ المکتبۃ الشاملہ، اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ والحمدللہ)]
ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«و اولهما فیئا یکون فیئه کفارة له» جو شخص پہلے صلح کرے گا، اس کی پہل اس کے لئے کفارہ بن جائے گی۔ (الزھد لابن المارک: ۷۸۴ و سندہ صحیح واللفظ لہ، مسند احمد ۲۰/۴ ح۱۶۲۵۷، صحیح ابن حبان، الاحسان: ۵۶۳۵، دوسرا نسخہ: ۵۶۶۴)
اس حدیث کے مفہوم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر دونوں ایک دوسرے سے صلح کرنے میں سبقت کرنے کی کوشش کریں گے تو دونوں کے لئے بڑا ثواب ہے، ان کا یہ عمل ان کے لئے کفارہ بن جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب