السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض علمائے کرام کہتے ہیں کہ شیرخواری کی عمر میں بچہ ایک بھی دفعہ دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے، ان کا استدلال درج ذیل روایات ہیں:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو برس کی عمر میں بچہ اگر ایک دفعہ بھی دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔
ابراہیم بن عقبہ نے سعید بن المسیب سے رضاعت کا حکم پوچھا تو سعید رحمہ اللہ نے کہا: جو رضاعت دو برس کے اندر ہو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے چاہے ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ ابراہیم نے کہا پھر میں نے عروہ بن زبیر سے پوچھا، انھوں نے بھی ایسا ہی کہا۔
ابن شہاب کہتے ہیں کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ روایات موطا امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہیں،ان کی اسانید اور صحت کے بارے میں تفصیل سے جواب ارسال کریں۔
جو لوگ پانچ دفعہ دودھ پینے کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ پہلے قرآن میں دس بار دودھ پینے کے بارے میں آیا تھا، بعد میں حکم منسوخ ہوکر پانچ دفعہ رہ گیا تھا، کم از کم پانچ دفعہ دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔(جبکہ قرآن میں یہ آیات ہیں)
کیا بلوغت کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے جو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سہلہ بنت سہیل ابوحذیفہ کی بیوی جو بنی عامر بن لوی کی اولاد میں سے تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی کہ ہم سالم کو اپنا بچہ سمجھتے تھے، ہمارے گھر چلا آتا تھا، اب کیا کرنا چاہئے، دوسرا گھر بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا:اس کو پانچ بار دودھ پلا دے وہ تیرا محرم ہو جائے گا۔ لیکن دوسری ازواجِ مطہرات اس کا انکار کرتی ہیں۔ (موطا امام مالک)
کیایہ حکم سالم کے لئے خاص تھا یا کہ عام ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر ’’ما کان فی الحولین وان کان مصة واحدة فهو یحرم‘‘ موطا امام مالک ۶۰۷/۷ بترقیم فواد عبدالباقی پر ’’عن ثور بن زید الدیلی عن ابن عباس به‘‘ کی سندسے ہے۔ ثور بن زید کی ابن عباس سے روایت منقطع ہوتی ہے۔ تاہم یہی روایت السنن الکبریٰ للبیہقی ج۷ ص۴۶۲ پر ’’عن عبدالعزیز بن محمد (الدراوردی) عن ثور بن زید عن عکرمہ عن ابن عباس‘‘ کی سند سے متصلاً مروی ہے۔ بیہقی رحمہ اللہ نے کہا: ’’ھذا ھو الصحیح موقوف‘‘ یعنی یہ موقوف روایت (بلحاظ سند) صحیح ہے۔
سعید بن المسیب اور عروۃ بن زبیر کے اقوال (موطا ج۲ ص۶۰۴) کی سندیں بھی صحیح ہیں۔ ابن شہاب الزہری کا قول بھی صحیح و ثابت ہے۔
’’عشر رضعات‘‘ (دس بار دودھ پینے) والی آیت قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے۔ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں ہی منسوخ التلاوۃ ہوگئی تھی۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی تحقیق میں رضاعت کبیر جائز ہے مگر اس کے لئے ’’خمس رضعات‘‘ (پانچ بار دودھ پینا) شرط ہے جبکہ ام سلمہ اور دوسری تمام ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم و جمہور امت کے نزدیک رضاعت کبیر جائز نہیں ہے۔ وہ سالم مولیٰ ابی حذیفہ والی حدیث کو سالم کی تخصیص پر محمول کرتے ہیں۔ واللہ اعلم
دیکھئے صحیح مسلم (ج۱ ص۴۶۹ ح۱۴۵۴)
موطا امام مالک (ج۲ ص۶۰۶) پر ایک صحیح السند روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رضاعت کبیر کے قائل نہیں تھے اور یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی راجح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب