سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) قربانی کے تین دن ہیں

  • 13561
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3283

سوال

(40) قربانی کے تین دن ہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم حافظ صاحب میری، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور اللہ آپ کے رسالے ’’الحدیث‘‘ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ محترم الشیخ ’’الحدیث‘‘ کا ہر شمارہ علم و تحقیق کا شاہکار اور تحقیقی مضامین کا گہوارہ ہوتا ہے۔ محترم الشیخ آپ نے رسالے کی قیمت سالانہ ۲۰۰ روپے رکھی ہے اگر یہ ایک رسالہ مجھے ۲۰۰ روپے کا بھی ملے تو میں یہ رسالہ لینے کے لئے تیار ہوں۔ اللہ آپ کو اس محنت کو قبول فرمائے (آمین) مگر افسوس! اتنا تحقیقی رسالہ ہمارے اہل حدیث بھائیوں تک نہیں پہنچتا اور وہ قرآن و حدیث پر مبنی اس رسالے سے ناواقف ہیں۔ اہل حدیث بھائیوں کے علاوہ پاکستان کے تمام اہل حدیث علماء کے پاس بھی یہ رسالہ نہیں پہنچ رہا صرف چند ایک علماء کے پاس یہ رسالہ پہنچتا ہے۔ میری آپ سے اور تمام اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس رسالے کو اکثر اہل حدیث علماء تک پہنچائیں اور اہل حدیث طلباء جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں وہاں بھی یہ رسالہ پہنچنا چاہئے تاکہ نوجوان نسل میں علم و تحقیق کی لہر دوڑے اور وہ اس رسالے کو پڑھ کر تحقیق کی طرف آئیں اور وہ اسماء الرجال کا علم حاصل کریں اور وہ مسلک اہل حدیث کی خوب خدمت کرسکیں۔

محترم الشیخ  صاحب! میرے اس خط اور میرے مندرجہ ذیل سوال کو ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ میں شائع کریں۔ اس ضروری تمہید کے بعد آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا چوتھے دن قربانی کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ میں نے بعض علماء سے سنا ہے کہ چوتھے دن قربانی کرنے والی جو احادیث ہیں وہ ضعیف ہیں اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ قربانی تین دن ہے۔

اس سلسلے میں ہفت روزہ الہ حدیث میں فضیلۃ الشیخ عبدالستار حماد حفظہ اللہ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ قربانی چار دن ہے ان کے دلائل درج ذیل ہیں:

فضیلۃ الشیخ نے لکھا ہے کہ ’’قربانی، عید کے بعد تین دن تک کی جا سکتی ہے۔ عید دسویں (۱۰) ذوالحجہ کو ہوتی ہے، اس کے بعد تین دنوں کو ایامِ تشریق کہتے ہیں۔ ایامِ تشریق کو ذبح کے دن قرار دیا گیا ہے چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمام ایامِ تشریق ذبح کے دن ہیں (مسند امام احمد ص۸۲ ج۴) اگرچہ اس روایت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ منقطع ہے لیکن امام ابن حبان اور امام بیہقی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر: ۴۵۳۷)

بعض فقہاء نے عید کے بعد صرف دو دن تک قربانی کی اجازت دی ہے ان کی دلیل درج ذیل امر ہے:

قربانی یوم الاضحی کے بعد دو دن تک ہے (بیہقی ص۲۹۷ ج۹) لیکن یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا لہٰذا قابل حجت نہیں۔ علامہ شوکانی نے اس کے متعلق پانچ مذاہب ذکر کئے ہیں پھر اپنا فیصلہ بایں الفاظ لکھا ہے: ’’تمام ایامِ تشریق ذبح کے دن ہیں اور وہ یوم النحر کے بعد تین دن ہیں۔‘‘ (نیل الاوطار ص۱۲۵ ج۵)

واضح رہے پہلے دن قربانی کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر عمل پیرا رہے ہیں لہٰذا بلاوجہ قربانی دیر سے نہ کی جائے اگرچہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ غرباء مساکین کو فائدہ پہنچانے کیلئے تاخیر کرنا افضل ہے لیکن یہ محض ایک خیال ہے جس کی کوئی منقول دلیل نہیں ہے۔ نیز اگر کسی نے تیرہ (۱۳) ذوالحجہ کو قربانی کرنا ہو تو غروب آفتاب سے پہلے پہلے قربانی کر دے کیونکہ غروب آفتاب کے بعد اگلا دن شروع ہو جاتا ہے۔ (ہفت روزہ اہل حدیث جلد ۳۸۔ ۷ تا ۱۳ ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ ۲۷ اپریل تا ۳ مئی ۲۰۰۷ء)

یہ وہ دلائل ہیں جن کو حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ نے بیان کیا ہے۔

محترم الشیخ صاحب مندرجہ بالا دلائل اور ان کے علاوہ چوتھے دن قربانی کے جتنے دلائل ہیں ان کو بیان کریں اور ان کی اسنادی حیثیت کو واضح کریں اور اس مسئلہ قربانی کے بارے میں صحیح ترین تحقیق بیان فرمائیں، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (آمین)

اس سوال کو الحدیث میں شائع کریں اور اس کا جواب تحریر فرما کر جوابی لفافے میں بھی ارسال فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسند احمد (۸۲/۴ ح۱۶۷۵۲) والی روایت واقعی منقطع ہے۔

سلیمان بن موسیٰ نے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ امام بیہقی نے اس روایت کے بارے میں فرمایا: ’’مرسل‘‘ یعنی منقطع ہے۔ (السنن الکبریٰ ج۵ ص۲۳۹، ج۹ ص۲۹۵)

امام ترمذی کی طرف منسوب کتاب العلل میں امام بخاری سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’سلیمان لم یدرک احدا من اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم‘‘ سلیمان (بن موسیٰ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو بھی نہیں پایا۔ (العلل الکبیر ۳۱۳/۱)

اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی صحیح دلیل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ سلیمان بن موسیٰ نے سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ کو پایا ہے۔ آنے والی روایت (نمبر ۲) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ سلیمان بن موسیٰ نے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نہیں سنی۔

نیز دیکھئے نصب الرایہ (۶۱/۳)

روایت نمبر ۲:

صحیح ابن حبان (الاحسان: ۳۸۴۳، دوسرا نسخہ: ۳۸۵۴) و الکامل لابن عدی (۱۱۱۸/۳، دوسرا نسخہ ۲۶۰/۴) والسنن الکبریٰ للبیہقی (۲۹۵/۹، ۲۹۶) اور مسند البزار (کشف الاستار ۲۷/۲ ح۱۱۲۶) وغیرہ میں ’’سلیمان بن موسی عن عبدالرحمن بن ابی حسین عن جبیر بن مطعم‘‘ کی سند سے مروی ہے کہ «وفی کل ایام التشریف ذبح» اور سارے ایام تشریق میں ذبح ہے۔ یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:

(۱)          حافظ البزار نے کہا: ’’وابن ابی حسین لم یلق جبیر بن مطعم‘‘

اور (عبدالرحمن) ابن ابی حسین کی جبیر بن مطعم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ (البحر الزخار ۳۶۴/۸ ح۳۴۴۴، نیز دیکھئے نصب الرایہ ج۳ ص۶۱ و التمہید نسخۂ جدیدہ ۲۸۳/۱۰) 

(۲)         عبدالرحمن بن ابی حسین کی توثیق ابن حبان (الثقات ۱۰۹/۵) کے علاوہ کسی اور سے ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ راوی مجہول الحال ہے۔

روایت نمبر ۳:

طبرانی (المعجم الکبیر ۱۳۸/۲ ح۱۵۸۳) بزار (البحر الزخار ۳۶۳/۸ ح۳۴۴۳) بیہقی (السنن الکبریٰ ۲۳۹/۵، ۲۹۲/۹) اور دارقطنی (السنن ۲۸۴/۴ ح۴۷۱۱) وغیرہم نے ’’سوید بن عبدالعزیز عن سعید بن عبدالعزیز التنوخی عن سلیمان بن موسی عن نافع بن جبیر بن مطعم عن ابیہ‘‘ کی سند سے مرفوعاً نقل کیا کہ «ایام التشریق کلها ذبح» تمام ایام تشریق میں ذبح ہے۔

اس روایت کا بنیادی راوی سوید بن عبدالعزیز ضعیف ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ۲۶۹۲)

حافظ ہیثمی نے کہا: ’’وضعفه جمهور الاثمة‘‘

اور اسے جمہور اماموں نے ضعیف کہا ہے۔ (مجمع الزوائد ۱۴۷/۳)

روایت نمبر ۴:

ایک روایت میں آیا ہے کہ «عن سلیمان بن موسی ان عمرو بن دینار حدثه عن جبیر بن مطعم ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: کل ایام التشریق ذبح» (سنن الدارقطنی ۲۸۴/۴ ح۴۷۱۳، والسنن الکبریٰ للبیہقی ۲۹۶/۹)

یہ روایت دو وجہ سے مردود ہے:

(۱)          اس کا راوی احمد بن عیسیٰ الخشاب سخت مجروح ہے۔

دیکھئے لسان المیزان (ج۱ ص۲۴۰۔ ۲۴۱)

(۲)         عمرو بن دینار کی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔

دیکھئے الموسوعۃ الحدیثیۃ (ج۲۷ ص۳۱۷)

تنبیہ:

ایک روایت میں ’’الولید بن مسلم عن حفص بن غیلان عن سلیمان بن موسی عن محمد بن المنکدر عن جبیر بن مطعم‘‘ کی سند سے آیا ہے کہ ’’عرفات موقف وادفعوا من عرفة و المزدلفة موقف وادفعوا عن محسر‘‘ (مسند الشامیین ۳۸۹/۲ ح۱۵۵۶، و نصب الرایہ ۶۱/۳ مختصراً)

اس روایت کی سند ولید بن مسلم کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس میں ایام تشریق میں ھبح کا بھی ذکر نہیں ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

ایام تشریق میں ذبح والی روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح یا حسن قرار دینا غلط ہے۔

آثارِ صحابہ:

روایت مسئولہ کے ضعیف ہونے کے بعد آثار صحابہ کی تحقیق درج ذیل ہے:

(۱)          سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الاضحی یومان بعد یوم الاضحی‘‘ قربانی والے دن کے بعد (مزید) دو دن قربانی (ہوتی) ہے۔ (موطا امام مالک ج۲ ص۴۸۷ح۱۰۷۱ و سندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۹۷/۹)

(۲)         سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’النحر یومان بعد یوم النحرو افضلها یوم النحر‘ قربانی کے دن کے بعد دو دن قربانی ہے اور افضل قربانی نحر والے (پہلے) دن ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی ۲۰۵/۲ ح۱۵۷۱، و سندہ حسن)

(۳)         سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الاضحی یومان بعدہ‘‘ قربانی والے (اول) دن کے بعد دو دن قربانی ہوتی ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی ۶۰۲/۲ ح۱۵۷۶، وھو صحیح)

(۴)   سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’النحر ثلاثة ایام‘‘ قربانی کے تین دن ہیں۔ (احکام القرآن للطحاوی ۲۰۵/۲ ح۵۶۹، وھو حسن)

تنبیہ:

احکام القرآن میں ’’حماد بن سلمۃ بن کھیل عن حجتہ عن علی‘‘ ہے جبکہ صحیح ’’حماد عن سلمۃ بن کھیل عن حجیۃ عن علی‘‘ ہے جیسا کہ کتب اسماء الرجال سے ظاہر ہے اور حماد س مراد حماد بن سلمہ ہے۔ والحمدللہ

ان کے مقابلے میں چند آثار درج ذیل ہیں:

(۱)          حسن بصری نے کہا: عید الاضحی کے دن کے بعد تین دن قربانی ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی ۲۰۶/۲ ح۱۵۷۷ و سندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۹۷/۹ و سندہ صحیح)

(۲)         عطاء (بن ابی رباح) نے کہا: ایام تشریق کے آخر تک (قربانی ہے) (احکام القرآن ۲۰۶/۲ ح۱۵۷۸ و سندہ حسن، السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۹۶/۹ وسندہ حسن)

 (۳)        سیدنا انس بن مالک رضی اللہ نے فرمایا: ’’الاضحی یومان بعده‘‘ قربانی والے (اول) دن کے بعد دو دن قربانی ہوتی ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی ۲/۲۰۶ ح۱۵۷۶، وھو صحیح)

(۴)         سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’النحر ثلاثة ایام‘‘ قربانی کے تین دن ہیں۔ (احکام القرآن للطحاوی ۲۰۵/۲ ح۵۶۹، وھوحسن)

تنبیہ: 

احکام القرآن میں ’’حماد بن سلمۃ بن کھیل عن حجتہ عن علی‘‘ ہے جبکہ صحیح ’’حماد عن سلمۃ بن کھیل عن حجیۃ عن علی‘‘ ہے جیسا کہ کتب اسماء الرجال سے ظاہر ہے اور حماد سے مراد حماد بن سلمہ ہے۔ والحمدللہ

ان کے مقابلے میں چند آثار درج ذیل ہیں:

(۱)          حسن بصری نے کہا: عیدالاضحی کے دن کے بعد تین دن قربانی ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی ۲۰۶/۲ ح۱۵۷۷ و سندہ صحیح،السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۹۷/۹ وسندہ صحیح)

(۲)         عطاء (بن ابی رباح) نے کہا: ایام تشریق کے آخر تک (قربانی ہے) (احکام القرآن ۲۰۶/۲ ح۱۵۷۸ و سندہ حسن، السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۹۶/۹ وسندہ حسن)

(۳)         عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: ’’الاضحی یوم النحر و ثلاثة ایام بعده‘‘ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۹۷/۹ وسندہ حسن)

امام شافعی اور عام اہل حدیث علماء کا یہی فتویٰ ہے کہ قربانی کے چار دن ہیں۔ بعض علماء اس سلسلے میں سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ سابقہ صفحات پر تفصیلاً ثابت کر دیا گیا ہے۔

(۴)         سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمان اپنی قربانیاں خریدتے پھر انھیں (کھلا کھلا کر) موٹا کرتے پھر عیدالاضحیٰ کے بعد آخری ذوالحجہ (تک) کو ذبح کرتے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۲۹۷/۹، ۲۹۸ وسندہ صحیح)!!

ان سب آثار میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وغیرہ کا قول راجح ہے کہ قربانی تین دن ہے: یعنی عیدالاضحیٰ اور اس کے بعد والے دو دن۔

ابن حزم نے ابن ابی شیبہ سے نقل کیا ہے کہ ’’نازید بن الحباب عن معاویة بن صالح: حدثنی ابو مریم: سمعت ابا هریرة بقول: الاضحی ثلاثة ایام‘‘ یعنی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قربانی تین دن ہے۔ (المحلی ج۷ ص۳۷۷مسئلہ: ۹۸۲)

اس روایت کی سند حسن ہے لیکن مصنف ابن ابی شیبہ (مطبوع) میں یہ روایت نہیں ملی۔ واللہ اعلم

فائدہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں تیند ن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ یہ ممانعت اس کی دلیل ہے کہ قربانی تین دن ہے والا قول ہی راجح ہے۔ اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً اس باب میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور آثار میں اتخلاف ہے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور جمہور صحابہ کرام کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن (عیدالاضحیٰ اور دو دن بعد) ہیں،ہماری تحقیق میں یہی راجح ہے اور امام مالک وغیرہ نے بھی اسے ہی ترجیح دی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص175

محدث فتویٰ

تبصرے