سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) مؤذن کی غلطی اور روزے کی قضا

  • 13549
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1706

سوال

(28) مؤذن کی غلطی اور روزے کی قضا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک مسئلہ ہوگیا ہے جو آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری مسجد میں ایک دن مغرب کی اذان جلدی ہوگئی، عام دنوں میں تو محسوس نہیں ہوتا لیکن رمضان کی وجہ سے ہر کوئی محسوس کرتا ہے اذان ۳۵ کے بجائے موذن نے ۳۰ منٹ پہ دے دی۔ لیکن جب ان کو نشاندہی کرائی گئی تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ اس (اذان کی) وجہ سے لوگوں نے غروب آفتاب سے پہلے روزہ کھول لیا اس مسئلے کے حل کے لئے انہوں نے مختلف علماء کرام سے رابطہ کیا جن میں ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب بھی ہیں لیکن انہوں نے اس مسئلے کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد عبدالستار بھٹی صاحب نے عبدالمنان نور پوری صاحب سے رابطہ کیا، انھوں نے یہ فتویٰ دییا کہ جن لوگوں نے روزہ کھولا ہے وہ دوبارہ روزہ رکھیں گے لیکن بعض علماء کرام نے کہا کہ یہ مؤذن کی غلطی ہے تو مؤذن ہی روزہ رکھے گا۔ لیکن عبدالستار بھٹی صاحب اور مؤذن نے عبدالمنان نور پوری صاحب کے فتویٰ پر اکتفا کیا اور مسجد میں اعلان کیا کہ سارے لوگ دوبارہ روزہ رکھیں گے۔ لیکن بہت لوگوں کا خیال ہے کہ صرف ہم نے روزہ نہیں کھولا بلکہ ان لوگوں نے بھی کھولا ہے جو اس مسجد میں نماز ادا کرنے نہیں آتے جو دوسرے یعنی گھر کے قریب والی مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔

پوچھنا یہ ے کہ کیا ہم دوبارہ روزہ رکھیں گے یا مؤذن کی غلطی ہے وہی دوبارہ روزہ رکھے گا۔

اس مسئلے کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب بتا کر الحدیث میں شائع کریں۔ (ان شاء اللہ) کیونکہ ہم لوگ اس مسئلے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ے:

’’افطرنا علی عهد النبی صلی الله علیه وسلم یوم غیم ثم طلعت الشمس‘‘ الخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، ایک دفعہ بادل والے دن ہم نے روزہ افطار کرلیا، پھر (بادل ہٹنے کے بعد) سورج نکل آیا…… الخ  (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب اذا افطر فی رمضان ثم طلعت الشمس ح۱۹۵۹)

ہشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ: قضا ضروری ہے۔ (صحیح بخاری: ۱۹۵۹)

اسلم العدوی مولیٰ عمر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ بادل والے دن (سیدنا) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے روزہ افطار کرلیا، آپ یہ سمجھے تھے کہ مغرب ہوچکی ہے اور سورج غروب ہو چکا ہے، پھر (بادل ہٹنے کے بعد) سورج طلوع ہوگیا تو امیر المومنین نے فرمایا:

’’الخطب یسیرو قد اجتهدنا‘‘ مسلہ آسان ہے (صرف ایک روزہ قضا کا رکھ لیں گے) اور ہم نے اجتہاد کیا ہے۔  (موطا امام مالک، روایۃ ابی مصعب الزہری ۳۱۶/۱ ح۸۲۰ و سندہ صحیح، روایۃ القعلی ص۲۱۲)

ا روایت کی تشریح میں امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یرید بذلک عمر بن الخطاب القضاء و یسارة موونته وخلفته فیما یری والله أعلم‘‘ عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کا ان الفاظ سے یہ ارادہ تھا کہ روزے کی قضا ہوگی اور ایسا کرنا آسان اور معمولی ہے۔ واللہ اعلم (موطا الزھری ص۳۱۶، ۳۱۷ و موطا القعلی ص۲۱۳)

اس روایت کے بہت سے شواہد ہیں، مثلاً دیکھئے موطا امام مالک (روایۃ یحییٰ بن یحییٰ ۳۰۳/۱ ح۶۸۲، الصیام: ۴۴ و بتحقیق الشیخ سلیم بن عید الھلالی ۳۴۳/۲ ح۷۳۹ وقال: موقوف صحیح) و مصنف ابن ابی شیبہ (۲۳/۳، ۲۴ ح۹۰۴۵) و مصنف عبدالرزاق (۱۷۸/۴ ح۷۳۹۲، ۷۳۹۴) والسنن الکبریٰ للبیہقی (۲۱۷/۴)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’واللہ لا نقضیه‘‘ اللہ کی قسم، ہم روزے کی قضا ادا نہیں کریں گے (السنن الکبری للبیہقی ۲۱۷/۴ واللفظ لہ، مصنف عبدالرزاق ۱۷۹/۴ ح۷۲۹۵) و مصنف ابن ابی شیبہ (۲۴/۳ ح۹۰۵۲)

یہ روایت سلمان بن مہران الاعمش، مدلس کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

علامہ نووی فرماتے ہیں: ’’ولا عمش مدلس، لا یحتج بعنعنتته الا اذا صح سماعه الذی عنعنه من جهة اخری‘‘ اور اعمش مدلس ہیں، ان کی عن والی روایت سے حجت نہیں پکڑی جاتی الا یہ کہ ان کے سماع کی تصریح کسی دوسری سند سے ثابت ہو جائے۔ (شرح صحیح مسلم، درسی نسخہ ج۱ ص۷۲ تحت ح۱۰۹)

امام بیہقی نے اس روایت کو ایک دوسری وجہ سے خطا قرار دیا ہے۔! (السنن الکبری ۲۱۷/۴)

عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل تھے کہ اس روزے کی قضا ہوگی اور کفارہ نہیں ہوگا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۵/۳ ح۹۰۵۴ و سندہ صحیح، ابن جریح صرح بالسماع)

زیاد بن النضر (تابعی کبیر) رحمہ اللہ بھی ایسی حالت میں ایک دن کی قضا کے قائل تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۰۵/۳ ح۹۰۵۵ و سندہ حسن)

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ’’اس مسئلے میں اختلاف ہے اور جمہرو اس کے قائل ہیں کہ قضا واجب ہے۔‘‘ (فتح الباری ۲۰۰/۴)

یہی اکثر علماء کا قول ہے۔ (دیکھئے عون المعبود ۲۷۹/۲)

قسطلانی نے کہا: ’’وهذا مذهب الشافعیه و الحنفیة و المالکیة و الحنابلة‘‘

شافعیوں، حنفیوں، مالکیوں اور جنبلیوں کا یہی مذہب ہے۔ (عن المعبود ۲۷۹/۲)

ان کے مقابلے میں حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’اجزامنه‘ یعنی یہی روزہ کفایت کرتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۴/۳ ح۹۰۵۱ و سندہ صحیح)

ان تمام اقوال اور فرمانِ الٰہی: (ثم اتموا الصیام الی الیل) پھر رات تک روزہ پورا کرو۔ (البقرۃ: ۱۸۷) کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی راجح ہے کہ اگر کوئی شخص روزہ افطار کرلے اور بعد میں سورج طلوع ہو جائے تو پھر اس روزے کی قضا ادا کرنا ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں پانچ منٹ پہلے اذان کی غلطی کی وجہ سے لوگوں نے روزہ افطار کر لیا، اس کے بعد سورج نظر نہیں آیا۔ لہٰذا یہ مسئلہ خطا و نسیان کا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ان الله تجاروزلی عن امتی الخطا و النسیان و ما استکرهوا علیه» بے شک اللہ نے میرے لئے میری امت سے خطا، بھول اور جس میں انہیں مجبور کیا جائے، معاف فرمایا ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی ۳۵۶/۷ و صححہ الحاکم علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی فی تلخیصہ ولم یتعقبہ)

عموم قرآن بھی اسی کا موید ہے۔ دیکھئے سورۃ الاحزاب (آیت: ۵)

لہٰذا ایسی حالت میں لوگوں پر کوئی قضا نہیں ہے۔

یہی تحقیق ہمارے استاذ محترم مولانا حافظ عبدالحمید ازہر حفظہ اللہ کی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص140

محدث فتویٰ

تبصرے