سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) رمضان کے روزوں کی قضا اور تسلسل

  • 13548
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1082

سوال

(27) رمضان کے روزوں کی قضا اور تسلسل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون کے ذمے رمضان کے کچھ روزے تھے، وہ اگلے مہینے یہ گنتی پوری کرنے لگی۔ وہ روزہ رکھ کر رشتہ داروں کے گھر گئی تو انھوں نے اس سے روزہ تڑوا دیا، اس خاتون نے لاعلمی کی بنیاد پر (اس کے ذمے جو فرض روزہ تھا) توڑ دیا۔ اب اس کے لئے کیا حکم ہے نیز یہ مسلسل رکھنے پڑیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

راجح تحقیق میں، شرعی عذر سے رمضان کے قضاء شدہ روزوں کے لئے تسلسل اور ترتیب ضروری نہیں ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ان شئت فاقض رمضان متتابعا و ان شئت متفرقا‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، مرقمہ نسخہ ج۱ ص۲۹۳ ح۹۱۱۵، دوسرا نسخہ ج۳ ص۳۲ و سندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی ج۴ ص۲۵۸)

یعنی اگر تو چاہے تو رمضان کی قضاء مسلسل اور ترتیب سے رکھ اور اگر چاہے تو بغیر تسلسل و بغیر ترتیب کے رکھ۔ اس کی سند صحیح ہے۔

سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’احص العدة وصم کیف دشئت‘‘

تعداد کا شمار کرلو اور جس طرح چاہو روزے رکھو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ح۹۱۳۳، سنن دارقطنی ج۲ ص۱۹۲ ح۲۲۹۵، السنن الکبریٰ للبیہقی ج۴ ص۲۵۸)

اس کی سند حسن ہے۔

اس مفہوم کے اقوال معاذ بن جبل، عبداللہ بن عباس، ابو ہریرہ اور جمہور صحابہ سے مروی ہیں۔ رضی اللہ عنہم اجمعین

قرآن مجید کا عموم بھی اس کی تائید کتا ہے۔ تاہم اگر تسلسل سے روزے رکھے تو یہ بہتر ہے مگر ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اس عورت کا ایک فرض، قضاء روزہ لاعلمی کی بنیاد پر ٹوٹ گیا تو وہ دوبارہ یہی قضاء روزہ دوسرے کسی دن رکھے گی۔ اس کے لئے اس قضاء روزے کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص139

محدث فتویٰ

تبصرے