سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) رمضان میں سرکش شیاطین کا باندھا جانا

  • 13546
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1192

سوال

(25) رمضان میں سرکش شیاطین کا باندھا جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے جبکہ قرآن مجید، سورۃ الانفال (۴۸) سے ثابت ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر (رمضان) میں شیطان اپنے پیروکاروں (مشرکین مکہ) کے ساتھ بطور مددگار آیا تھا، پھر بھاگ گیا۔

حدیث اور قرآن مں کیا تطبیق ممکن ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیاطین کی تین قسمیں ہیں:

۱:             بڑا شیطان یعنی ابلیس: جس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تھا۔

۲:            مردۃ الشیاطین: انتہائی سرکش شیاطین (جو کہ دوسرے شیطانوں کے سردار ہیں۔)

۳:            عام شیااطین:

٭            بڑے شیطان یعنی ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کی مہلت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اسے یہ مہلت دے دی ہے جیسا کہ قرآن مجید سے ثابت ہے۔ (سورۃ الاعراف: ۱۴۔۱۸)

لہٰذا ابلیس کو رمضان میں باندھا نہیں جاتا۔

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«وتغل فیه مردة الشیاطین» اور رمضان کے مہینے میں مردۃ الشیاطین کو باندھا جاتا ہے۔ (سنن نسائی ۱۲۹/۴، ح۲۱۰۸، و سندہ ضعیف، مسند احمد ج۲ ص۲۳۰، ۳۸۵، ۴۲۵)

اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ مگر ابو قلابہ تابعی رحمہ اللہ کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (دیکھئے الترغیب و الترہیب ج۲ ص۹۸) 

لیکن اس حدیث کے متعدد شواہد ہیں مثلاً: حدیث عتبۃ بن فرقد وفیہ:

«ویصفد فیه کل شیطان مرید» اور اس (رمضان) میں ہر شیطان مرید (سرکش شیطان) کو باندھ دیا جاتا ہے۔ (سنن النسائی: ۲۱۱۰، و مسند احمد ۳۱۱/۴، ۳۱۲، و اسناد حسن)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مردۃ الشیاطین (سرکش شیطانوں) کو رمضان میں باندھ دیا جاتا ہے۔ امام ابن خزیمہ کی بھی یہی تحقیق ہے۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ج۳ ص۱۸۸، قبل ح ۱۸۸۳)

یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ خاص عام پر اور مقید مطلق پر مقدم ہوتاا ہے۔

عام شیاطین کے باندھے جانے کے بارے میں کوئی صریح دلیل میرے علم میں نہیں ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص137

محدث فتویٰ

تبصرے