سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) حالت سجدہ میں ہاتھوں کی انگلیاں ہلانا

  • 13543
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1286

سوال

(22) حالت سجدہ میں ہاتھوں کی انگلیاں ہلانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حالت سجدہ میں ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کر رکھنا چاہیے یا نارمل ہی رہنے دیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’ان النبی صلی الله علیه وسلم کان اذا سجد ضم اصابعه۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیاںملا لیتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمہ: ۶۴۲، صحیح ابن حبان، الاحسان: ۱۹۱۷، دوسرا نسخہ: ۱۹۲۰، المستدرک للحاکم ۲۲۷/۱ ح۸۲۶ وقال: ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘ ووافقہ الذہبی فی تلخیصہ، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۱۲/۲، المعجم الکبیر للطبرانی ۱۹/۲۲ ح۲۶ وقال الہیثمی فی مجمع الزوائد ۱۳۵/۲: ’’اسنادہ حسن‘‘ سنن الدارقطنی ۳۳۹/۱ ح۱۲۶۸، البدر المنیر لابن الملقن ۶۶۸/۳ وقال: ’’ھذا الحدیث صحیح‘‘، الاوسط لابن المنذر ۱۶۹/۳، اصل صفۃ الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی ۷۲۶/۲۔ ۷۲۲ وقال: ’’ھو اسناد حسن‘‘)

اگرچہ بہت سے علماء نے اسے صحیح یا حسن کہا ہے لیکن ہشیم بن بشیر الواسطی مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے، ہمارے علم کے مطابق اس روایت کی کسی سند میں سماع کی تصریح نہیں لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے بلوغ المرام (۲۳۷ بتحقیقی)

اگر کوئی (مثلاً شیخ عبدالرحمن عزیز یا محمد اشتیاق اصغر) کہے کہ آپ نے تسہیل الوصول الی تخریج صلوۃ الرسول (طبع اول ص۲۶۷، طبع ۲۰۰۵ء صحیح ۲۱۴) میں اس روایت کو صحیح لکھا ہے اور نمازف نبوی (ص۱۸۰) مں اس سے استدلال کیا ہے۔ (دیکھئے عبدالرحمن عزیز کی صحیح نماز نبوی ص۱۸۱)

ت عرض ہے کہ راقم الحروف نے بار بار اعلان کیا ہے کہ میری صرف وہی کتاب معتبر ہے، جسے مکتبۃ الحدیث حضرو یا مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد / لاہور سے شائع کیا گیا ہے یا اس کتاب کے آخر میں میرے دستخط ہیں۔ مثلاً دیکھئے مقدمۃ القول المتین فی الجہر بالتامین (ص۱۲، دوسرا نسخہ ص۱۹، نوشتہ ۲۲/دسمبر ۲۰۰۳ء) اور ماہنامہ الحدیث حضرو: ۲۷ ص۶۰ (نوشتۃ ۱۵/جون ۲۰۰۶ء)

اس واضح اعلان کے بعد بعض الناس کا راقم الحروف کے خلاف نماز نبوی نامی کتاب یا صلوٰۃ الرسول کی تخریج کے حوالے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ہر صاحبِ انصاف کے نزدیک معقول عذر مقبول ہوتا ہے۔

بعض لوگوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرے دستخطوں کے بغیر بھی ’’نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں۔ تصحیح و تخریج سے مزین جدید ایڈیشن مطبوعہ دارالسلام میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔ (دیکھئے ص۲۲۴ تا ۲۲۶)

امام ہشیم کی روایت مذکورہ کی تحقیق کے بعد عرض ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں آیا ہے: ’’کان النبی صلی الله علیه وسلم…… واذا سجدوجه اصابعه قبل القبلة‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف کرتے۔ (نصف الرایہ ۳۷۴/۱، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۱۳/۲، اصل صفۃ الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی ۶۳۹/۲ وقال: و سندہ صحیح کما فی الدرایہ [۷۹])

اس روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ دو وجہ سے ضعیف ہے:

اول:         ابو اسحاق السبیعی مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔ (دیکھئے طبقات المدلسین: ۳/۹۱)

دوم:         زکریا بن ابی زائدہ مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔ (دیکھئے الفتح المبین ص۳۸)

اس کا ایک ضعیف شاہد کتاب الاوسط لابن المنذر (۱۶۹/۳، فیہ حارثہ بن محمد وھو ضعیف) اور مصنف ابن ابی شیبہ (۲۶۴/۱ ح۲۷۱۲) وغیرہما میں بھی موجود ہے۔

جو لوگ حسن لغیرہ کو حجت بنائے بیٹھے ہیں، ان کی شرط پر یہ تین ضعیف روایتیں ایک دوسرے سے مل کر حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔

اسی ضعیف روایت پر اگر عمل کیا جائے، ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو اگر قبلہ رخ کیا جائے تو تقریباً ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں اور علیحدہ کرنے کی صورت میں ان کا رخ قبلے سے پھر سکتا ہے۔

امام محمد بن سیرین (ثقہ تابعی) نے فرمایا کہ لوگ یہ پسند کرتے تھے کہ سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملائی جائیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۶۰/۱ ح۲۶۷۱ و سندہ صحیح)

امام حفص بن عاصم (ثقہ تابعی) نے عبدالرحمن بن لقاسم (ثقہ تبع تابعی) سے فرمایا: اے بھتیجے! سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر انھیں قبلہ رخ کردے کیونکہ چہرے کے ساتھ ہاتھ سجدہ کرتے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۶۰/۱ ح۲۶۷۳ و سندہ صحیح)

امام سفیان ثوری سجدے میں انگلیاں ملاتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ ۲۶۰/۱ ح۲۶۷۴ و سندہ صحیح)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی ہتھیلیوں کو سجدے میں قبلہ رخ کرنے کے قائل تھے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ۲۶۴/۱ ح۲۷۱۳ و سندہ صحیح، ۲۷۱۸، ۲۷۱۹ و سندہ صحیح)

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ سجدے میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر قبلہ رخ رکھنا صحیح و راجح ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص101

محدث فتویٰ

تبصرے