سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) نماز کے چالیس مسائل بدلائل

  • 13542
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-15
  • مشاہدات : 5509

سوال

(21) نماز کے چالیس مسائل بدلائل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حافظ ظہور احمد دیوبندی حضروی نے ایک چھوٹی سی کتاب: ’’چہل حدیث مسائل نماز‘‘ لکھی ہے۔ کیا آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے اور اگر پڑھی ہے تو اس کا دجواب درکار ہے کیونکہ سادہ لوح عوام میں اسے پھیلایا جا رہا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں! میں نے یہ کتاب پڑھی ہے اور اس کا جواب بھی لکھ رکھا ہے جو کہ درج ذیل ہے:

الحمد لله رب العالمین و الصلوة والسلام علی  رسوله الامین: خاتم النبیین ورضی الله عن اصحابه اجمعین و رحمة اللہ علی التابعین و من تبعهم یاحسان الی یوم الدین، امابعد:

حافظ ظہور احمد دیوبندی حضروی نے اکابر دیوبند کی اندھی تقلید اور مسلک حق: اہل سنت (اہل حدیثض کے خلاف ’’چہل حدیث مسائل نماز‘‘ نامی ایک کتاب لکھی ہے، جس میں مغالطات اور دھوکے بازیوں کے علاوہ ضعیف روایات اور کثرت سے غلط استدلالات پیش کئے گئے ہیں۔ ہمارے اس تحقیقی مضمون میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ ظہور احمد کے ’’دلائل‘‘ اور شبہات کا ردپیش خدمت ہے:

بطور تنبیہ عرض ہے کہ دیوبندی حضرات اپنے دیوبندی اکابر کی خود ساختہ فقہ کے مقلد ہیں لہٰذا فقۂ حنفی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ان لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

حدیث نمبر ۱:

اوقاتِ نماز کے سلسلے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث ہے کہ اول وقت میں نماز پڑھنا سب سے افضل عمل ہے۔ دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (۱۶۹/۱ ح۳۲۷ و سندہ صحیح) اور میری کتاب: ہدیۃ المسلمین (ص۲۱ ح۵، طبع دسمبر ۲۰۰۸ء)

حدیث نمبر ۲:

صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ظہر کا وقت زوال سے شروع ہوکر ایک مثل پر ختم ہو جاتا ہے۔ دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (۱۶۸/۱ ح۳۲۵) اور نیموی کی آثار السنن (ح۱۹۴، وقال: و اسنادہ حسن)

۱:             امام ابو حنیفہ سے یہ بات باسند صحیح ہرگز ثابت نہیں ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے۔

۲:            ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہودیوں نے آدھے دن (دوپہر) تک عمل کیا، عیسائیوں نے عصر تک عمل کیا اور مسلمانوں نے مغرب تک عمل کیا۔ مسلمانوں کا وقت کم تھا لیکن یہود و نصاریٰ کے مقابلے میں اجر دوگنا ہے۔ (صحیح بخاری ۳۴۵۹ ملخصا)

بعض الناس کا اس حدیث سے استدلال کرکے ظہر یا عصر کی نمازیں دیر سے پڑھنا کئی وجہ سے باطل ہے۔ مثلاً:

اول:         مسلمانوں کا وقت یہودیوں اور عیسائیوں کے مجموعی وقت سے بہت کم ہے۔

دوم:         سورج کے زوال سے لے کر ایک مثل سے لے کر مغرب تک کے کل وقت سے کم ہوتا ہے۔ دیکھئے ھدیۃ المسلمین (ص۲۵)

۳:            سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے فتوے ’’ظہر کی نماز پڑھو جب تمھارا سایہ تمھارے مثل (برابر) ہو جائے اور عصر کی نماز پڑھو جب تمھارا سایہ تمھارے دو مثل ہو جائے۔‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ زوال سے لے کر ایک مثل تک ظہر کی نماز پڑھ لو اور ایک مثل سے لے کر دو مثل تک عصر کی نماز پڑھ لو۔ دیکھئے التعلیق الممجد (ص۴۱ حاشیہ:۹)

سیدنا ابوہیرہ رضی اللہ عنہ کے اس فتوے کے آخر میں آیا ہے کہ ’’وصل الصبح بغبش یعنی الغلس‘ اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھ۔ (موطا امام مالک ج۱ ص۸ ح۷ بتحقیقی و سندہ صحیح)

دیوبندی حضرات اس فتوے کی مخالفت کرکے غیر رمضان میں صبح کی نماز روشنی میں پڑھتے ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے ہدیۃ المسلمین (ح۶) کا مطالعہ کریں۔

حدیث نمبر ۳:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ک پیچھے ظہر کی نمازیں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔ (صحیح بخاری ج۱ ص۷۷ ح۵۴۲، صحیح مسلم ج۱ ص۲۲۵ ح۲۲۰)

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ گرمیوں میں بھی ظہر کی نماز جلدی پڑھنی چاہئے۔

سوید بن غفلہ رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا کہ ہم ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے اول وقت میں نمازِ ظہر ادا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص۳۲۳ ح۳۲۷۱ و سندہ صحیح)

جن احادیث میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کرکے پڑھنے کا حکم آیا ہے، اُن کا تعلق سفر کے ساتھ ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (ج۱ ص۷۷ ح۵۳۹)

حدیث نمبر ۴:

عصر کی نماز ایک مثل پر پڑھنی چاہئے۔

دیکھئے سنن الترمذی (ج۱ ص۳۸۔ ۳۹ ح۱۴۹، وقال: ’’حدیث حسن‘‘ و سندہ حسن)

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز تاخیر سے پڑھتے تھے، جب تک سورج سفید اور شفاف رہتا۔ (سنن ابی داود: ۴۰۸)

ا روایت کی سند دو مجہول راویوں: محمد بن یزید الیمامی اور یزید بن عبدالرحمن دونوں کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ص۲۵ح۷)

اگر کوئی کہے کہ امام ابوداود نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے تو عرض ہے کہ آلِ دیوبند کے نزدیک کسی حدیث پر امام ابوداود کا سکوت حجت نہیں ہے۔ مثلاً:

ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی پھر آپ نے صحابۂ کرام سے کہا: کیا تم امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: ایسا نہ کرو سوائے سورۂ فاتحہ کے کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا تو اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (سنن ابی داود: ۸۲۳ ملخصا)

اس حدیث پر امام ابوداود نے سکوت کیا ہے لیکن محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی کڑمنگی نے اس کے راوی محمد بن اسحاق بن یسار کو ’’کذاب و دجال‘‘ لکھا ہے۔

دیکھئے احسن الکلام (ج۲ ص۸۴، دوسرا نسخہ ج۲ ص۹۴)

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بعض لوگوں سے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز تم سے جلدی پڑھتے تھے، جبکہ تم عصر کی نماز آپ سے جلدی پڑھتے ہو۔ (سنن الترمذی: ۱۶۱)

اس حدیث سے عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنے پر استدلال دووجہ سے باطل ہے؟

اول:         اس میں عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

دوم:         بعض لوگوں کے بارے میں یہ صراحت کہیں بھی نہیں ہے کہ وہ ظہر کی نماز کس وقت پڑھتے تھے اور عصر کی نماز کس وقت پڑھتے تھے؟

صحیح اور صریح احادیث کو چھوڑ کر متشابہات اور غیر واضح روایات کے پیچھے وہی لوگ بھاگتے ہیں جو دلائل صحیحہ سے سراسر عاری ہوتے ہیں۔

حدیث نمبر ۵:

یہ صحیح ہے کہ نمازِ مغرب کا وقت غروب آفتاب کے بعد سے لے کر شفق (سفیدی یا سرخی) کے غائب ہونے (یعنی عشاء کے دخول) تک رہتا ہے۔

سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی جس روایت میں نمازِ مغرب اور شفیق کا ذکر آیا ہے، اس میں نمازِ ظہر زوالِ شمس سے لے کر ایک مثل تک اور تقریباً ایک مثل سے لے کر دو مثل تک نمازِ عصر کا ذکر آیا ہے۔ (دیکھئے مجمع الزوائد ج۱ ص۳۰۴ وقال: رواہ الطبرانی فی الاوسط و اسنادہ حسن)

حدیث کے ایک ٹکڑے سے استدلال کرنا اور دوسرے ٹکڑے کو چھپا لینا ان لوگوں کا طریقہ ہے جنھیں (المغضوب علیھم) کہا گیا ہے۔

حدیث نمبر ۶:

اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ غروبِ آفتاب کے ساتھ نمازِ مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور نمازف مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کا جواز صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (۱۱۸۳، ۱۱۸۴)

حدیث نمبر ۷:

یہ صحیح ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے لیکن کوئی شخص عشاء کا وقت داخل ہونے کے بعد کسی بھی وقت یہ نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔

حدیث نمبر ۸:

سنن ابی داود کی ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’ثم کانت صلاته بعد ذلک التغلیس حتی  مات ولم یعد إلی أن یسفر‘‘ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی وفات تک اندھیرے میں (صبح کی) نماز پڑھتے رہے اور (دوبارہض روشنی میں نماز نہیں پڑھی۔ (سنن ابی داود: ۳۹۴، دلہ شاہد فی مستدرک الحاکم ۱۹۰/۱ ح۶۸۲ فالحدیث بہ حسن)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس روایت میں ’’نمازِ فجر کو خوب روشن کرکے پڑھو‘‘ آیا ہے، وہ منسوخ ہے۔ نیز دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ح۸)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۴۵۶/۱ و سندہ حسن)

حدیث نمبر ۹:

جن احادیث میں طلوعِ شمس، دوپہر اور غروبِ شمس کے وقت نماز پڑھنے سے منع کا ذکر آیا ہے، ان کا مطلب یہ ہے کہ ان اوقات میں وہ نوافل نہ پڑھے جائیں، جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

رہی وہ نمازیں جو دلیل سے ثابت ہیں مثلاً نمازِ جنازہ، خطبۂ جمعہ کے دوران دو رکعتیں اور صبح کی دو سنتیںوغیرہا تو وہ ان اوقاتِ ممنوعہ میں بھی دلائل مخصوصہ کی وجہ سے جائز ہیں۔

حدیث نمبر ۱۰:

اذان کے کلمات درج ذیل ہیں:

الله اکبر الله اکبر، الله اکبر الله اکبر۔ اشهدان لا اله الا الله، اشهد ان لا اله الا الله۔ اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله۔ حی علی الصلوة، حی علی الصلوة۔ حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، الله اکبر الله اکبر۔ لا اله الاالله۔ (سنن ابی داود: ۴۹۹ و سنده حسن)

اقامت کے کلمات درج ذیل ہیں:

الله اکبر،الله اکبر، اشهدان لا اله الاالله۔ اشهدان محمدا رسولالله۔ حی علی الصلوة۔ حی علی الفلاح۔ قد قامت الصلوة، قد قامت الصلوة، الله اکبر،الله اکبر۔ لا اله الا الله۔ (سنن ابی داود: ۴۹۹ و سنده حسن)

اگر اذان ترجیع (۱۹/کلمات) والی ہو تو پھر اقامت کے کلمات دہرے (۱۷/کلمات) ہیں۔ دیکھئے سنن ابی داود (۵۰۲) اور آثار السنن (۲۳۷، ۲۳۸)

جن روایات میں عام اذان اور دہری اقامت کا ذکر آیا ہے وہ سب کی سب ضعیف ہثں مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ (۳۳۱/۱، دوسرا نسخہ ج۱ ص۲۰۳ ح۲۱۱۸) کی جس روایت میں آیا ہے کہ ’’پھر اس نے اقامت کہی جس طرح اس نے اذان کہی تھی۔‘‘  

یہ روایت اعمش (مدلس) کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے میری کتاب: انوار السنن فی تحقیق آثار السنن (۲۳۳) لہٰذا اس سند کو صحیح کہنا غلط ہے۔

دیوبندیوں کی اذان و اقامت کا طریقہ کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے، غالباً اسی وجہ سے ظہور احمد نے اپنی اذان کاثبوت حکیم محمد صادق سیالکوٹی (اہل حدیث) کی کتاب صلوٰۃ الرسول (ص۱۵۳، ۱۵۴) سے پیش کیا ہے، جو اس کی دلیل ہے کہ یہ لوگ اس مسئلے میں صحیح حدیث سے خالی دامن ہیں۔ نیز دیکھئے تحقیقی مقالات (ج۲ ص۱۴۸)

حدیث نمبر ۱۱:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے کندھوں تک رفع یدین کرتے…الخ (موطا امام مالک، روایۃ ابن القاسم: ۵۹ بتحقیقی، صحیح بخاری: ۷۳۵)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کانوں تک رفع یدین کرنا بھی ثابت ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم ج۱ ص۱۶۸ ح۳۹۱)

ثابت ہوا کہ کندھوں تک اور کانوں تک دونوں طرح رفع یدین پر عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ بعض الناس کا یہ دعویٰ کہ ’’مردوں کے لئے کانوں تک ہاتھ اٹھانا اور عورتوں کے لیے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا سنت ہے‘‘ بغیر دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا، یہاں تک کہ اپنے انگوٹھوں کو کانوں کے برابر لے گئے۔ الخ (سنن الدارقطنی ۳۰۰/۱ ح۱۱۳۵)

زیلعی حنفی نے کہا: امام دارقطنی نے اس روایت کے بعد کہا: اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ (نصب الرایہ ۳۲۰/۱)

زیلعی کی یہ عبارت سنن دارقطنی میں نہیں ملی۔ واللہ اعلم

روایت مذکورہ تین وجہ سے ضعیف ہے:

اول:         حمید الطویل مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔

دیکھئے طبقات المدلسین (۳/۷۱، مرتبہ ثالثہ)

دوم:         ابو خالد الاحمر مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔

دیکھئے جزء القراءۃ للبخاری بتحقیقی (۲۶۷)

سوم:         حسین بن علی بن اسود العجلی پر جمہور محدثین نے جرح کی ہے اور حافظ ابن عدی نے کہا: وہ حدیثیں چوری کرتا تھا۔ (دیکھئے تہذیب الکمال ۱۸۳/۲، الکامل لابن عدی ج۲ ص۷۷۸)

امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا: ’’ھذا حدیث کذب لا اصل له‘‘ یہ حدیث جھوٹ ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (نصب الرایہ ج۱ ص۳۲۰، علل الحدیث لابن ابی حاتم ۱۳۵/۱ ح۳۷۴)

المعجم الاوسط للطبرانی (۳۰۶۳) اور کتاب الدعاء (۱۰۳۴/۲ ح۵۰۵) میں اس روایت کا ایک شاہد (تائید والی روایت) ہے، لیکن اس کی سند میں عائذ بن شریح ضعیف ہے۔

دیکھئے لسان المیزان (۲۲۶/۳) اور حاشیہ (۲) نصب الرایہ (۳۲۱/۱)

یاد رہے کہ المعجم الاوسط میں غلطی سے عبید بن سریج چھپ گیا ہے، جبکہ صحیح عائذ بن شریح ہے جیسا کہ نصب الرایہ (۳۲۱/۱) اور مجمع البحرین فی زوائد المعجمین (۱۱۰/۲ ح۷۹۸) میں لکھا ہوا ہے۔

تنبیہ:

دعائے استفتاح میں ثبوت کے لحاظ سے سبحانک اللھم …… الخ جائز ہے اور اللھم باعد بینی…… الخ بہتر ہے۔

دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ح۱۲) اور صحیح بخاری (ج۱ ص۱۰۳ ح۷۴۴)

حدیث نمبر ۱۲:

کسی حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ مرد تو کانوں تک رفع یدین کریں اور عورتیں کندھوں یا سینے تک ہاتھ اٹھائیں۔

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جس روایت میں ’’اور عورت اپنے سینے تک ہاتھ اٹھائے‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی بحوالہ مجمع الزوائد ج۲ ص۱۰۳)

اس کی سند ام یحییٰ (مجہولہ) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

ماسٹر محمد امین اوکاڑوی دیوبندی نے کہا: ’’اور ام یحی مجہولہ ہیں‘‘۔ (تجلیات صفدر ج۲ ص۲۲۶)

حافظ عبدالله روپڑی رحمہ اللہ نے مسجد میں محراب والی روایت کی راویہ ام یحیی کو توثیق کسی معتبر محدث سے پیش نہیں کی، بلکہ اس کے مستورۃ الحال ہونے کی طرف اشارہ کرکے لکھا: ’’…اور مستور الحال کی روایت امام ابوحنیفہؒ وغیرہ کے نزدیک حجت ہے۔ اور جمہور علماء کے نزدیک حجت نہیں…‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث ج۱ ص۳۱۴)

ظاہر ہے کہ اس مسئلے میں جمہور علماء کو ہی ترجیح حاصل ہے کہ مستور کی روایت حجت نہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ امام ابو حنیفہ سے باسند صحیح مستور الحال کی روایت کا حجت ہونا یا نہ ہونا ثابت نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ تابعین کے آثار بھی ہیں تو عرض ہے کہ عطاء بن ابی رباح (تابعی) نے فرمایا: ’’…عورت کی ہیئت مرد کی طرح نہیں ہے، اگر وہ (عورت) اسے ترک کر دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص۲۳۹ ح۲۴۷۴، الحدیث حضرو: ۱۳ ص۲۱)

حماد بن ابی سلیمان نے کہا: عورت کی جیسے مرضی ہو (نماز میں) بیٹھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص۲۷۱ ح۲۷۹۰ و سندہ صحیح)

حماد کے استاذ ابراہیم نخعی نے کہا: عورت نماز میں اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص۲۷۰ ح۲۷۸۸ و سندہ صحیح)

ام الدرداء رحمہما اللہ نماز میں مرد کی طرح بیٹھتی تھیں۔ (صحیح بخاری قبل ح۸۲۷، مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص۲۷۰ ح۲۷۸۵ و سندہ قوی)

حدیث نمبر ۱۳:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ (نماز می) اپنا ہاتھ سینے پر رکھتے تھے۔ دیکھئے مسند احمد (۲۲۶/۵ ح۲۲۳۱۳ و سندہ حسن، ہدیۃ المسلمین ص۳۳ح۱۱)

بعض آلِ دیوبند مصنف ابن ابی شیبہ سے ’’تحت السرۃ‘‘ والی ایک روایت پیش کرتے ہیں لیکن مصنف کے قدیم مطبوعہ اور عام مخطوطہ نسخوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔

دیوبندیوں کی اس ’’دلیل‘‘ کے بارے میں محمد تقی عثمانی نے کہا:

’’لیکن احقر کی نظر میں اس روایت سے استدلال کمزور ہے، اول تو اس لئے کہ اس روایت میں ’’تحت السرۃ‘‘ کے الفاظ مصنف ابن ابی شیبہ کے مطبوعہ نسخوں میں نہیں ملے، اگرچہ علامہ تیموریؒ نے ’’آثار السنن‘‘ میں ’’مصنف‘‘ کے متعدد نسخوں کا حوالہ دیا ہے، کہ ان میں یہ زیادتی مذکور ہے، تب بھی اس زیادتی کا بعض نسخوں میں ہونا اور بعض میں نہ ہونا اس کو مشکوک ضرور بنا دیتا ہے…‘‘ (درسِ ترمذی ج۲ ص۲۳)

انور شاہ کشمیری نے کہا: میں نے مصنف کے تین نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔ (فیض الباری ج۲ ص۲۶۷ مترجما) 

ملوم ہوا کہ دیوبندیوں کے پاس ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کی کوئی صحیح روایت نہیں ہے۔ رہے امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ علماء کے اقوال تو ان سے استدلال دو وجہ سے غلط ہے:

اول:         نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے آ جانے کے بعد، اس حدیث کے مخالف اقوال کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

دوم:         مشہور تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق بحوالہ الفوائد لابن مندہ ج۲ ص۲۳۴ ح۱۸۹۹، وسندہ صحیح)

اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ’’عورتیں سینہ پر ہاتھ باندھیں اور یہ ان کے حق میں پردہ کا باعث ہے‘‘ تو عرض ہے کہ یہ بات کئی وجہ سے غلط ہے۔ مثلاً:

اول:         یہ تفریق کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

دوم:         یہ تفریق کسی صحابی یا تابعی سے ثابت نہیں ہے۔

سوم:         یہ تفریق امام ابوحنیفہ سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔

چہارم:      اگر اپنے تقلیدی قیاس اور رائے سے پردہ ہی کرانا ہے تو اپنے عورتوں کو حکم دیں کہ وہ رکوع کے بعد بھی سینے پر ہاتھ باندھیں اور رکوع کے دوران میں بھی سینے پر ہاتھ باندھیں تاکہ مکمل پردہ ہو جائے۔!!!

حدیث نمبر ۱۴:

دعائے استفتاح کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھنا بھی مسنون ہے اور جہراً پڑھنا بھی ثابت ہے۔ دیکھئے ہدیۃ المسلمین (۳۷ ح۱۳)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھا تھا۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی ج۱ ص۱۳۷، و سندہ صحیح، مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص۴۱۲ ح۴۷۵۷)

لہٰذا دونوں طرح صحیح ہے اور اس مسئلے میں جھگڑا کرنا غلط ہے۔

حدیث نمبر ۱۵:

امام ہو یا منفرد (اکیلا نمازی) دونوں کو چار رکعتوں والی نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہئے۔ جیسا کہ صحیح بخاری (۷۷۲) اور صحیح مسلم (۹۴۴) کی حدیث سے ثابت ہے۔ جبکہ اس حدیث کے سراسر برخلاف دیوبندی حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر آخری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے تو بھی نماز ہو جائے گی۔

دیکھئے (دیوبندی) بہشتی زیور (حصہ دوم ص۱۹، فرض نماز پڑھنے کے طریقے کا بیان، مسئلہ نمبر ۱۷، مکمل نسخہ ص۱۶۳)

نفل ہو یا فرض، نماز اس طرح پڑھنی چاہئے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے۔

حدیث نمبر ۱۶:

سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام سے فرمایا: کیا تم میرے ساتھ (یعنی امام کے پیچھے) قراءت کرتے ہو؟

انھوں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو کیونکہ جو شخص اسے نہیں پڑھتا تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ (کتاب القراءۃ للبیہقی ص۶۴ ح۱۲۱)

اس حدیث کے بارے میں امام بیہقی نے فرمایا: یہ سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔

تنبیہ:

اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق بن یسار نہیں ہیں۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ہدیۃ المسلمین (۴۱۔۴۲ ح۱۵)

جس روایت میں آیا ہے کہ ’’جب امام قرآن پڑھے تو تم خاموش ہو جاؤ‘‘ وہ منسوخ (یا مخصوص منہ) ہے۔ دیکھئے میری کتاب: تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات (ج۲ ص۲۶۳)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جہری اور سری نمازوں میں قراءت خلف الامام کا حکم دیا۔

دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (ج۱ ص۳۷۳ ح۳۷۴۸ و سندہ حسن)

مزید تفصیل کے لئے میری دو کتابیں پڑھیں: نصر الباری اور الکواکب الدریہ۔

حدیث نمبر ۱۷:

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔ (موطا ابن فرقد الشیبانی ص۱۹۸، شرح معانی الآثار ۱۴۹/۱، فتح القدیر لابن ہمام ۲۳۹/۱)

ابن فرقد کو جمہور محدثین نے مجروح و ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھئے تحقیقی مقالات (ج۲ ص۳۴۱-۳۶۴) مثلا اسماء الرجال کے ایک بڑے امام ابوحفص عمرو بن علی الفلاس نے فرمایا: محمد بن الحسن، رائے والا، ضعیف ہے۔ (تاریخ بغداد ج۲ ص۱۸۱، و سندہ صحیح)

شرح معانی الآثار للطحاوی (ج۱ ص۲۱۷) والی تمام روایات ضعیف و مردود ہیں مثلاً ایک کی سند میں قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔

دیکھئے تحقیقی مقالات (ج۱ ص۵۳۳۔ ۵۴۸)

ابن ہمام والی روایت سخت مشکوک ہونے (وغیرہ) کی وجہ سے مردود ہے۔

ضعیف روایت کو جمع تفریق کرکے قوی قرار دینا غلط ہے۔ حافظ ابن حجر نے ’’من کان له امام‘‘ الخ والی روایت کے بارے میں فرمایا: اس کی کئی سندیں ہیں… اور وہ ساری کی ساری معلول (ضعیف) ہیں۔ (التلخیص الجبیر ج۱ ص۲۳۲ ح۳۴۵)

اس روایت کو شیخ البانی (وغیرہ) کا قوی (وغیرہ) قرار دینا غلط ہے۔

حدیث نمبر ۱۸:

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے آمین بالجہر کہی۔ (سنن ابی داود: ۹۳۳ و سندہ حسن)

اس کے مقابلے میں جس روایت میں آیا ہے: ’’آمین کہی اور اپنی آواز ہستہ کرلی۔‘‘

اس سے استدلال دو وجہ سے غلط ہے:

اول:         یہ روایت وہم اور شذوذ کی وجہ سے ضعیف ہے۔

دوم:         اس کا تعلق جہری نمازوں سے نہیں بلکہ سری نمازوں سے ہے۔

دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ح۱۶)

سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے مقتدی اونچی آواز سے آمین کہتے تھے۔

دیکھئے صحیح بخاری (قبل ح ۷۸۰)

لہٰذا یہ کہنا کہ ’’صرف امام ہی جہر سے آمین کہے، مقتدی نہ کہیں‘‘ غلط ہے۔

بعض لوگ اس مسئلے میں غیر واضح روایات مثلاً: ’’جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو‘‘ پیش کرتے ہیں مگر علمی میدان میں ایسے استدلال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی جبکہ صریح مبہم پر اور خاص عام پر مقدم ہوتا ہے۔ تفصیل کے لئے ہدیۃ المسلمین (۱۶) دیکھیں۔

حدیث نمبر ۱۹:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ (صحیح بخاری ج۱ ص۱۰۲ ح۷۳۶ ملخصا)

اس کے راوی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: ۷۳۹)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگرد ان کے بیٹے سالم رحمہ اللہ بھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ (حدیث السراج ۳۴/۲۔ ۳۵ ح۱۱۵، و سندہ صحیح)

یاد رہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زندگی میں آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی۔ دیکھئے صحیح بخاری (۱۱۶) صحیح مسلم (۲۵۳۷)

معلوم ہوا کہ رفع یدین کو منسوخ یا متروک سمجھنا باطل ہے۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے کہ انھوں نے صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا۔ (سنن ترمذی: ۲۵۷، سنن ابی داود: ۷۴۸ وغیرہما)

اس کی سند سفیان ثوری (مدلس) کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

دیکھئے میری کتاب: نور العینین اور میرا مضمون: ’’امام سفیان ثوری کی تدلیس اور طبقۂ ثانیہ؟‘‘

ماسٹر امین اوکاڑوی نے کہا: ’’کیونکہ اس میں سفیان مدلس…‘‘ (تجلیات صفدر ج۵ ص۴۷۰)

سرفراز خان صفدر نے کہا: ’’مدلس راوی عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں…‘‘ (خزائن السنن ج۱ ص۱)

اگر کوئی کہے کہ سفیان ثوری کی روایتیں صحیح بخاری میں بھی موجود ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر مدلس کی صحیحن (صحیح بخاری و صحیح مسلم) میں ہر روایت صحیح ہے۔ دیکھئے خزائن السنن (ج۱ ص۱) لیکن صحیحین کے باہر دوسری کتابوں میں اس مدلس کے سماع کی تصریح یا  معتبر متابعت ہونا ضروری ہے۔

مدلس کی عن والی ضعیف روایت کو شیخ احمد شاکر اور البانی وغیرہما کا صحیح قرار دینا اصولِ حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔

حدیث نمبر ۲۰:

بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رکوع، رکوع سے قیام اور سجود وغیرہ میں اطمینان ضروری ہے۔ مثلاً دیکھئے سنن ابی داود (۸۶۳) اور ظہور احمد کی چہل حدیث (ص۷۲) جبکہ اس کے برعکس آل دیوبند کے نزدیک نماز میں اعتدال و اطمینان فرض نہیں ہے۔ مثلاً دیکھئے تقریر ترمذی لمحمود حسن (ص۱۱)

حدیث نمبر ۲۱:

سجدہ کو جاتے ہوئے پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھنے چاہئیں اور بعد میں دونوں گھٹنے لگانے چاہئیں۔ دیکھئے سنن ابی داود (۸۴۰ و سندہ صحیح علی شرط مسلم) اور مختصر صحیح نماز نبوی (۱۷، فقرہ:۲۱)

ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھوں سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے تھے۔ (سنن ابی داود: ۷۳۸، ہمارا نسخہ: ۸۳۸)

اس کی سند میں ایک راوی شریک بن عبداللہ القاضی مدلس تھے۔

دیکھئے نصب الرایہ (۲۳۴/۳) اور المحلی (۲۶۳/۸، ۳۳۳/۱۰)

يہ روایت عن سے ہے، لہٰذا ضعیف و مردود ہے۔ ضعیف روایت کو حسن یا صحیح قرار دینا غلط ہوتا ہے۔

حدیث نمبر ۲۲:

حدیث میں آیا ہے کہ سجدے میں کتے کی طرح زمین پر ہاتھ نہیں بچھانے چاہئیں۔ دیکھئے صحیح بخاری (۸۲۲)

اور کسی صحیح حدیث میں یہ بالکل نہیں آیا کہ عورتیں سجدوں میں (کتوں کی طرح) زمین پر ہاتھ بچھائیں۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمینن سے ملا لیا کرو کیونکہ عورت کا حکم سجدے میں مرد جیسا نہیں ہے۔‘‘ (مراسیل ابی داود:۸)

یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مرسل کے بارے میں امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک مرسل روایات حجت نہیں ہیں۔ (مقدمہ صحیح مسلم ص۲۰ ملخصا)

طحاوی حنفی کے ایک کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ منقطع (مرسل) کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ دیکھئے شرح معانی الآثار (ج۲ ص۱۶۴، باب الرجل یسلم فی دارالحرب وعندہ اکثر من اربع نسوۃ، طبع ایچ ایم سعیدد کمپنی کراچی)

یاد رہے کہ امام ابوحنیفہ سے باسند صحیح یہ قول ثابت نہیں کہ مرسل حجت ہے۔

دیوبندی حضرات بذاتِ خود بہت سی مرسل روایات کے منکر ہیں۔ مثلاً:

طاؤس تابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔ (المراسیل لابی داود:۳۴)

اس کی سند طاؤس تک حسن لذاتہ ہے۔ سلیمان بن موسیٰ کو جمہور نے ثقہ کہا۔

دیکھئے سرفراز خان صفدر کی خزائن السنن (جج۲ ص۸۹) اور باقی راویوں پر بھی جرح مردود ہے۔

ظہور احمد دیوبندی نے ضعیف (مرسل) روایت کی تائید میں دو مردود روایتیں پیش کی ہیں:

اول:         سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت بحوالہ السنن الکبریٰ للبیہقی (۲۲۳/۲)

اس کا راوی ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی سخت مجروح تھا اور اسی صفحے پر امام بیہقی نے اس پر جرح کر رکھی ہے۔ نیز دیکھئے لسان المیزان (ج۲ ص۳۳۴۔ ۳۳۶)

اس کے دوسرے راوی محمد بن القاسم البلخی کا (روایت میں) ذکر حلال نہیں .ے۔ (دیکھئے لسان المیزان ۳۴۷/۵)

تیسرا راوی عبید بن محمد السرخسی نامعلوم ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ سند موضوع ہے۔

دوم:         سیدنا ابو سعید الخذری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت بحوالہ السنن الکبریٰ (۲۲۲/۲)

اس کا راوی عطاء بن عجلان متروک ہے، بلکہ ابن معین اور فلاس وغیرہما نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (۴۵۹۴)

لہٰذا یہ سند بھی موضوع ہے اور خود امام بیہقی نے بھی اس پر جرح کر رکھی ہے۔

حدیث نمبر ۲۳:

صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تو یکدم کھڑے نہ ہوتے بلکہ بیٹھ جاتے تھے۔

دیکھئے صحیح بخاری (ج۱ ص۱۱۳ ح۸۲و) اور ہدیۃ المسلمین (ص۴۷ ح۱۸)

بلکہ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص (جسے نماز صحیح طورپر نہیں آتی تھی) سے فرمایا:«ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا، ثم ارفع حتی تطمئن جالسا، ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا، ثم ارفع حتی تطمئن جالسا»

پھر سجدہ کر حتی کہ اطمینان سے سجدہ کرے، پھر اٹھ جا حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جائے، پھر (دوسرا) سجدہ کر حتیٰ کہ اطمینان سے سجدہ کرے، پھر (دوسرے سجدے سے) اٹھ جا حتی کہ تو اطمینان سے بیٹھ جائے۔ (صحیح بخاری: ۶۲۵۱)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سجدے کے بعد بیٹھنے کا حکم دیا تھا۔ اس حدیث کو ظہرو احمد دیوبندی نے بحوالہ صحیح بخاری (۲۶۵۱۱/صحیح ۶۲۵۱ ہے) نقل کیا۔ (دیکھئے چہل حدیث ص۷۸، ۷۹) لیکن تحریف کرکے دوسرے سجدے کے بعد ’’حتی تطمئن جالسا‘‘ حتی کہ تو اطمینان سے بیٹھ جائے، کے الفاظ حذف کر دیئے ہیں۔ یہ بہت بڑی خیانت ہے۔

سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے:

’’ثم کبر فسجد، ثم کبر فقام ولم یتورک‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور سجدہ کیا، پھر سجدہ سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوگئے اور تورک نہیں کیا۔ (سنن ابی داود: ۷۳۳)

ا روایت کی سند عیسیٰ بن عبداللہ بن مالک (مجہول الحال) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ظہور احمد نے تحریف کرکے اس روایت میں ’’ولم یتورک‘‘ اور تورک نہیں کیا۔

کا ترجمہ: ’’بیٹھے نہیں‘‘ کر دیا ہے۔ دیکھئے چہل حدیث (ص۸۰)

یہ بہت بڑی خیانت ہے۔

فائدہ:

سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس ضعیف روایت میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا بھی ذکر ہے، جس سے ان لوگوں کو خاص طور پر چڑ ہے۔

دیکھئے شرح معانی آثار للحطاوی (ج۱ ص۲۶۰ باب صفۃ الجلوس فی الصلوۃ کیف ھو؟ / طبع دارالباز مکۃ المکرمۃ) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۲/۱۰۱۔ ۱۰۲)

صحیح حدیث (معمول بہ) کو عذر پر محمول کر دینا اور ضعیف حدیث میں تحریف کرنا، کون سی عدالت کا انصاف ہے؟!

حدیث نمبر ۲۴:

تشہد (اولض میں یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے۔ مثلاً دیکھئےصحیح مسلم (۱۰۴۵)

اس کو قعدۂ اولیٰ کے ساتھ خاص کرنے کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے، جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پخری رکعت کے تشہد میں تورک کرتے تھے۔ دیکھئے صحیح بخاری (۸۲۸)

اس صحیح حدیث کے مقابلے میں شوکانی وغیرہ علماء کے نام لے کر رعب جمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یاد رہے کہ ہر اہل حدیث کے ایمان و عقیدے میں یہ بات شامل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کیا جائے اور اس کے مقابلے میں ہر قول اور فعل کو چھوڑ دیا جائے۔

مرد ہو یا عورت سب کے لئے یہی طریقہ ہے کہ تشہد اول میں تورک نہ کریں اور آخری تشہد میں تورک کریں۔

حدیث نمبر ۲۵:

کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ عورتیں پہلے تشہد میں تورک کریں گی۔ جامع المسانید للخوارزمی (۴۰۰/۱) اور مسند الحصکفی (!!) کی جس روایت میں آیا ہے:

عورتیں چار زانو بیٹھا کرتی تھیں، پھر انھیں حکم دیا گیا کہ وہ سرین کے بل بیٹھیں۔ (مثلاً دیکھئے چل حدیث ص۸۳)

اس روایت کیسند کئی وجہ سے موضوع ہے:

اول:         اس کا پہلا راوی ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب البخاری الحارثی کذاب ہے۔

دیکھئے میزان الاعتدال (ج۱ ص۴۹۶) اور کتاب القراءت للبیہقی (ص۱۷۸ ح۳۸۸، دوسرا نسخہ ص۱۵۴)

دوم:         اس کے باقی راوی مثلاً قبیصہ الطبری اور زربن نجیح وغیرہما مجہول تھے۔

ایسی موضوع سند کو ’’انتہائی درجہ کی صحیح‘‘ کہنا ظہور احمد جیسے لوگوں کا ہی کام ہے۔

حدیث نمبر ۲۶:

حالتف تشہد میں دائیں مٹھی بند کرنا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم (۱۲۴۶)

پہلے تشہد میں درود پڑھنا بھی جائز ہے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ (دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی ۴۹۹/۲۔ ۵۰۰، سنن النسائی ۲۴۱/۴ ح۱۷۲۱ اور مختصر صحیح نماز نبوی ص۲۳ فقرہ: ۴۱ حاشیہ: ۴)

اور درود نہ پڑھنا بھی جائز ہے جیسا کہ امام محمد بن اسحاق بن یسار کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے مسند احمد (ج۱ ص۴۵۹ ح۴۳۸۲ و سندہ حسن)

حدیث نمبر ۲۷:

تشہد میں دعا کرتے وقت شہادت کی انگلی کو حرکت دینا (ہلاتے رہنا) صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے سنن النسائی (۱۲۶۹، و سندہ صحیح) صحیح ابن خزیمہ (۷۱۴) منتقی ابن الجارود (۲۰۸) اور صحیح ابن حبان (الاحسان: ۱۸۵۷)

جس روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اس کو ہلاتے نہیں تھے۔ (دیکھئے سنن ابی داود: ۹۸۹ اور السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۳۲/۲)

اس کی سند محمد بن عجلان (مدلس راوی) کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔

ابن عجلان کو حافظ ابن حجر نے مدلسین کے طبقۂ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے الفتح المبین ص۶۰)

محمد بن عجلان کو طحاوی نے بھی مدلس قرار دیا ہے۔

دیکھئے مشکل الآثار (طبع قدیم ج۱ ص۱۰۰، ۱۰۱)

اس ضعیف روایت کو صحیح سند کہنا غلط ہے۔ یاد رہے کہ ضعیف روایت مردود ہوتی ہے اور تطبیق وہاں ہوتی ہے جہاں دونوں حدیثیں صحیح ہوں۔

حدیث نمبر ۲۸:

جنازے کے علاوہ عام نمازوں میں دونوں طرف سلام پھیرنا مسنون ہے۔ نیز دیکھئے سنن الترمذی (۲۹۵) اور مصنف عبدالرزاق (۴۸۹/۳ ح۶۴۲۸ و سندہ صحیح)

حدیث نمبر ۲۹:

سجدہ سہو سلام سے پہلے بھی جائز ہے اور سلام کے بعد بھی۔

دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ص۸۳ ح۳۷)

سلام سے مراد دونوں طرف سلام پھیرنا ہوتا ہے، الا یہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل ہو۔

بعض الناس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’صحیح مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف سلام پھیرا جائے، یہی جمہور کا مذہب ہے۔‘‘! (فتاوی عالمگیری ج۱ ص۱۲۵)

اس دعوے کی کوئی دلیل کسی حدیث یا کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔

حدیث نمبر ۳۰:

فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ دیکھئے ہدیۃ المسلمین (۵۴ ح۲۲)

سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جس روایت سے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا استدلال کیا جاتا ہے۔ (روایت مذکورہ کے لئے دیکھئے المعجم الکبیر / قطعہ من الجزء ج۲۱ ص۳۷ ح۹۰) اس کی سند فضیلل بن سلیمان النمیری (ضعیف عند الجمہور) کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔

تنبیہ:

اس راوی کی صحیحین مں تمام روایات صحیح ہیں۔ سرفراز خان صفدر کے بیٹے عبدالقدوس قارن دیوبندی نے لکھا ہے: ’’جن کتب میں صحت کا التزام کیا گیا ہے ان میں راوی کی حیثیت اور ہے اگر وہی راوی کسی دوسری جگہ آ جائے تو اس کی حیثیت اور ہوگی۔‘‘ (مجذدبانہ واویلا ص۲۴۷) 

دیوبندی مفتی رشید احمد لدھیانوی نے لکھا ہے:

’’نمز کے بعد اجتماعی دعاء کا مروجہ طریقہ بالا جماع بدعت قبیحہ شنیعہ ہے۔‘‘ (نمازوں کے بعد دعاء ص۱۹، احسن الفتاویٰ ج۱۰)

حدیث نمبر ۳۱:

ایک رکعت وتر پڑھنا بھی صحیح ہے اور تین رکعت وتر پڑھنا بھی صحیح ہے۔

دیکھئے سنن ابی داود (۱۴۲۲) سنن النسائی (۱۷۱۲) اور ہدیۃ المسلمین (ص۶۲ ح۲۶)

سیدنا ابو ایوب الانصااری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص تین وتر پڑھنا چاہے تو تین پڑھے اور جو شخص ایک وتر پڑھنا چاہے تو ایک وتر پڑھے۔ (سنن النسائی ۲۳۸/۳۔ ۲۳۹ ح۱۷۱۳، وسندہ صحیح)

تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیں پھر ایک وتر پڑھیں۔ (دیکھئے صحیح مسلم ج۱ ص۲۵۴ ح۷۳۸، صحیح ابن حبان، الاحسان: ۲۴۲۶ اور ہدیۃ المسلمین ص۶۲، ۶۳) 

ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی تین رکعتیں پڑھتے تھے اور سلام صرف پخری رکعت کے بعد پھیرتے تھے‘‘ الخ (المستدرک للحاکم ج۱ ص۳۰۴ ح۱۱۴۰)

اس روایت کی سند قتادہ مدلس کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

ایک راوی پر جرح کرتے ہوئے ماسٹر امین اوکاڑوی نے کہا:

’’اولا تو یہ سند سخت ضعیف ہے کیونکہ سند میں سعید بن ابی عروبہ مختلط ہے اور قتادہ مدلس ہے۔‘‘ (جزء رفع الیدین کا ترجمہ و تشریح ص۲۸۹ ح۲۹ تا ۳۱)

المستدرک (۳۰۴/۱ ح۱۱۳۹) میں اس کی تائید والی روایت میں سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں ہیں اور دونوں نے عن کے ساتھ روایت کی ہے۔

لہٰذا یہ تائیدی روایت بھی مردود ہے۔

یہ کہنا کہ ’’وتر کی دو رکعت کے بعد قعدہ اور اس میں تشہد پڑھنے کا ثبوت حدیث نمبر ۲۴ میں گزر چکا ہے‘‘ کالا جھوٹ ہے، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں وتر کا نام و نشان تک نہیں ہے۔  

یہ کہنا کہ ’’وتر کی ایک رکعت کسی حدیث سے ثابت نہیں‘‘ بھی بالکل جھوٹ ہے۔

خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے لکھا ہے: ’’وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے اور عبداللہ بن عمرؓ اور ابن عباسؓ وغیرہما صحابہؓ اس کے مقرر اورمالکؒ، شافعیؒ و احمدؒ کا وہ مذہب پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانا‘‘ (براہین قاطعہ ص۷)

تفصیل کے لئے دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ح۲۶)

حدیث نمبر ۳۲:

وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھنا بھی مسنون ہے اور رکوع کے بعد بھی جائز ہے۔ رکوع سے پہلے قنوت کے لئے دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ص۶۶۔ ۶۷ ح۲۸) رکوع کے بعد کے لئے دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (ج۲ ص۱۵۵۔ ۱۵۶ ح۱۱۰۰، و سندہ صحیح)

اس حدیث میں سیدنا ابی بن کعب و صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے کہ انھو نے رمضان میں (رات کے قیام میں) قنوت پڑھا پھر تکبیر کہہ کر سجدہ کیا۔

قنوت نازلہ پر قیاس کرکے قنوت وتر میں بھی دعا کی طرح ہاتھ اٹھانا جائز ہے اور نہ اٹھانا بھی جائز ہے۔ دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ص۶۷) اور مسائل ابی داود (ص۶۶)

حدیث نمبر ۳۳:

صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد فجر تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے، ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیتے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم ج۱ ص۲۵۴ ح۷۳۶)

آل دیوبند کے منظور نظر محمد احسن نانوتوی نے کہا:

کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔ (حاشیۃ کنز الدقائق ص۳۶ حاشیہ: ۴)

خلیل احمد سہانپوری دیوبندی نے کہا: ’’البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔‘‘ (براہین قاطعہ ص۸) 

سہانپوری نے مزید کہا: ’’اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔‘‘ (براہین قاطعہ ص۱۹۵)

تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب: تعدادِ رکعاتِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ

ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات اور وتر، بغیر جماعت کے پڑھتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۴۹۶/۲)

اس کا راوی ابراہیم بن عثمان جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ انور شاہ کاشمیری نے اس روایت کے بارے میں کہا: اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ (العرف الشذی ج۱ ص۱۶۶)

ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کے بارے میں عینی حنفی نے لکھا ہے:

اسے (امام) شعبہ نے جھوٹا کہا ہے ……الخ (عمدۃ القاری ج۱۱ ص۱۲۸)

محمد تقی عثمانی نے اس روایت کے بارے میں کہا:

’’لیکن یہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے۔‘‘ (درس ترمذی ج۳ ص۳۰۴)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم دیا۔ (موطا امام مالک، روایۃ یحیی ج۱ ص۱۱۴ ح۲۴۹، آثار السنن: ۷۷۶، وقال: ’’واسنادہ صحیح‘‘)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے قولاً یا فعلاً بیس رکعات تراویح پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔

ظہور احمد نے یہ جھوٹ لکھا ہے کہ ’’اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا تراویح کی بیس رکعات پر اجماع ہوگیا۔‘‘ (چہل حدیث ص ۱۰۳)

حالانکہ اس جھوٹے دعوے کے برعکس کسی ایک صحابی سے بھی بیس رکعات ثابت نہیں ہیں۔ جھوٹے اجماع کے رد کے لئے دیکھئے تعدادِ رکعاتِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ (ص۸۴۔۸۷)

حدیث نمبر ۳۴:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کی اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم ج۱ ص۲۴۷ ح۷۱۰)

اس صحیح حدیث کے مقابلے میں ایک دیوبندی نے لکھا ہے:

’’فجر کی سنتیں جماعت کھڑی ہونے کی وصرت میں بھی پڑھنی جائز ہیں۔‘‘ (چہل حدیث ص۱۰۴)!

ابو عثمان الہندی کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے کہ عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس ہم فجر سے پہلے کی دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے آیا کرت تھے جب کہ آپ نماز پڑھا رہے ہوتے، ہم مسجد کے آخر میں دو رکعت سنت پڑھ کر پھر لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہو جاتے تھے۔ (شرح معانی الآثار ۳۷۶/۱، آثار السنن: ۷۲۷) 

اس کی سند جعفر بن میمون (ضعیف عند الجمہور) کی وجہ سے ضعیف ہے۔

دیکھئے میری کتاب: انوار السنن فی تحقیق آثار السنن (مخطوط ص۱۴۶)

جعفر بن میمون کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: وہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔ (کتاب العلل و معرفۃ الرجال ص۵۸ فقرہ: ۴۱۵۷)

لہٰذا ’’مقلد کبیر‘‘ نیموی کا اس سند کو حسن کہنا غلط ہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اقامت کے وقت دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسے کنکریوں سے مارا اور فرمایا: کیا تو چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ (السنن البکری للبیہقی ۴۸۳/۲ و سندہ صحیح)

حدیث نمبر ۳۵:

صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جس کی صبح کی دو سنتیں رہ جائیں اور وہ فرض نماز کے بعد فوراً پڑھ لے، تو جائز ہے۔ دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (ج۲ ص۱۶۴ ح۱۱۱۶)

صحیح ابن حبان (الاحسان: ۲۴۶۲) اور المستدرک للحاکم (۲۷۴/۱۔ ۲۷۵ ح۱۰۱۷)

اسے حاکم اور ذہبی نے بھی صحیح کہا ہے اور اس روایت پر ابن عبدالبر کی جرح مردود ہے۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ جس شخص نے فجر کی دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں، تو اسے چاہئے کہ وہ ان کو سورج نکلنے کے بعد پڑھے۔ (سنن الترمذی: ۴۲۳، المستدرک ۳۰۷/۱ ح۱۱۵۳)

اس کی سند قتادہ مدلس (تقدم:۳۱) کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔

حدیث نمبر ۳۶:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں پھر فرمایا:

مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو۔ دیکھئے مختصر قیام اللیل للمقریزی (ص۶۴ وقال: ھذا اسناد صحیح علی شرط مسلم، آثار السنن: ۶۹۴ وقال: و اسنادہ صحیح)

پھر بعد میں آپ نے اجازت دے دی کہ جس کی مرضی ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ رکعتیں پڑھنا جائز ہے لیکن ضروری نہیں ہے۔

اس کے مقابلے میں جس روایت میں آیا ہے کہ ’’ہر نماز کی دو اذانوں کے درمیان دو رکعت نفل ہیں سوائے مغرب کے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج۲ ص۴۷۴)

اس کی سند حیان بن عبید اللہ کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔

حیان کے اختلاط کے لئے دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی (ج۱ ص۳۱۹) اور لسان المیزان (ج۲ ص۳۷۰، دوسرا نسخہ ج۲ ص۷۰۲)

ضعیف روایت کے ساتھ صحیح حدیث کو منسوخ قرار دینا غلط ہے۔

صحابۂ کرام سے ان رکعتوں پر عمل بھی ثابت ہے۔

دیکھئے صحیح بخاری (۶۲۵) صحیح مسلم (۸۳۷) اور آثار السنن (۶۸۹۔۶۹۱)

حدیث نمبر ۳۷:

یہ بالکل صحیح ہے کہ نمازِ جمعہ کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس پر اہل حدیث کا عمل ہے۔ والحمدللہ

نماز زوال کے بعد پڑھنی چاہئے لیکن خطبہ زوال کے وقت یا زوال سے پہلے بھی جائز ہے اور اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ حالتِ خطبہ میں جو شخص باہر سے مسجد میں آئے گا تو دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے گا۔ دیکھئے صحیح بخاری (۱۱۶۶)

حدیث نمبر ۳۸:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ حق واجب ہے، سوائے چار کے: زرخرید غلام، یا عورت، یا بچہ یا مریض (المستدرک للحاکم ج۱ ص۲۸۸ ح۱۰۶۲)

اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔

اس حدیث کے مفہوم سے معلوم ہوا کہ دیہاتی اور شہری، سب پر جمعہ فرض ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جہاں بھی ہو جمعہ پڑھو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۲ ص۱۰۲ ح۵۰۶۸ و سندہ صحیح)

اس کے مقابلے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا جو اثر آیا ہے کہ ’’عید اور جمعہ صرف بڑے شہر میں ہوسکتے ہیں‘‘ منسوخ یا مرجوح ہے۔

امام ابن شہاب الزہری نے فرمایا: چھوٹے گاؤں  میں بھی جمعہ پڑھو۔ (مصنف عبدالرزاق ج۳ ص۱۰۷ ح۵۱۸۸ ملخصا و سندہ صحیح)

تفصیل کے لئے دیکھئے میرا مضمون: گاؤں میں نمازِ جمعہ کی تحقیق (دیکھئے ص۱۰۴۔ ۱۳۱)

بعض دیوبندی کہتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں ہوتا اور پھر یہ لوگ گاؤں میں جمعہ پڑھتے بھی ہیں۔ اسے منافقت کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔!

حدیث نمبر ۳۹:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عید کی نماز پڑھائی تو پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (موطاً امام مالک ج۱ ص۱۸۰ ح۴۵۳ و سندہ صحیح)

امام مالک نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینہ میں) اسی پر عمل ہے۔ (ایضاً)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ قرار دیتے تھے۔ (صحیح بخاری: ۸۰۳)

معلوم ہوا کہ یہ حدیث مرفوع ہے اور اس کی تائید کے لئے دیکھئے سنن ابی داود (۱۵۵۱)

اس کے مقابلے میں ایک روایت میں نمز جنازہ کی طرح چار تکبیروں کا ذکر آیا ہے۔  (سنن ابی داود: ۱۱۵۳، شرح معانی الآثار ج۴ ص۳۴۶)

اس کی سند ابو عائشہ (مجہول الحال) کی وجہ سے ضعیف ہے لہٰذا اسے حسن کہنا غلط ہے۔ اس سلسلے میں طحاوی (۳۴۵/۴ض والی ایک روایت حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے منسوخ ہے۔

تنبیہ:

طحاوی والی دوسری روایت ابو عائشہ (غیر صحابی) کی وجہ سے ضعیف ہے لہٰذا اسے حافظ ابن حجر کا ’’اسنادہ صحیح‘‘ کہنا غلط ہے۔

حدیث نمبر ۴۰:

نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا سنت ہے۔ (صحیح بخاری ج۱ ص۱۷۸ ح۱۳۳۵)

یعنی بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس حدیث میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک سورت پڑھنے کا بھی ذکر ہے۔ (سنن النسائی ج۱ ص۲۸۱ ح۱۹۸۹، وسندہ صحیح، المنتقی لابن الجارود: ۵۳۴، ۵۳۶)

جنازہ سراً بھی جائز ہے۔ (منتقی ابن الجارود: ۵۰۴) اور جہراً بھی جائز ہے۔ (سنن النسائی: ۱۹۸۹)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’ہمارے لئے جنازہ میں نہ کوئی قراءت مقرر کی گئی ہے اور نہ کوئی خاص کلام مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ صاحمد؟ بحوالہ مجمع الزوائد ج۳ ص۳۲)

یہ روایت مسند احمد میں نہیں ملی لہٰذا بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اس طرح کی ایک روایت عبداللہ بن احمد بن حنبل سے مروی ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۳۷۳/۹ ح۹۶۰۴)

اس کی سند شریک القاضی (مدلس) کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔

ایک روایت میں (المعجم الکبیر ۳۷۳/۹ ح۹۶۰۶، الثقات لابن حبان ۲۵۹/۹) میں شریک مدلس کے علاوہ جابر (الجعفی) سخت ضعیف ہے۔ 

نیز دیکھئے العلل للدارقطنی (۲۶۲/۵ س۸۶۷)

خلاصہ یہ کہ یہ روایت غیر ثابت اور مردود ہے۔

ظہور احمد نے ’’چہل حدیث‘‘ کے آخری صفحے پر اس سلسلے میں ضعیف و غیر ثابت آثار بھی نقل کئے ہیں، جن کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔

تفصیل کے لئے دیکھئے ہدیۃ المسلمین (ص۸۹۔۹۰ ح۴۰)

نماز کے مسائل کی مزید تحقیق اور سلفی دلائل کے لئ دیکھئے میری کتاب: مختصر صحیح نمازِ نبوی، اور ہدیۃ السلمین۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص77

محدث فتویٰ

تبصرے