سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(20) کیا مباہلہ کرنا جائز ہے ؟

  • 13541
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3203

سوال

(20) کیا مباہلہ کرنا جائز ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا صحیح العقیدہ مسلمانوں کا اہل بدعت اور گمراہوں سے مباہلہ کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾... سورة آل عمران

پھر آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو شخص جھگڑا کرے تو کہہ دیں: آؤ! ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے، ہم اپنی عورتیں بلائیں اور تم اپنی، اور ہم اپنے اشخاص بلائیں اور تم اپنے اشخاص بلاؤ پھر ہم مباہلہ کریں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (ال عمران:۶۱)

اس آیت کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجران سے دو عیسائی: عاقب اور سید آئے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مباہلہ کریں۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: مباہلہ نہ کرنا، اللہ کی قسم! اگر وہ نبی ہوا تو ہم مباہلے کے بعد کبھی فلاح میں  نہیں رہیں گے اور نہ ہماری نسل باقی رہے گی۔ (دیکھئے صحیح بخاری ۴۳۸۰ ملخصا)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کرنے کے لئے باہر نکلتے تو واپسی پر اپنے گھر والوں اور مال میں سے کچھ بھی نہ پاتے یعنی سب کچھ تباہ ہو جاتا۔ (تفسیر عبدالرزاق ۱۲۹/۱ ح۴۱۱ و سندہ صحیح، تفسیر ابن جریر اطبری ج۳ ص۲۱۲ و سندہ صحیح)

نیز دیکھئے مسند الامام احمد (۲۴۸/۱ ح۲۲۲۵)

مشہور ثقہ تابعی قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے پتا چلا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل نجران (کے عیسائیوں) سے مباہلہ کرنے کے لئے نکلے پھر جب انھوں (عیسائیوں) نے آپ کو دیکھا تو ڈر گئے پھر وہ (عیسائی مباہلے کے بغیر ہی) واپس چلے گئے۔ (تفسیر عبدالرزاق، ۱۲۹/۱ ح۲۰۹ و سندہ صحیح، تفسیر طبری ۲۱۲/۳ و سندہ صحیح)

اس آیت کی تشریح میں یہ بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدنا) علی (بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) (سیدہ) فاطمہ (سیدنا) حسن اور (سیدنا) حسین (رضی اللہ عنہم الجمعین) کو بلایا اور فرمایا:«اللهم هولاء اهلی» اے اللہ! یہ میرے اہل ہیں۔ (صحیح مسلم: ۲۴۰۴، دارالسلام: ۶۲۲۰) 

ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اگر ضرورتِ شرعیہ ہو تو صحیح العقیدہ (اور قابل اعتماد، صالح) مسلمانوں کا کفار کے خلاف مباہلہ کرنا جائز ہے۔

مباہلہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دو فریقوں کا باہم جمع ہوکر اللہ سے دعا کرنا کہ اے اللہ! جو ناحق پر اور جھوٹا ہے، اسے ہلاک کر دے، تباہ و برباد کردے، اس پر لعنت بھیج۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ... ﴿٣٣﴾... سورة الاحزاب

اللہ تو یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہل بیت! تم سے پلیدی کو دور کر دے۔ (الاحزاب: ۳۳)

اس کی تشریح میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

«نزلت فی نساء النبی صلی الله علیه وسلم خاصة»

یہ (آیت) خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں نازل ہوئی۔

اس روایت کے راوی مشہور ثقہ تابعی عکرمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: «من شاء باهلته: انها نزلت فی ازواج النبی صلی الله علیه وسلم» جو چاہے میں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ یہ (آیت) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج (بیویوں) کے بارے میں نازل ہوئی۔ (تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر ابن کثیر ۱۶۹/۵۔ ۱۷۰، و سندہ حسن، دوسرا نسخہ ۱۵۳/۱۱، تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۱۱/۷۳، و سندہ حسن، ترجمۃ ام المومنین ام حبیبہ رملۃ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا، قلت: و فی تاریخ دمشق ’’زید النحوی‘‘ و اصواب: یزید النحوی)

اس اثر سے معلوم ہوا کہ اگر شرعی ضرورت ہو تو صحیح العقیدہ اور صالح و قابل اعتماد مسلمان یا مسلمانوںکا اہل بدعت یا گمراہوں اور کفار کے خلاف مباہلہ کرنا جائز ہے لیکن یاد رہے کہ صرف نبی کا مباہلہ ایسا ہے کہ مقابلے میں آنے والے ہر شخص کی تباہی و بربادی یقینی ہے، جبکہ امتیوں کے مباہلے میں یہ بات نہیں ہوتی لہٰذا بہتر ہے کہ مباہلہ نہ کیا جائے۔

محدث برہان الدین البقاعی نے لکھا ہے:

ہمارے استاذ حافظ ابن حجر العسقلانی کا ابن الامین نامی ایک شخص سے ابن عربی کے بارے میں مباہلہ ہوا۔ اس آدمی نے کہا: اے اللہ! اگر ابن عربی گمراہی پر ہے تو تو مجھ پر لعنت فرما۔

حافظ ابن حجر نے کہا: اے اللہ! اگر ابن عربی ہدایت پر ہے تو تو مجھ پر لعنت فرما۔

وہ شخص اس مباہلے کے چند مہینے بعد رات کو اندھا ہوکر مر گیا۔

یہ واقعہ ۷۹۷ھ کو ذوالقعدہ میں ہوا تھا اور مباہلہ (تقریباً دو مہینے پہلے) رمضان میں ہا تھا۔ (تنبیہ الغبی ص۱۳۷-۱۳۶، علمی مقالات ج۲ ص۴۷۱-۴۷۰)

خلاصۃ التحقیق:

حتی الوسع مباہلہ سے گریز کرنا چاہئے اور فقہی و اجتہادی مسائل کی وجہ سے مسلمانوں کا آپس میں مباہلہ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ دلائل کے ساتھ فریق مخالف کو سمجھانا چاہئے اور اگر اشد ضرورت ہو تو پھر کفر و اسلام کے اختلاف اور صریح و اجتماعی اور سلف صالحین کے متفقہ عقیدے پر صحیح العقیدہ نیک سمجھدار اشخاص کٹر مبتدعین اور گمراہوں کے خلاف مباہلہ کرسکتے ہیں لیکن یاد رہے کہ قطعی نتیجہ صرف نبی کے مباہلے کا ہی تھا، باقی امتیوں کے مباہلے کا نتیجہ اور انجام یقینی معلوم نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص71

محدث فتویٰ

تبصرے