السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ نے لکھا ہے کہ ’’یاد رہے کہ اس فانی دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہونا کسی صحیح حدیث یا آثارِ سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔ اگر اس طرح دیدار ہوتا تو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کو ضرور ہوتا، مگر کسی سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں آیا۔ رہے اہلِ تصوف اور اہلِ خرافات کے دعوے تو علمی میدان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ (ماہنامہ الحدیث: ۶۲ ص۱۱)
اس عبارت کا کیا مطلب ہے؟ کیا خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ممکن نہیں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں عالم بیداری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کسی صحیح حدیث یا آثارِ سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے لہٰذا شعرانی وغیرہ قسم کے مبتدعین جو دعوے کرتے رہے ہیں، وہ سارے دعوے غلط اور باطل ہیں، علمی و تحقیقی مدیان میں ان کو کوئی حیثیت نہیں ہے۔
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ نے فرمایا: بیداری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت محال (ناممکن) ہے۔ (التحذیر من البدع لابن باز ص۱۸، الرؤی والاحلام فی سیرۃ خیر الانام لاسامۃ بن کمال ص۹۸)
را عالم خواب اور نیند میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہونا تو یہ بالکل صحیح اور برحق ہے، بشرطیکہ دیدار کا دعویٰ کرنے والا ثقہ اور اہل حق میں سے ہو، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی صورتِ مبارکہ پر ہی دیکھا ہو اور یہ خواب دلائل شرعیہ کے خلاف نہ ہو۔
بطورِ فائدہ عرض ہے کہ راقم الحروف نے کافی عرصہ پہلے لکھا تھا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی صورت پر دیکھا جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں جو دیکھا تو یہ بالکل صحیح ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارک پہچانتے تھے۔ ان کے بعد جو بھی دیکھنے کا دعویٰ کرے گا تو اگر اس کا عقیدہ صحیح ہے تو پھر اس کے خواب کو قرآن و حدیث و فہم سلف صالحین پر پیش کیا جائے گا، ورنہ ایسے خوابوں سے دوسرے لوگوں پر حجت قائم کرنا صحیح نہیں ہے۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل مبارک میں شیطان لعین ہرگز نہیں آسکتا مگر کسی حدیث میں یہ نہیں آیا کہ شیطان جھوٹ نہیں بول سکتا اور کسی دوسری شکل میں آکر کذب بیانی سے اسے کسی مومن اور صالح شخص کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔
بیداری میں دیکھنے کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں: (۱) جس نے عہد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو وہ پھر بیداری میں بھی ضرور دیکھے گا لہٰذا یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ خاص ہے۔ (۲) اگر اس حدیث کو عام سمجھا جائے تو پھر دیکھنے والا قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری میں دیکھے گا۔‘‘ (دیکھئے ماہنامہ الحدیث: ۴۰ص۱۳-۱۲)
فی الحال تین خواب پیشِ خدمت ہیں، جن کی سندیں بھی صحیح ہیں اور خواب دیکھنے والے ثقہ بلکہ فوق الثقہ تھے:
۱: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کو خواب میں دیکھا۔ (دیکھئے مسند احمد (۲۴۲/۱ و سندہ حسن لذاتہ) اور ماہنامہ الحدیث (عدد ۱۰ص۱۶-۱۴)
۲: مشہور ثقہ امام ابوجعفر احمد بن اسحاق بن بہلول نے فرمایا: میں اہلِ عراق کے مذہب پر (یعنی تارکِ رفع یدین) تھا پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ پہلی تکبیر، رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھا کر رفع یدین کرتے تھے۔ (سنن الدارقطنی ۲۹۳/۱ ح۱۱۱۲، و سندہ صحیح)
۳: حافظ الضیاء المقدسی نے فرمایا کہ میں نے حافظ عبدالغنی (بن عبدالواحد بن علی المقدسی رحمہ اللہ) کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، میں آپ کے پیچھے چل رہا تھا اور میرے اور آپ کے درمیان ایک دوسرا آدمی تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۴۶۹/۲۱)
بہت سے لوگ جھوٹے خواب اور باطل روایات بیھ بیان کرتے ہیں، مثلاً محمد زکریا دیوبندی نے لکھا ہے:
’’حافظ ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ باہر جا رہا تھا۔ میں نے ایک جوان کو دیکھا کہ جب وہ قدم اٹھاتا ہے یا رکھتا ہے تو یوں کہتا ہے: اللھم صلی علی محمد و علی ال محمد۔ میں نے اسسے پوچھا کیا کسی علمی لیل سے تیرا یہ عمل ہے؟ (یا محض اپنی رائے سے) اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ۔ میں نے پوچھا یہ درود کیا چیز ہے؟ اس نے کہا، میں اپنی ماں کے ساتھ حج کو گیا تھا۔ میری ماں وہیں رہ گئی (یعنی مر گئی) اس کا منہ کالا ہوگیا اور اس کا پیٹ پھول گیا جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بہت بڑا سخت گناہ ہوا ہے۔ اس سے میں نے اللہ جل شانہٗ کی طرف دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو میں نے دیکھا کہ تہامہ (حجاز) سے ایک ابر آیا اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا۔ اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کون ہیں کہ میری اور میری ماں کی مصیبت کو آپ نے دور کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تیرا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں میں نے عرض کیا مجھے کوئی وصیت کیجئے ت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی قدم رکھا کرے یا اٹھایا کرے تو اللھم صلی علی محمد و علی ال محمد۔ پڑھا کر۔ (نزہۃ)‘‘ (فضائل درود ص۱۲۳-۱۲۲، تبلیغی نصاب ص۷۹۳، ۷۹۴)
یہ بالکل جھوٹی حکایت ہے (چاہے اس سے خواب مراد ہو یا عالم بیداری کا واقعہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آپ نے غیر عورت کے چہرے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے شرم و حیا والے تھے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی میں کسی غیر عورت سے ہاتھ تک نہیں ملایا تھا۔ یہ حکایت نزہۃ المجالس نامی کتاب میں نہیں ملی اور اگر اس کتاب میں مل بھی جائے تو بھی باطل ہے۔ عبدالرحمن صفوری (متوفی ۸۹۴ھ) کی (بے سند روایات والی) کتاب: ’’نزہۃ المجالس و منتخب النفائس‘‘ ناقابل اعتمھاد کتاب ہے۔ برہان الدین محدث دمشق نے اس کتاب کو پڑھنے سے منع کیا اور جلال لادین سیوطی نے اس کے مطالعے کو حرام قرار دیا۔ دیکھئے کتاب: کتب حذرمنھا العلماء (ج۲ ص۱۹)
اس قسم کا ایک ضعیف و مردود واقعہ ایک مردمیت کے بارے میں ابن ابی الدنیا کی کتاب المنامات (ح۱۱۸) میں لکھا ہوا ہے لیکن غیر عورت کے بارے میں اس طرح کا واقعہ کہیں بھی نہیں ملا اور نہ ابونعیم کی کسی کتاب میں اس کا کوئی نام و نشان ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب