سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(09) جہنم کا سانس گرمی اور سردی؟

  • 13530
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3576

سوال

(09) جہنم کا سانس گرمی اور سردی؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موسم گرما میں مری و سوات میں سردی ہوتی ہے۔ دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جہاں چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن ہوتا ہے۔ کچھ ملک ایسے بھی ہیں جہاں گرمی پڑتی ہی نہیں (اور کچھ ایسے ہیں جہاں سردی نہیں ہوتی) ان واقعات کی روشنی میں وضاحت کریں کہ چھ ماہ کے بعد جہنم سانس نکالتی ہے اس وجہ سے گرمی پڑتی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس حدیث میں آیا ہے کہ جہنم سانس باہر نکالتی ہے تو گرمی زیادہ ہو جاتی ہے بالکل صحیح حدیث ہے، اسے امام بخاری (۵۳۷) امام مسلم (۶۱۷) امام مالک (المؤطا ۱۶/۱ ح۲۷) امام شافعی (کتاب الام ص۵۸ ح۱۱۳) اور امام احمد بن حنبل (المسند ۲۳۸/۲ ح۷۲۴۶) وغیرہم نے متعدد سندوں کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اس کے شواہد صحیفہ ہمام بن منبہ (ح۱۰۸) وغیرہ میں بھی موجود ہیں۔ گرمی کی شدت کا جہنم میں سے ہونا دیگر صحابہ کرام مثلاً سیدنا ابوسعید الحذری رضی اللہ عنہ (صحیح البخاری: ۵۳۸) سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری: ۵۳۵ و صحیح مسلم: ۶۱۶) اور سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ (السنن الکبریٰ للنسائی ۴۶۵/۱ ح۱۴۹۰) وغیرہم سے مروی ہے۔

بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مجاز پر محمول ہے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث حقیقت پر محمول ہے۔

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (متوفی ۴۶۵ھ) لکھتے ہیں: ’’ولکلا القولین وجه یطول الاعتلال له۔ والله الموفق للصواب‘‘ یعنی یہ دونوں اقوال واضح مفہوم رکھتے ہیں جن پر بحث طوالت کا باعث ہے اور اللہ حق (ماننے) کی توفیق دینے والا ہے۔ (التمہید ۱۱۷/۱۹)

اگر اس حدیث کا حقیقی معنی مراد لیا جائے تو زمین پر شدید گرمی (جہنم کی) آگ کے تنفس کی وجہ سے ہوتی ہے جس کی کیفیت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ باقی رہے وہ علاقے جہاں اس دوران میں بھی سردی ہوتی ہے تو یہ استثنائی صورتیں اور موانع موجود ہیں۔ مثلاً سخت گرمی کے دوران میں جب بارش ہو جائے تو موسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے اسی طرح اونچے پہاڑ، گھنے درخت اور برف ان موانع میں سے ہیں جن کی وجہ سے گرمی کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ استثنائی صورتوں کی وجہ سے اصول نہیں بدلتے۔ مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنّا خَلَقنَا الإِنسـٰنَ مِن نُطفَةٍ أَمشاجٍ نَبتَليهِ فَجَعَلنـٰهُ سَميعًا بَصيرً‌ا ﴿٢﴾... سورة الدهر

بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا، ہم اسے آزمانا چاہتے ہیں۔ پس ہم نے اسے سننے والا (اور) دیکھنے والا بنایا ہے۔ (سورۃ الدھر:۲)

حالانکہ بہت سے لوگ بہرے یا اندھے بھی پیدا ہوتے ہیں اور ساری زندگی بہرے یا اندھے ہی رہتے ہیں۔

جس طرح اس آیت کریمہ می تخصیص اور استثنائی صورت موجود ہے، اسی طرح آگ کے سانس والی حدیث میں استثناء اور تخصیص موجود ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص54

محدث فتویٰ

تبصرے