السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جناب عنایت اللہ شاہ بخاری حنفی آف گجرات نے تقلید شخصی اور جمود مذہبی کے خمار میں یکم ستمبر1978 کو رمضان کے جمعہ کے خطبہ میں فرمایا:بیس رکعات تراویح پر صحابہ ؓ ائمہ اربعہ اور امت کا اجماع ہے اورایسے اجماع کے مخالف پر ب دی پھٹکار پیندی اے۔ رحمت نہیں ہندی اور سلسلہ کلام شروع رکھتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ غیر مقلدوں کو’’ دوجے بنے دی پٹھ جلدی لگ جاندی اے۔‘‘ چنانچہ مرزا قادیانی اور پرویز ( مشہور منکرحدیث) پہلے غیر مقلد تھے۔ یعنی ان دونوں کی گمراہی کا سبب عدم تقلید تھا۔ اگر وہ مقلد ہوتے تو ہرگز گمراہ نہ ہوتے وغیرہ وغیرہ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نہ نہ چھیڑ ا نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔
گستاخی معاف! آپ کا یہ ادعاء قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ اور پھر تاریخی حقائق سے ناواقفیت کا مظہراتم ہے۔اگر آپ نے قرآن وحدیث کے پیش کردہ فلسفہ ہدایت کا ادراک کیا ہوتا تو آپ یہ ڈینگ مارنے سے محفوظ رہتے۔
ادنیٰ سدھ بدھ رکھنے والا ایسا کون سا طالب علم ہوگا جو یہ تک نہ جانتا ہوکہ ہدایت اور آخرت کی رستگاری اور فلاح و فوز اللہ تعالی ہی کے قدرت میں ہے اور اس کی مشیت کی مرہون منت ہوتی ہے، یعنی اس کی عطا کردہ توفیق خاص اورکرم گستری ہی سے کسی خوش نصیب کے نصیبہ میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿قُل إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الهُدىٰ...١٢٠﴾...سورة البقرة
’’ توکہہ دے ہدایت تو اصل وہی ہے جو اللہ تعالی کی ہاں سے ہو( نہ کہ تمہاری زٹلیات) (ترجمہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری)
2۔ ﴿وَلَو شاءَ اللَّـهُ لَجَمَعَهُم عَلَى الهُدىٰ...٣٥﴾...سورة الانعام
’’اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔‘‘
3-﴿ذٰلِكَ هُدَى اللَّـهِ يَهدى بِهِ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ...٨٨﴾...سورة الانعام
’’ یہ اللہ کی راہنمائی تھی۔ اللہ اپنے بندوں(میں سے) جسے چاہے اس روش کی ہدایت کردیتاہے۔ جس میں غیر مقلدیت کو کوئی دخل ہے اور نہ مقلدیت کو۔‘‘
تعجب ہے کہ اہل حدیث دشمنی میں آپ کو مشہور وظیفہ نبوی یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینك اور لا حول ولا قوة الا بالله کے معانی بھی یاد نہیں رہے۔
اسی طرح جب کسی ازلی بدنصیب کےبرے دن آتے ہیں تو وہ اللہ تعالی کی اس توفیق خاص سے محروم ہوجاتاہے اور مشیت الہی کےمطابق گمراہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿يُضِلُّ بِهِ كَثيرًا وَيَهدى بِهِ كَثيرًا ۚ وَما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الفـٰسِقينَ ٢٦﴾...سورة البقرة
’’ اس ( مثال)کے ذریعہ بہتوں کو ( ان کی بے جانکتہ چینی کی وجہ سے) گمراہ کردیتا ہے اور بہت سے (صاف باطن) لوگوں کو ہدایت( بھی ) کرتا ہے اور سوائے فاسقوں کےکسی کو گمراہ نہیں کرتا۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿إِنَّكَ لا تَهدى مَن أَحبَبتَ وَلـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهدى مَن يَشاءُ ۚ وَهُوَ أَعلَمُ بِالمُهتَدينَ ٥٦﴾...سورة القصص
’’ تو(اے نبی!) جس کو چاہے ہدایت نہیں کرسکتا۔ لیکن اللہ ہی جس کو چاہے ہدایت پر لائے وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتاہے۔‘‘
لہذا جب کوئی حرماں نصیب اپنی ازلی شقاوت کی وجہ سے اس توفیق خاص سے محروم ہوجانے کی وجہ سے مشیت الہی کے مطابق گمراہ ہونے لگتا ہے ۔ تو پھر نہ غیر مقلدیت اس کو اس گمراہی سے بچا سکتی ہے اور نہ مقلدیت حفاظتی بند کا کام دیتی ہے۔ فرمایا:
﴿وَإِذا أَرادَ اللَّـهُ بِقَومٍ سوءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَما لَهُم مِن دونِهِ مِن والٍ ١١﴾...سورة الرعد
’’اورجب اللہ تعالی کسی قوم کےحق میں برائی چاہتا ہے تو وہ کسی طرح نہیں ملتی( اس کوکوئی ٹلانے والا نہیں) اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی والی ہے۔
﴿وَمَن يُضلِلِ اللَّـهُ فَما لَهُ مِن هادٍ ٣٣﴾...سورة الرعد
’’اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کےلیے کوئی بھی ہادی نہیں ہوسکتا۔‘‘ (ترجمہ از شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری)
مختصر یہ کہ ہدایت اللہ تعالی کی ایک دین اور اس کا عطیہ ہے جوکسی خوش نصیب کےحصہ میں آتا ہے اور گمراہی بھی اللہ کے نظام عدل اور اس کی مشیت کا فیصلہ ہے جو کسی ازلی بدبخت کا مقدر ہوتی ہے اور اللہ کا یہ قانون ہمیشہ سے چلتاآیا ہے ۔ چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔(وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ) سورۃ القصص68. ’’تیرا رب جو چاہتا ہے پید کرتاہے اور جس کو چاہے چن لیتا ہے ۔ ان کو کسی طرح کا اختیار نہیں۔ لہذا ہمیں اعتراف ہے کہ حافظ عنایت اللہ گجراتی وغیرہ یقیناً غیر مقلد تھے۔ بعد ازاں سلف محدثین کی راہ سے ہٹ کرتاویل بلکہ گمراہی کی گرداب میں دھنس کر رہ گئے تھے ۔ تاہم یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہ بیماری اہلحدیث ( کثر اللہ سوادہم) میں اتنی نہیں جتنی امام ابوحنیفہ کے مقلدین میں پائی گئی ہے۔ آپ ذرا غور فرمائیں۔
علامہ ابوالفضل علامہ فیضی اور ان کے والد شیخ الاسلام ملامبارک جنہوں نے’’دین الہی‘‘ کی طرح ڈالی اور اکبر بادشاہ کا مذہبی بیڑا غرق کردیا تھا۔ کیا یہ تینوں باپ بیٹے حنفی مقلد نہ تھے؟ (تاریخ دعوت و عزیمت از مولانا ابوالحسن علی ندوی، ج4 ص94 تا99)
(4) سید محمد جونپوری جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا کون تھے؟ حنفی مقلد تھے۔ ( تاریخ دعوت وعزیمت از مولانا ابوالحسن علی ندوی ج4 ص55، 56)
(5) دیوبندی مراکز شعیت کی لپیٹ میں مشہور دیوبندی عالم مولانا سیدمناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں: ’’ حضرت میر شاہ خاں اپنی طرف منسوب کتاب’’ امین الروایات‘‘ میں فرماتے ہیں ۔ الدہن۔ میرٹھ ہاپوڑ۔ گلاوٹھی، بلند شہر کا حال تومجھے معلوم ہے کہ یہاں کے لوگ سب تفضیلی بلکہ شیعہ تھے۔‘‘ پھر فرماتےہیں: اور سنا ہے کہ دیوبند میں بھی سب تفضیلی تھے۔‘‘ (سوانح قاسمی از مناظر احسن گیلانی ۔ج1۔ص61)
اپنے ایک خطہ میں ازقام فرماتے ہیں کہ پس ازاں عرض کہ بنواحی کہ زادہ بوم احقراس ت شیعان وسنیان چناں مخلوط اندکہ رشتہ ورابطہ قرابت طرفین رابہ طرفین محکم و مستحقکم است۔(فیوض قاسمیہ ص5) بعداس کے میں نے( مولوی حامد حسین مجتہد شیعہ) سے عرض کیا کہ جس علاقہ ( نانوتہ ودیوبندوغیرہ) میں احقر کاوطن ہے ۔وہاں شیعہ اورسنی دونوں فرقے باہم ایک دوسرے کے ساتھ کچھ اس طرح گھلے ملے ہوئے ہیں کہ دونوں فرقوں میں رشتہ داریوں کے تعلقات بھی مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔ ( سوانح قاسمی ج1ص61 ،62)
سوانح قدیم کے مصنف امام نے بیان کیا ہے کہ نانوتہ کے قاسمی، صدیقی برادری کے ایک رکن جن کا نام شیخ تفضل حسین تھا اور خاندانی جائیداد میں ان کی شراکت تھی۔ وہی شیخ تفضل حسین (ثانوتوی)شیعہ مذہب ہوگئے تھے، جو اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ سنیت (حنفیت) کے موروثی عقیدہ کو ترک کرکے شیعہ عقائد کے اختیار کرنے والے قصبہ نانوتہ میں بھی پائے جاتے تھے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جیسے الدہن۔ گلاوٹھی، دیوبند وغیرہ قصبات میں تفضیل اور تفضیل سے آگے بڑھ کر رفض (شیعیت) کے جراثیم پھیل گئے تھے۔ نانوتہ بھی اس اثر سے محفوظ نظرنہیں آتا۔ (سوانح قاسمی ج1 ص61، 62)
یہ شیخ تفضل حسین کو ن تھے، اور مولانا قاسم کے کیا لگتے تھے؟ تو گزارش ہے کہ دیوبندیوں کےنامور محقق اور نہایت ثقہ مؤرخ پروفیسر ایوب قادری کی تحقیق کے مطابق یہ شیخ تفضل حسین رشتہ میں مولانا قاسم کےدادا لگتےہ یں۔ یعنی شیخ تفضل حسین کےوالد شیخ علی محمد بن شیخ محمد عاقل اور مولانا قاسم نانوتی کے حقیق پر دادا شیخ محمد بخش آپس میں حقیقی چچیرے بھائی تھے۔ملاحظہ ہوکتاب’’ مولانا محمد احسن نانوتوی ‘‘ (از ایوب قادری۔ ص18 وسوانح قاسمی ج1ص171)
اگرچہ مولانا گیلانی موصوف نے حضرت قاسم نانوتوی کےصرف ایک بزرگ شیخ تفضل حسین کے متعلق لکھا ہے کہ وہ شیعہ ہوگئے تھے ۔ مگر پروفیسر ایوب قادری کے مطابق حضرت نانوتوی کے خاندان کی پوری ایک شاخ شیعہ ہوگئی تھی۔ چنانچہ لکھتےہیں: ’’ محمد عاقل کی اولاد دولت وامارت کے اعتبار سے خاندان میں ممتاز تھی۔ مگر اس شاخ نے شیعیت اختیار کرلی تھی۔ اور وہ شیخ تفضل حسین بن شیخ علی محمدتھے جو بعد میں بعض خاندانی نزاعات کی وجہ سے مولانا محمد قاسم نانوتوی کے ماموں فصیح الدین ولد وجیہہ الدین کے ہاتھوں قتل ہوئے۔‘‘ (مولانا محمد احسن نانوتوی۔ص16)
بیاض یعقوبی میں ہے(نانوتہ کے) سید صاحبان کے تین گروہ ہیں۔ بخاری۔ ترمذی، سبزواری، پیشتر یہ سب اہل تسنن ( حنفی مقلد) تھے۔ زمانہ شاہ فرخ سیرسے شیعہ ہونے شروع ہوئے۔ اس کے جملہ (سید) صاحبان شیعہ ہیں۔ بیاض یعقوبی (ناشرمولوی محمدرضی عثمانی۔ کراچی ص18)
9۔سادات امروہہ اور نوابان رامپور نے نوابان لکھنے کے اثر سے امامی مذہب اختیار کرلیا۔ (حاشیہ کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی از ایوب قادری۔ص16)
10۔ بدایوں میں حمیدی خاندان کے ایک حصہ نے شیعیت اختیار کرلی ایضاً کتاب مذکور۔
آپ ذرا غور فرمائیں اور موت اور قبر کو ذہن میں رکھ کر فرمائیں کہ کیا شیعہ مذہب اختیار کرنے والے مذکورہ بالا اہالیان دیوبندونانوتہ، امروہہ، میرٹھ ہاپوڑ،الدہن، بلند شہر، گلاؤٹھی، نوابان رامپورار بدایوں اور بالخصوص شیخ تفضل حسین کیا غیر مقلد تھے؟ حنفی مقلد نہ تھے؟ یا ان کی مقلدیت ان کو شیعہ ہونے سے روک سکی؟ ہرگز نہیں، امید ہے تسلی ہوگی۔ نہیں تواور سنیے:
11۔ سرسید کو ن تھے؟ ایک مقلد خانواوے کے چشم و چراغ
12۔ ادارہ تحقیقات اسلامی( اسلام آباد) کے سابق سربراہ فضل الرحمٰن ، جس نے ایوب خاں کے دور حکومت میں قرآن وحدیث کے خلاف ژاژ خائی اور بیہودہ سرائی کی تھی کون تھے؟ ایک مشہور دیوبندی عالم دین مولانا شہاب الدین لاہوری کے صاحبزادہ گرامی قدر ہیں۔
13۔ مولوی عمر احمد عثمانی( کراچی) کون ہے؟ جو اس وقت فتنہ انکار حدیث کا سب سے بڑا مبلغ بنا پھرتا ہے۔ جس پراس کی سخت گمراہ کن کتاب ’فقہ القرآن‘ شاہد ہے۔ یہ جناب مشہور دیوبندی الم اور مولانا اشرف علی تھانوی کے قربیی عزیز اور ان کے تربیت یافتہ مولانا ظفر احمد عثمانی کے فرزند ازجمند ہیں۔
14۔ مشہور شیعی مناظر مولوی اسماعیل دیوبندی گوجروی کون تھے؟ جو بڑے فخر اور مباہات کے ساتھ اپنے نام کےساتھ دیوبندی کا لاحقہ لکھا اور لکھوایا کرتے تھے ۔ کیا وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور پہلے حنفی مقلد نہ تھے۔
15۔ ایران کا ایک بادشاہ جس کانام خدا بندہ تھا، جو ساتویں یا آٹھویں صدی کا آدمی ہے۔ کیا وہ پہلے حنفی العقیدہ مقلد نہ تھا۔ جس نے طلاق ثلاثہ کے حنفی مسئلہ سےدل برداشتہ ہوکر ایک شیعی عالم سے فتویٰ لے کر اپنی بیوی سے رجوع کرلیاتھا اور شیعہ ہوگیا تھا۔؟
16۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتلائیے کہ یہ بریلوی حضرات کون ہیں؟ اور ان کے اہل علم حنفی مقلد ہیں یا غیر مقلد۔ جنہوں نے اپنےقول وفعل سے دین اسلام کو شرک اور خرافات کا عجیب وغریب ملغوبہ بناکر رکھ دیا ہے۔ کیا یہ بھی مقلد نہیں؟ بلکہ مقلد فقہ حنفیہ ہی نہیں؟
غرض کہاں تک لکھوں۔ بات طویل سے طویل تر ہوجائے گی اور مقالہ کے صفحات اس طوالت کے متحمل نہیں۔ اس لیے حضرت احسان دانش کے اس شعر پر اکتفا کرتا ہوں؏
رہا آپ کا یہ اعادہ کہ مرزا قادیانی اور مشہور منکر حدیث پرویز پہلے غیر مقلد تھے، اس لیے ان کو ان کی عدم تقلید نے گمراہ کرکے چھوڑا۔
امام ابن الجوزی کا قول ہے کہ تقلید غوروفکر اور تدبر کی صلاحیت ہی کو ختم کردیتی ہے۔ اس کی مثال اس شخص سے بھی زیادہ بری ہے جس کو روشنی حاصل کرنے کےلیے چراع مہیا کیا گیا لیکن اس نے اسے بجھا دیا اور تاریکی میں چل پڑا۔ بالکل یہی مثال ہے آپ کی کہ آپ اس علم و آگاہی کے دور میں بھی تقلید ناسدید کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ مرزا غلام احمدقادیانی اور غلام احمد پرویز آنجہانی دونوں نہ صرف حنفی مقلد تھے۔جیسا کہ ان دونوں بدبختوں کی تحریروں اور وضاحتوں سے یہ حقیقت الم نشرح ہوچکی ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ دونوں اس تقلید کے ناطے سے حدیث دشمنی میں غیر مقلدوں( اہلحدیثوں ) کو ستانے اور ملاحیاں سنانے میں کسی مخلص مقلد حنفی سے کہیں پیچھے نہیں رہے۔ (انصاف پسند بزرگان احناف ہماری گفتگو کا ہدف ہرگز نہیں وہ ہمارے لیے قابل صداحترام ہیں اور ان سے ہمیں کوئی گلہ ہے نہ شکوے) ان دونوں کی دشنام طرازیوں کی تفصیل کا تویہ موقعہ نہیں کہ بات اور طویل ہوجائے گی۔ لہذا یہ داستاں خونچکاں کسی دوسری فرصت کے لیے اٹھارکھتے ہیں:
سردست ان دونوں بدبختوں کی مقلدیت اور حنفیت کا ٹھوس اور مسکت ثبوت خدمت کیاجاتا ہے ۔ پڑھیے اور اپنا ریکارڈ ودرست فرمالیجیے۔ مرزاغلام احمد قادیانی اول آخرغالی حنفی تھا۔
پہلے مرزا قادیانی کو لیجئے۔ حضرت مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی ( مشہور اہل حدیث عالم دین اور مولوی عبداللہ چکڑالوی حنفی ( مشہور منکر حدیث) کے درمیان حجیت حدیث کے موضوع پر ایک مباحثہ ہوا تھا۔ مرزا قادیانی نےاپنے طور پر اس مباحثہ پر بطور تبصرہ کے ایک رسالہ بنام’’ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی‘‘ اور مولوی عبداللہ چکڑالوی کے مباحثہ پر مسیح موعوج حکم زبانی کا ریویو( ) لکھا تھا۔ مرزا صاحب نے اس رسالہ میں حدیث رسول کے متعلق وہی زبان اور وہی انداز اختیار کیا ہے۔ جو آج سے صدیوں پہلے اس وقت کے سب سے بڑے حنفی فقیہ ابوالحسن عبیداللہ الکرخی نے اپنے رسالہ اصول کرخی ص373 میں اختیار فرمایا تھا۔ بہر کیف مرزا صاحب حدیث اور اہل حدیث پر برستے ہوئے لکھتےہیں:
(1) غرض یہ فرقہ اہل حدیث اس بات میں افراط کی راہ پر قدم ماررہا ہے کہ قرآنی شہاد پر حدیث کو مقدم سمجھتے ہیں۔ اور اگر وہ انصاف اور خدا ترسی سے کام لیتے تو ایسی حدیثوں کی تطبیق قرآن شریف سے کرسکتے تھے۔ مگر وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ خدا کے قطعی اوریقینی کلام کو بطور متروک اور مہجور کے قرار دیں۔اور اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ ایسی حدیثوں کو جن کے بیانات کتاب اللہ سے مخالف ہیں یا تو چھوڑو دیں اور یا ان کی کتاب اللہ سے تطبیق کریں۔ پس یہ وہ افراط کی راہ ہے جو مولوی محمد حسین نے اختیار کررکھی ہے۔ (رسالہ مذکور ص2)
(2) حدیث کو عجمی سازش قرار دیتے ہوئے مزید لکھتا ہے : ’’ جب کہ حدیثیں سوڈیڑھ سو برس آنحضرتﷺ کے بعد جمع کی گئی ہیں اور انسانی ہاتھوں کے مس سے وہ خالی نہیں ہیں۔ اور بایں ہمہ وہ احاد کا ذخیرہ اور ظنی ہیں اور پھر وہی قرآن شریف پرقاضی بھی ہیں، تو اس سے لازم آتا ہے کہ تمام دین اسلام ظنیات کا ایک تو وہ انبار ہے اور ظاہر ہے کہ ظن کوئی چیز نہیں۔ اور جو شخص محض ظن کو پنجہ مارتا ہے وہ مقام بلندسے بہت نیچے گرا ہوا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقَّ شَيْاءً یعنی محض ظن حق الیقین کے مقابلہ پر کچھ چیز نہیں۔ پس قرآن شریف تو یوں ہاتھ سے گیا کہ وہ بغیر قاضی صاحب کے فتووں کے واجب العمل نہیں اور متروک و مجہور ہے اور قاضی صاحب یعنی احادیث صرف ظن کے میلے کچیلے کپڑے زیب تن رکھتے ہیں ۔ جن سے احتمال کذب کسی طرح مرتفع نہیں۔ کیونکہ ظن کی تعریف یہی ہے کہ وہ دروغ کے احتمال سے خالی نہیں۔ پس اس صورت میں نہ تو قرآن ہمارے ہاتھ میں رہا اور نہ حدیث۔ اس لائق کہ اس پر بھروسہ ہوسکے۔
(3) نیز لکھتے ہیں: اس جگہ ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں ، یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے، جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے (ص:4)
(4) حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا’’ عامل الحدیث‘‘ کہلاتا تھا۔
(5) اس لیے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تواسلام کی اصل تعلیم کا کچھ بھی حرج نہیں۔
(6) پس مذہب اسلام یہی ہے کہ نہ تو اس زمانہ کے اہل حدی کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں۔
(7) چلئے اورسنئے اور اپنی صدری بیاض کا ریکارڈ درست فرمائیے
اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں۔ کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے ۔ص6۔مجدداعظم مصنفہ ڈاکٹر بشارت۔ج3ص98، 99۔
خط کشیدہ الفاظ کو ایک بار پھر پڑھیں اور بتلائیں کہ مرزا صاحب کے حنفی مقلد ہونے میں اب بھی کوئی ابہام باقی رہ گیا ہے؟
آپ کی مزید تسکین کے لیے آپ کو مرزا بشیر احمد قادیانی کی سیرۃ المہدی کی سیر کرائے دیتے ہیں۔ پڑھیے اور اپنے مؤقف کا جائزہ لیجیے۔
(8) مرزا بشیر لکھتا ہے۔ اصولاً آپ (مرزاغلام احمد قادیانی) ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی ظاہر فرماتے تھے۔ اور آپ نےاپنے لیے کسی زمانہ میں بھی اہل حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا۔
(9) ہم کوئی حنفیوں کے خلاف نہیں کہ آپ باربار اپنے آپ کو حنفی ہونے کا اظہار کرتے ہیں......... پھر آپ نےفرمایا کہ ہرشخص اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے۔
(10) خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودیوں تو سارے اماموں کی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر امام ابوحنیفہ صاحب کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف کرتے تھے۔
(11) باپ اور بیٹے کے اقبالی بیانات کےبعد اب مرزا قادیانی کے دست راست اور خلیفہ اول نور دین بھیروی کی دو شہادتیں بھی پڑھ لیجئے۔ وہ مرزا قادیانی کا عقیدہ بتاتے ہوئے لکھتا ہے ۔ مرزا صاحب اہل سنت والجماعت خاص کر حنفی المذہب تھے اوراسی طائفہ ظاہرین علی الحق میں سے تھے۔
(12)اگر قرآن وحدیث سے نہ ملے تو فقہ حنفیہ پر عمل کرتے ہیں۔
(13)خلیفہ نور دین اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ چشم سوزم درفرقت یا محمد۔
مرزا صاحب ! اپنی پہلی تحریر میں اہل حدیثوں کو اس جرم میں کہ وہ بےچارے حجیت حدیث کے قابل ہیں بے جا افراط، بے انصافی اور خدا نا ترسی کا طعنہ دے رہا ہے اور دوسری تحریر میں تدوین حدیث کو دوسری صدی کے نصف آخر کے مسلمانوں کے کھاتے میں کر کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہے چونکہ ان میں کذب کا احتمال بہر حال موجود ہے او رحدیثیں ظن کے میلے کچیلے کپڑے ہیں جیسے گھٹیا الفاظ میں حجیت حدیث کا برملا انکار کر رہا ہے ، جیسا کہ مخطوطہ جملے اس پر شاعد عدل ہیں اور پھر تیسری تحریر میں اپنے ناپاک مقاصد کے پیش نظر اہل حدیث کے مسلمہ اصولوں کے مقابلہ میں خود غرضانہ قاعدہ پیش کررہا ہے اور اپنی چوتھی تحریر میں حضرت عیسیٰ بن مریم کے خلاف سازش کرنے والے یہودیوں کو عامل بالحدیث ٹھہرارہا ہے ۔ جب کہ پانچویں تحریراحادیث رسول کو سرےے غیر ضروری بک رہا ہے اور پھر چھٹی تحریر میں اہل حدیث کے منہج اور طرز عمل کو مذہب اسلام کے منافی قرار دے رہا ہے ۔
ان مذکورہ بالا چھ تحریروں پر ایک بار پھر نظرڈال کر اللہ انصاف اوردیانت داری کے ساتھ فرمائیے، کیا ایسا ملحد اور دشمن حدیث کبھی اہل حدیث ہوسکتا ہے یا کوئی خداپرست انسان ایسے مفتری اور فتنہ گرآدمی اہلحدیث باور کرسکتا ہے، ایمان سے بتلائیے کیا آپ نے اپنی ستراسی سالہ عمر میں کوئی ایسا غیر مقلد اہل حدیث کبھی دیکھا ہے یاسنا ہے جو حدیث رسول کے بارے میں ایسے ہفوات اور ہذیانات بکتا ہو۔ اورطائفہ منصورہ (اہلحدیث) ایسے بدبخت اور بے ایمان شخص کو اپنی جماعت کا فردو رکن سمجھتا ہو۔ اگر اہلحدیث کو مطعون کرنا ہی ٹھہرا تھا تو کیا اور کوئی گالی دنیا میں نہ تھی۔ افسوس کہ آپ نے بوالعجبی کو انتہا کرتے ہوئے اپنی موت کو بھی فراموشت کردیا۔ شاہ صاحب یہ مت بھولیے:
دیکھئے صاحب!
مرزا صاحب اپنی ساتویں تحریر میں اپنے حنفی مقلد ہونے کا کتنے غیر مبہم الفاظ میں اعلان کرر ہے ہیں اور پھر اپنے مریدوں کو بھی مذہب حنفی کی پابندی کی وصیت کررہے ہیں۔آپ کی سہولت کے پیش نظر ہم نے مرزا صاحب کے فیصلہ کن جملہ پر خط کھینچ دیا ہے۔ لہذا انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بتلائیے کہ مرزا صاحب کے حنفی مقلد ہونے میں اب کوئی ابہام رہ گیا ہے؏
اس سلسلے کی آٹھویں شہادت ، یعنی مرزا بشیرالدین احمد بن مرزا قادیانی کی وضاحت ذرا تکلیف کرکے اگر دوبارہ ملاحظہ فرمالیں، تو ان شاء اللہ چودہ طبق روشن نظر آئیں گے۔ الفاظ یہ ہیں: اصولاً آپ( مرزا قادیانی) ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی ظاہر فرماتے تھے اور آپ نے اپنے لیے کسی زمانہ میں بھی اہل حدیث کانام پسند نہیں فرمایا۔سیرۃ المہدی ج2 ص49.
مرزا بشیر احمد کی شہادت نے فیصلہ کردیا ہے کہ مرزا قادیانی اپنے بچپن سے حنفی مقلد تھا بلکہ جب وہ استعارہ کی صورت میں دس مہینوں تک حمل اٹھائے پھر رہا تھا اور پھر دسویں مہینہ کے تمام پر درد زہ کی تکلیف کرمزے لوٹ رہا تھا تو اس وقت بھی حنفی تھا۔ جب اس نےمسیح موعود بننے کےلیے پینترا بدلا تھا تو اس وقت بھی حنفی مقلد تھا۔ بعدازاں ترقی کرکے جب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تواس وقت بھی مقلد مذہب حنفی تھا۔ اسی طرح جب اس نے شیخ الاسلام وکیل اسلامیان ہند سردار جماعت اہل حدیث ہند، پاکستان، فاتح قادیان حضرت ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری کے ( تاثرتوڑ گرفتوں اور علمی اور اصولی حملوں سے تنگ آکر از خودیک طرفہ بددعا جھوٹے کے لیے جاری کردی تھی چونکہ خدا کی مرضی کے مطابق تھی) ساتھ آخری مباہلہ کیا تھا۔ تو اس وقت بھی حنفی مقلدتھا اورپھر جب اس ( پھر اپنی اس بددعا کے نتیجہ ہیں) مباہلہ کے منطقی نتیجہ میں1908ء میں برانڈ رتھ روڈ کی احمدیہ بلڈنگ کے ٹٹی خانہ میں ذلت کی موت مرا تھا تو اس وقت بھی حنفی مقلد تھا۔ معاف رکھیے گا یہ شہادت کسی غیر مقلد اہل قلم کی نہیں، بلکہ مرزا قادیانی کے ایسے فرزند دلبند کی گواہی ہے جسے اصولاً چیلنج نہیں کیا جاسکتا کہ وہ وفادرابیٹا ہونے کے علاوہ اپنے باپ کے ناپاک مشن کا خیرسے ترجمان اور وکیل بھی ہے گویا؏
لہذا شاہ صاحب بتلائیے
حسب سابق شہادیت9تا12 بھی اپنے مضمون میں بڑی واضح ہے ۔ خاص کر شہادت نمبر11 یعنی خلیفہ نوردین کا یہ کہنا کہ مرزا صاحب خاص کر حنفی المذہب تھے۔ مرزا قادیانی کی اپنی تحریروں کے بعد یہ بیان اس بحث میں فیصلہ کن ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے مرزا قادیانی کو حنفی مقلد ثابت کرنے کے لیے مزید کسی اندرونی یا بیرونی شہادت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔کیونکہ خلیفہ نوردین وہ آدمی ہے جو نہ صرف شروع سے ہی مرزا قادیانی کا ہمراز تھابلکہ وہ اس جنس شریف کے تمام سیاسی نشیب و فراز اور اس کے بناؤ وبگاڑ میں شریک اور اس کی زندگی کےہر موڑ میں اس کا وفادار صلاح کاررہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعداسی شخص کو خلیفہ بنایاگیا تھا۔ اس لیے خلیفہ نوردین کے اس فیصلہ کن بیان کے بعد ہم مزید کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
شاہ صاحب! کسی مدعی کے بارے میں یہ جاننے کے لیے کہ وہ کسی عقیدہ و قماش کا آدمی تھا؟
اہل تحقیق کے نزدیک اندرونی شہادتوں میں سے جو شہادت سب سے زیادہ معتبر اور حرف آخر سمجھی جاتی ہے وہ اس کی اپنی تحریریں اور اقبالی بیانات ہوتے ہیں۔ جو اس نے اپنا اور اپنی دعوت کا تعارف کرانے کے لیے جاری کئے ہوتے ہیں۔
اگر یہ بیانات میسرنہ ہوں تو پھر اس کی اولاد واخلاف کے توضیحی بیانات فیصلہ کن تسلیم کیے جاتے ہیں۔
اگر یہ بھی میسر نہ ہوں تو پھر اس کے قائم مکاموں اور مخلص کار پروازوں کی شہادتوں کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ عقیدہ و مذہب کے لحاظ سے کیسا اورکیا کچھ تھا؟ سوہم نے بحمداللہ تعالی وبحسن توفیقہ ہر سہ اقسام کی ایک دو نہیں بلکہ پوری ایک درجن مستند مفصل اور ناقابل تردید شہادتوں کے ذریعہ ثابت کردیا ہے کہ مرزا قادیانی مہد سے لے کر لحد تک ، یعنی بچپن سے لے کرتک، یعنی بچپن سے لے کر اپنی جوانی مستانی تک امتی سے ترقی کرکے متنہی بننے تک، پھر متنہی بن کر ٹٹی خانہ میں ذلت کی موت مرنے تک حنفی مقلد تھا۔ لہذا ان شہادتوں کے بعد مرزا قادیانی کو غیر مقلد تصور کرنا نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب