السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک عالم دین خطیب ، امام اور راسخ العقیدہ مسلمان اور ساتھ ٹیچر بھی ہوں، سکول ٹائم میں دوران پریڈ زراعت کی کاپی پر بار بار ہر صفحہ کے اوپر کی سطح پر ’’یارسول اللہﷺ‘‘ لکھا ہوا تھا میں نے بطور استاد سمجھاتے ہوئے اس طالبعلم کو یہ کہا کہ بیٹا یہ الفاظ پرنہیں لکھنے چاہیے۔کیونکہ یہ کاپی کسی دن ردی میں چلی جائے گی اور رسول اللہﷺ کے اسم مبارک کی توہین ہوگی اور ساتھ ہی میں نے یارسول اللہ کےحروف کے گرد دائرہ بھی لگایا اور میں بحیثیت مسلمان حلفاً کہتا ہوں کہ دائرہ لگاتے وقت میری نیت میں توہین رسالت مقصود نہ تھی اور نہ ہتک رسول اللہﷺ میرے حاشیہ خیال میں تھی۔ اللہ علیم وخیبر جانتا ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے حروف پر محض محبت رسول اللہﷺ اور ان کے احترام اور اکرام کےنیک جذبہ سے سرشار ہو کر یہ دائرہ لگایا تھا کیونکہ میں سلفی العقیدہ اہل حدیث ہوں اور اس پر سختی سے کاربند ہوں اور مسلک اہل حدیث میں رسول اللہﷺ کی شان رفیع اور جلالت قدر میں گستاخی کا تصور بھی کفر بواح اور ارتداد ہے۔ بعض حضرات میرے اس عمل پر معترض ہیں۔ لہذا آپ اس بارے میں قرآن وحدیث کے مطابق وضاحت فرمائیں کہ کیا میرے اس عمل میں شرعاً گستاخی کا شائبہ پایا جاتاہے؟(سائل: محمد یحیی صابر، بمقام بازید پورتحصیل و ضلع قصور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال اگر واقعی سائل نے اس طالبعلم کو رسو ل اللہﷺ کی تعظیم و تکریم کے تقاضے سمجھانے کے لیے لفظ’’ یارسول اللہﷺ‘‘ پردائرہ لگایا یا کراس لگایا ہے تواس کو توہین رسالت پر محمول کرنا شرعاً ہرگزجائز نہیں۔ کیونکہ یہ اس نے احترام رسول کے نیک جذبہ سےسرشار ہو کر دائرہ لگایا ہے تاکہ یہ کاپی کل کلاں ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی اوریوں اس لفظ کی بے ادبی ہوگی۔لہذا اس بات کی نیت پر حملہ کرنا اور اس بات کو اچھا لنا کسی طرح صحیح نہیں۔
واضح رہے کہ صحابہ کرام کے شفاف قلوب و اذہان میں رسول اللہﷺ کی جو بے پناہ والہانہ سچی محبت تھی ، وہ کوئی محتاج بیان نہیں۔ ہاتھ کنگن کو عارسی کیا؟ کی مصداق ہے اور جس قدر عشق رسول اللہﷺ ان کی رگ و پے میں خون کی طرح موجزن تھا، قلم کو اتنا یار انہیں کہ ان کے اس عشق کے الفاظ کے سانچے میں ڈھال سکے۔ بایں ہمہ مصلحت دینی کی بنیاد پر بعض صحابہ سے ایسی باتیں سرزد ہوئیں ہیں جو بادی النظر میں گستاخی لگتی ہیں۔ جیسے مثلاً
(1) صلح حدیبیہ کے صلح نامہ تحریر کرتے وقت حضرت علی نے محمد رسول اللہﷺ لکھ دیا۔ مشرکین نے اس پر اعتراض کی کہ اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو آپ سے جنگیں کیوں لڑتے؟ تو آپﷺ نے وقت کی نزاکت کے پیش نظر حضرت علی کو حکم فرمایا کہ لفظ رسول اللہ کو مٹا دو۔ مگر حضرت علی نے کھلے الفاظ میں اس لفظ کو مٹانے سے انکار کردیا۔ جو ظاہر بین کے نزدیک گستاخی ہے۔ مگر درحقیقت حضرت علی کی یہ حکم عدولی ان کی ایمانی غیرت’ تصدیق رسالت اور محبت رسول کا منہ بولتا ثبوت تھا جو ان کی لوح قلب پر کندہ ہوچکا تھ۔ اس لیے آپ ﷺ نے حضرت علی کی اس انکار کو گستاخی پرمحمول نہ کرتے ہوئے اس لفظ کو اپنے ہاتھ مبارک سے مٹا دیا اور کوئی سرزنش بھی نہیں کی۔ حالانکہ اس انکار میں بظاہر گستاخی جھلکتی ہے۔ الفاظ یہ ہیں:
«كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بَيْنَهُمْ كِتَابًا، فَكَتَبَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ المُشْرِكُونَ: لاَ تَكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، لَوْ كُنْتَ رَسُولًا لَمْ نُقَاتِلْكَ، فَقَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحُهُ»، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا أَنَا بِالَّذِي أَمْحَاهُ،»
’’حضرت محمدبن مسلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر آپ کعب بن اشرف یہودی کو قتل کرانا چاہتے ہیں تو آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اس کو شیشہ میں اتارنے کے لیے آپ کے خلاف کوئی بات کہہ سکوں تاکہ میں اس کو قتل کی کوئی تدبیر سوچ لوں۔آپ نے فرمایا: اجازت ہے۔ حضرت محمدبن مسلمہ نے کعب سے جا کر کہا کہ اس شخص ( رسول اللہ) نے تو ہمیں مشقت میں ڈال کر تکھا دیا ہے۔ ہم سے صدقہ کا تقاضاکرتا ہے ۔ تو کعب نے کہا: یہ رسول آپ کومزید پریشان کرےگا۔ کعب نے اس مشقت کو دنیوی مشقت باور کیا جبکہ حضرت مسلمہ کی نیت میں ترویج اسلام کے لیے جانی اور مالی قربانی اور عملی جدوجہد تھی۔ حدیث کے الفاظ یہ ہے:
«فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا، قَالَ: «قُلْ»، فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا صَدَقَةً، وَإِنَّهُ قَدْ عَنَّانَا»
آپ غور فرمائیں کہ کیا حضرت علی اور حضرت محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ دونوں باتیں گساخی ہیں؟ کیا رسول اللہﷺ نے یا کسی مفتی نے ان باتوں کو گستاخی رسول قرار دیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ حالانکہ بظاہر ان میں گستاخی جھلکتی ہے۔ ان دونوں واقعات سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہﷺ کے خلاف وہی قول وفعل گستاخی قرار پاتا ہے۔ جس کی بنیاد بدنیتی اور عناد رسول ﷺ ہوگا۔ نیک نیتی اور مصلحت دینی کے پیش نظر ایسی ہلکی پھلکی بات کو گستاخی قرار دیناشرعاً ہرگز جائز نہیں۔ کیونکہ صحت اعمال اور ثواب اعمال سب کے سب نیت پر موقوف ہیں ، جیسا کہ صحیح بخاری میں ایک تبویب یہ ہے کہ:
بَابٌ: مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالحِسْبَةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَدَخَلَ فِيهِ الإِيمَانُ، وَالوُضُوءُ، وَالصَّلاَةُ، وَالزَّكَاةُ، وَالحَجُّ، وَالصَّوْمُ، وَالأَحْكَام
اس بات کا بیان کہ اعمال بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں اورہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جو نیت کرے ۔ تو عمل میں ایمان وضو، نماز ، زکوۃ، حج، روزہ اور احکام آگئے۔ پھر امام بخاری اس ترجمۃ الباب کی موافقت میں یہ حدیث لاتے ہیں:
عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «العَمَلُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
یعنی یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلامخ کا مدار ہے ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے اکابرامت نے اس ایک ہی حدیث کو علم دین کا تہائی یا نصف حصہ قرار دیا ہے۔
حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اعمال نیت ہی سے صحیح ہوتےہیں یا نیت ہی کے مطابق ان کا بدلہ ملتا ہے ہر کسی کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ نیت کرے،جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرے گا، یعنی ان کی رضا کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہوگی اور دنیا کےحصول یا کسی عورت سے نکاح کرنے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہوگی جس کی وہ نیت کرےگا۔
لہذا جب سائل بحیثیت مسلمان اللہ تعالی کو گواہ بنا کر کہتا ہے کہ میں نے صرف طالبعلم کو ادب رسول کے تقاضے سمجھانے کے لیےلفظ یا رسول اللہﷺ پر دائرہ لگایاتھا تو پھر اس کے خلاف اشتعال پیدا کرنااور اس پر گستاخی رسول اور کفر کا فتویٰ لگانا شرعاً ہرگز جائز نہیں۔ جیسا کہ امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی میں%99 کفر کی باتیں ہوں اور %1 ایمان ہو تو ایسے آدمی کو کافر قرار دینا جائز نہیں۔ اس کو مسلمان سمجھنا چاہیے۔ امام مالک کے الفاظ یہ ہیں:
من صدرعنه ما يحتمل الكفر من تسعة و تسعين وجها ويحتمل الايمان من وجه حمل امره على الايمان
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب