السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مفتی محمد عبیداللہ عفیف صاحب، وحی کی ضرورت اور اس کی اقسام کتنی ہیں اور کیا کیا ہیں؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم چونکہ سرورکائنات حضرت محمدﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل کیاگیا ہے۔ اس لیے سب سےپہلے وحی کے بارے میں چندباتیں ضرورسمجھ لینی چاہیں۔
ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کے ذمہ کچھ فرائض عائد کر کے پوری کائنات کو اس کی خدمت لگادیا ہے۔ لہذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں۔ایک یہ کہ وہ اس کائنات سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھاک کام لے اور دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوئے، اللہ تعالی کےاحکام کو مدنظر رکھے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف ہو۔ ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو علم کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کون سی چیز کے خواص کیا ہیں، ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتاہے ؟ اس وقت تک وہ دنیا کی کوئی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا، نیز جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالی کی مرضی کیاہے؟ وہ کون سے کاموں کو پسند اور کن کو ناپسند فرماتا ہے۔ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی مہیا کیں ہیں، جن کے ذریعہ سےاسے مذکورہ باتوں کا علم ہوتا ہے۔ ایک انسان کےحواس، یعنی آنکھ، کان، منہ اور ہاتھ، پاؤں دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں، اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں، بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں اور دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہوسکتیں، ان کاعلم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔
علم کے ان تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے، جس کے آگے وہ کام نہیں دیتا۔ چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہوجاتیں ہیں، ان کاعلم نری عقل سےنہیں ہوسکتا۔ مثلاً: ایک دیوار کو آنکھ سے دیکھ کر آپ کویہ علم ہوجاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہے ، لیکن اگرآپ اپنی آنکھوں کو بند کرکے صرف عقل کی مددسے اس دیوار کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ ناممکن ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں ہوسکتیں۔ مثلاً: آپ صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ پتہ نہیں لگاسکتے کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے ، بلکہ اس نتیجہ تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔ غرض جہاں تک حواس خمسہ کا م دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی راہنمائی نہیں کرتی اور جہاں حواس خمسہ جواب دے دیتے ہیں۔ وہیں سے عقل کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن اس عقل کی راہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے۔ یہ بھی ایک حد پرجا کر رک جاتی ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے، مثلاً: ایسی دیوار کے بارے میں معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سےناراض ہوگا۔یہ نہ حواس کے ذریعہ ممکن ہے نہ عقل کے ذریعے۔ اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے اس کا نام ہے وحی، اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرما کر اسے اپنا پیغمبر قرار دیتا ہے ، اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے، اس کلام کو’’ وحی الہی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ وحی انسان کے لیے وہ اعلی ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اس کی زندگی سے متعلق ان سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے، جو عقل اور حواس کے ذریعہ سے حل نہیں ہوسکتے۔ لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی راہنمائی کے لیے کافی نہیں، بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی الہی ایک ناگزیر ضرورت ہے اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اسی جگہ آتی ہے۔ جہاں عقل کام نہیں دیتی ۔ اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہربات کا ادراک عقل سے ہی ہوجائے، بلکہ جس کی طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں،بلکہ حواس کاکام ہے۔ اسی طرح سے دینی عقائد کا علم حاصل کرنا بھی عقل کے بجائے وحی کا منصب ہے اور ان کے ادراک کے لیے نری عقل پر بھروسا کرنا درست نہیں ، جو شخص ( معاذ اللہ) اللہ کے وجود ہی کا قائل نہ ہواس سے تووحی کے مسئلہ پر بات کرنا بالکل بے سو د ہے ، لیکن جو شخص اللہ تعالی کےوجود اوراس کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے وحی کی عقلی ضرورت اس کے امکان اور حقیقی وجود کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں، اگرآپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کائنات ایک قادر مطلق نے پیدا کی ہے ، وہی اس کے مربوط اور مستحکم نظام کو اپنی حکمت بالغہ سے چلارہا ہے، اور اسی نے انسان کو کسی خاص مقصد کے تحت یہاں بھیجا ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہوکہ اس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اسے بالکل اندھیرے میں چھوڑ دیا ہواور اسے یہ تک نہ بتایا ہوکہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے؟ یہاں اس کے ذمہ کیا فرائض ہیں؟ اس کی منزل مقصود کیا ہے اور کسی طرح اپنے مقصد زندگی کو حاصل کرسکتا ہے؟ کیا کوئی شخص جس کے حوش و حواس سلامت ہوں ایسا کر سکتا ہے کہ اپنے کسی نوکر کوایک خاص مقصد کے تحت کسی سفر پر بھیج دے اور اسے نہ چلنے وقت سفر کا مقصد بتائے اور نہ بعد میں کسی پیغام کے ذریعہ سے اس پر واضح کرے کہ اسے کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے؟ اور سفر کے دوران اس کی ڈیوٹی کیا ہوگی؟ جس کی حکمت بالغہ سے کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ آخر کیسے ممکن ہے کہ جس ذات نے چاند، سورج، زمین، ستاروں اور سیاروں کاایسا محیر العقول نظام پیدا کیا ہو، وہ اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کوئی ایسا نظام بھی نہ کرسکے، جس کے ذریعہ انسانوں کو ان کے مقصد زندگی سے متعلق ہدایت دی جاسکیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی راہنمائی کے لیے کوئی باقاعدہ نظام ضرور بنایاہے، بس راہنمائی کےاسی باقاعدہ نظام کا نام وحی ورسالت ہے۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وحی محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں، بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے جس کا انکار درحقیقت اللہ تعالی کی حکمت بالغہ کا انکار ہے۔
وحی رسالت کا یہ مقدس سلسلہ سرکار دوعالمﷺ پر ختم ہوگیا، اب کسی انسان پر نہ وحی نازل ہوگی اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ آنحضرتﷺ پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی ہے۔صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کہ یہ صورت میرے لیے سب سےزیادہ سخت ہوتی ہے ، پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے وہ مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آجاتا ہے۔
اس حدیث میں آپﷺ نے وحی کی آواز کوگھنٹیوں کی آواز سے جو تشبیہ دی ہے شیخ محی الدین ابن عربی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایک وحی کی آواز گھنٹی کی طرح مسلسل ہوتی ہے اور بیچ میں ٹوٹتی نہیں، دوسرے گھنٹی جب مسلسل بجتی ہے تو عموماً سننے والے کو اس کی آواز کی سمت متعین کرنا مشکل ہوتا ہے،کیونکہ اس کی آواز ہر جہت سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور کلام الہی کی بھی یہی خصوصیت ہے کہ اس کی کوئی ایک سمت نہیں ہوتی بلکہ ہر جہت سے آواز سنائی دیتی ہے ۔ اس کیفیت کا صحی ادراک تو تو بغیر مشاہدہ کے ممکن نہیں ، لیکن اس بات کو عام دہنوں سے قریب کرنے کےلیے آپﷺ نےاسے گھنٹیوں سے تشبیہ دی ہے۔ (فیض الباری)
جب اس طریقہ سےآپﷺ پروحی نازل ہوتی تو آپ پر بہت زیادہ بوجھ پڑتاتھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسی حدیث کے آخر میں فرماتی ہیں کہ میں نے سخت جاڑوں کےدن میں آپﷺ پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھی ہے، ایسی سردی میں بھی جب وحی کا سلسلہ ختم ہوتا، توآپﷺ کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابورہوچکی ہوتی تھی۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب آپﷺ پروحی نازل ہوتی تو آپﷺ کا سانس رکنے لگتا ، چہرۂ انور متغیر ہوکر کھجور کی شاخ کر طرح زرد پڑجاتا، سامنے کےدانت سردی سے کپکپانے لگتے اور آپﷺ کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح چمکنے لگتے تھے۔ (الاتقان1؍46)
وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہوتی کہ آپﷺ جس جانور پر اس وقت سوار ہوتے، وہ آپ کے بوجھ سے دب کر بیٹھ جاتا اور ایک مرتبہ آپﷺ نے اپنا سراقدس حضرت زیدبن ثابت کی ران پررکھا ہوا تھا کہ اسی حالت میں وحی نازل ہوناشروع ہوگئی، اس سے حضرت زید کی ران پر اتنا بوجھ پڑا کہ وہ ٹوٹنے لگی۔ (زاد المعاد9؍8)
بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آپﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپﷺ کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔
٭......... وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپﷺ کی خدمت میں آکر اللہ کا پیغام پہنچا دیتا تھا۔ ایسےمواقع پر عموماً حضرت جبرئیل مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے، البتہ بعض اوقات کسی دوسرے صورت میں بھی تشریف لائے ہیں، بہر کیف جب حضرت جبرئیل انسانی شکل میں وحی لے کر آتے تو نزول وحی کی یہ صورت آپﷺ کے لیے سب سے آسان ہوتی تھی۔ (الاتقان1؍46)
٭......... وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل کسی انسان کی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصلی صورت میں دکھائی دیتے تھے، لیکن ایسا آپﷺ کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے۔ایک مرتبہ اس وقت جب آپﷺ نے خود حضرت جبرئیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کو خواہش ظاہر کی، دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کےمقام اجیاد پر پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں، البتہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے۔ (فتح الباری1؍19،18)
٭.........چوتھی صورت براہ ِ راست اور بلاواسطہ اللہ تعالی سےہم کلامی کی ہے۔ یہ شرف آنحضرتﷺ کو بیداری کی حالت میں صرف ایک بار، یعنی معراج کے وقت حاصل ہوا ہے، البتہ ایک مرتبہ خواب میں بھی آپ اللہ تعالی سے ہم کلام ہوئے۔ (الاتقان1؍46)
٭....... وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپﷺکے قلب مبارک میں کوئی بات القاء فرمادیتے تھے۔ اسے اصطلاح میں نفث فی الروع کہتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب