السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر ایک شخص بہت اچھا مسلمان اور نہایت ہی سمجھدار آدمی ہو تو اللہ رب العزت اسے ایک ایسا بچہ عطا فرمادیں کہ وہ جسمانی لحاظ سے معذور ہو، پھر جب یہ شخص اپنے معذور بچے کی طرف دیکھتا ہے تو اسے بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے ۔ بہر حال یہ شخص بدستور اللہ تعالی سے اپنے بچے کی صحت یابی کے لیے دعا کرتا رہتا ہے اور اس کےساتھ ساتھ اپنے بچے کا علاج معالجہ بھی کرواتا ہے لیکن بچے کی حالت بجائے ٹھیک ہونے کے خراب تر ہوتی جاتی ہے ۔ اپنے بچے کی حالت نہایت ہی خراب دیکھ کر یہ شخص اتنا سخت بےقرار سا ہوجاتا ہے کہ اللہ پاک کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ تونے ہمارے باقی سب رشتہ داروں کو تو تندرست اولاد دی ہے آخر مجھ سے تجھے کیا دشمنی تھی کہ جو تو نے میرے بچے کو معذور پیدا کیا اس کے علاوہ بھی یہ شخص اللہ پاک کی شان میں کئی گستاخانہ جملے استعمال کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کو گالیاں بھی نکال دیتا ہے ۔ پھر یہ شخص اسلام کے بارے میں بدظنی کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنی زبان سے کہتا ہے مجھےایسے اسلام کی کوئی ضرورت نہیں کہ جسے اختیار کرنے کی وجہ سے اتنے سخت دکھ اٹھانے پڑیں۔ لہذا میں اسلام کو چھوڑتا ہوں اور کفر کو قبول کرتا ہوں ۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد جب اس شخص غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تواسے کچھ احساس ہوتا ہے کہ ایسے کلمات کہنے کی وجہ سے شائد یہ کافر نہ ہوگیا ہو، لہذا اپنے دل کو تسلی دینے کی خاطر یہ شخص کلمہ طیبہ پڑھ لیتا ہے ۔ تین چار دن کے بعد اس کے بچے کی حالت پھر بہت خراب ہوجاتی ہے ، لہذا ایک دفعہ پھر یہ شخص غصے میں لال پیلا ہوجاتا ہے اور پہلے کی طرح پھر اللہ رب العزت کی جی بھر کربے ادبی کرتا ہے اور پھر اسلام کا انکار کرکے کفر کو اختیار کرلیتا ہے۔ اس دفعہ بھی غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد یہ شخص زبان سے کلمہ طیبہ کا اقرار کرلیتا ہے ۔ بس اب یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے حتی کہ پانچ چھ مہینے کے اندر اندر متعدد مرتبہ یہ شخص اللہ پاک کی توہین کرتا ہے اور اسلام کو الوداع کہہ کرکفر کو اختیار کرنے کا اقرار کرتا ہے اور بعد میں غصہ ٹھنڈا ہونے پر فوراً کلمہ طیبہ پڑھ لینا اس شخص کا معمول بن چکا ہے۔
آخر کار بعد میں ایک دن یہ شخص اللہ پاک سے عرض کرتا ہے کہ ’’ یا اللہ! تو میرے بچے کو ہر صورت تندرستی عطا کردے، چاہے مجھے جو مرضی سزا دینا او ربے شک مجھے جہنم میں پھینک دینا لیکن میرا بچہ ہر صورت میں تندرست ہوجانا چاہیے۔‘‘ وہ شخص اس نوعیت کی دعا چار پانچ روز مسلسل کرتا رہتا ہے او ر اس کے ساتھ ہی اپنے بچے کا علاج معالجہ بھی جاری رکھتا ہے۔ آخر رفتہ رفتہ اس کا بچہ صحت یاب ہونا شروع ہوجاتا ہے حتی کہ اس دعا کے کرنے کے بعد کوئی دوسال کے اندر اندر اس کا بچہ مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتا ہے۔ اب وہ شخص اپنے بچے کو اس طرح تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے اور اس خوشی میں اپنے گھر میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کرتا ہے۔ دعوت والے دن باتوں ہی باتوں میں وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کرتا ہے کہ میرا یہ بچہ بہت سخت معذور تھا تو میں نے تنگ آکر اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ چاہے مجھے جہنم میں جانا پڑے یا کوئی اور سخت سے سخت سز ا ملے لیکن یا اللہ ! تو میرے بچے کو ہر صورت تندرستی عطا فرمادے۔ تو پھر اس کا دوست اسے کہتا ہے کہ یہ تو نے بڑی سخت بات کہی، اب تیرا بچہ چونکہ تندرست ہوگیا ہے اس لیے اب یہی امید ہے کہ تو مرنے کے بعد جہنم میں جائے گا۔
خیر وقت یونہی گزرتا جاتا ہے اور پھر کچھ مدت گزرنے کے بعد اس شخص پر فالج کا ایسا سخت حملہ ہوتا ہے کہ جس سے اس کاایک بازو بالکل بے کار ہوجاتا ہے ۔ اب یہ شخص بہت گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے چونکہ اللہ تعالی کی بہت ہی زیادہ توہین کی تھی اور اسلام کا مذاق اڑایا تھا، اس لیے کہیں ایسا نہ ہوکہ اللہ پاک کا غضب مجھ پر نازل ہوا ہو، اور کہیں سچ مجھے مرنے کے بعد جہنم میں نہ جانا پڑ جائے۔ پھروہ شخص دن میں کئی مرتبہ صدق دل سے لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ(ﷺ) کا اقرار کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کی وجہ سے بہت پریشان ہے کہ اب آخرت میں میرا کیا بنے گا اور کیا اب اللہ رب العزت کے ہاں میرا اسلام لانا معتبر بھی ہے یا نہیں۔
تو اس سلسلے میں آپ سے کچھ سوالات پوچھنا درکار تھے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ ان سوالوں کےجوابات قرآن وسنت کے حوالہ سے ارشاد فرمائیں۔
1۔ کیا واقعتاً وہ شخص بار بار اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کرنے اوراسلام کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہوگیا؟
2۔ اگر کافر ہوگیا ہے تو آیا اب بھی اس شخص کے لیے اسلام کے دروازے کھلے ہیں یا نہیں؟
3۔ اگر اب بھی اس شخص کےلیے اسلام کے اندر داخلے کی گنجائش موجود ہے تو یہ شخص کس طریقے سے اسلام میں داخل ہوسکتا ہے؟
4۔ کیا اب اس شخص پر جہنم واجب ہوچکی ہے؟
5۔ اگر واقعتاً جہنم واجب ہوچیک ہے تو پھر اس شخص کے لیے اب جہنم سے بچنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب سوال نمبر1............. واقعی یہ شخص بار بار اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کرنے اور اسلام کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر بلکہ مرتد ہوچکا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَمَن يَكفُر بِاللَّهِ وَمَلـٰئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَاليَومِ الاخِرِ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا بَعيدًا ﴿١٣٦﴾...سورة النساء
’’ جو کوئی اس کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور قیامت کے دن کا تو وہ شخص بڑی دور کی گمراہی میں جاپڑا۔‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ تصریح فرماتے ہیں:
«إن تضمن ترك ما أمر الله بالإيمان به مثل الإيمان بالله, وملائكته وكتبه, ورسله, والبعث بعد الموت, فإنه يكفر به, وكذلك يكفر بعدم اعتقاد وجوب الواجبات الظاهرة المتواترة, وعدم تحريم المحرمات الظاهرة المتواترة»
جو شخص اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور بعث بعدالموت( یعنی مرنے کے بعد جی اٹھنے) پر ایمان نہ رکھے تو اس کی تکفیر کے جائے گی، یعنی بالاتفاق اہل السنۃ والجماعۃ اس کو کافر گردانا جائے گا اور اسی طرح وہ شخص بھی کافر ہے جو واجبات ظاہرہ اور متواترہ کے وجوب کا معتقدن ہو اور اسی طرح محرمات ظاہرہ اور متواترہ کی حرمت کا عقیدہ نہ رکھے وہ بھی کافر ہے۔
جواب نمبر2...... ہاں ایسے کافر اور مرتد اسلام کے دروازے کھلے ہیں، بشرطیکہ ہوپوری نیک نیتی اور مکمل اخلاص کے ساتھ اپنے کفر اور ارتداد سے تائب ہوکر اسلام قبول کرے گا تو اللہ تعالی کی اس کو بے پایاں رحمت اس اپنی لپیٹ میں لے لی، گی جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿قُل لِلَّذينَ كَفَروا إِن يَنتَهوا يُغفَر لَهُم ما قَد سَلَفَ وَإِن يَعودوا فَقَد مَضَت سُنَّتُ الأَوَّلينَ ﴿٣٨﴾... سورة الانفال
’’ آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دیئے جائیں گے اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو (کفار) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے ‘‘
اس شخص کی طرح جو کوئی ایمان کے بعد بلاکسی جبرو اکراہ کے از خود اس کے ساتھ کفر کرے یا اس کی گستاخیاں کرے تو ایسا شخص مرتد ہے جیسا کہ سورۃ النحل میں فرمایا:
﴿مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعدِ إيمـٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ ...﴿١٠٦﴾...سورة النحل
’’ جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو، ‘‘
فرمایا:
﴿ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذينَ هاجَروا مِن بَعدِ ما فُتِنوا ثُمَّ جـٰهَدوا وَصَبَروا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعدِها لَغَفورٌ رَحيمٌ ﴿١١٠﴾...سورة النحل
’’ جن لوگوں نے فتنوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر کا ﺛبوت دیا بیشک تیرا پروردگار ان باتوں کے بعد انہیں بخشنے واﻻ اور مہربانیاں کرنے واﻻ ہے ‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ تصریح فرماتےہیں:
ام جنس الذنب فان الله يغفره في الجملة الكفر والشرك وغيرهما يغفرها لمن تاب منها, ليس في الوجود ذنب لا يغفره الرب تعالى, بل ما من ذنب إلا والله تعالى يغفره في الجملة
’’ ہروہ بات جو گناہ کی جنس میں شامل ہے خواہ کفر اور شرک وغیرہ کیوں نہ ہو اللہ تعالی اس شخص کو بخش دیتا ہے جو سچی توبہ کرے۔‘‘
کوئی ایساگناہ موجود نہیں ہے جسے رب تعالی نہیں بخشتا۔ بلکہ ہر قسم کا چھوٹا بڑا گناہ اللہ تعالی بخش دیتا ہے ۔ لہذا سائل کو اللہ تعالی کی وسیع ترین رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر وہ سچی اور کھری کھری توبہ کرکے ایمان پر استقامت کا مظاہرہ کرے گا تو اللہ تعالی اس کے اسلام کو قبول فرمالے گا۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز ویرید اللہ ان یتوب علیکم. یزیدبرآں حقیقت ہے واللہ الموفق
اللہ تعالی تو ایسا غفور رحیم رحمان الدنیا والآخرۃ واجمہما ہے کہ اس نے تو کفر کے داعیوں اور کفر کی حمایت میں برسوں لڑنے والا والوں ابوسفیان بن حرب بن ہشام ، سہیل بن عمرو، صفوان بن امیہ، عکرمہ بن جہل وغیرہم کی توبہ قبول فرمائی تھی۔ بعد ازاں وہ بہترین اور مخلص ترین مسلمان ثابت ہوئے اور اللہ تعالی نے ان کو بخش دیا۔ وہ عمرو بن عاص جو کفر کا سب سے بڑا داعی اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ ایذا دینے والا تھا جب وہ مشرف بہ اسلام ہوا تو اس کے حق میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: یا عمرو ا اما علمت ان الاسلام یجب ماکان قبله وفی رواية الاسلام یهدم ما کان فيه۔
’’ اسلام سابقہ گناہ اور جرموں کو ختم کردیتا ہے۔‘‘
جواب نمبر3........... اگر سائل اللہ تعالی کی گستاخیوں اور اسلام کے انکار سے سچی توبہ کرکے تلافی مافات پر کمر بستہ ہوجائے، اللہ کو مضبوط پکڑلے اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرلے تو ان شاء اللہ الرحمان مسلمانوں کی صف میں شامل گنا جائےگا ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿إِلَّا الَّذينَ تابوا وَأَصلَحوا وَاعتَصَموا بِاللَّـهِ وَأَخلَصوا دينَهُم لِلَّـهِ فَأُولـٰئِكَ مَعَ المُؤمِنينَ ۖ وَسَوفَ يُؤتِ اللَّـهُ المُؤمِنينَ أَجرًا عَظيمًا ﴿١٤٦﴾...سورة النساء
’’ ہاں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں اور خالص اللہ ہی کے لئے دینداری کریں تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں، اللہ تعالیٰ مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا ‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿إِلَّا الَّذينَ تابوا وَأَصلَحوا وَبَيَّنوا فَأُولـٰئِكَ أَتوبُ عَلَيهِم ۚ وَأَنَا التَّوّابُ الرَّحيمُ ﴿١٦٠﴾...سورة البقرة
’’ مگر وه لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں، تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم وکرم کرنے والا ہوں ‘‘
پس سائل ان آیات میں مذکور طریقہ کے ساتھ توبہ کرے گا تو اللہ تعالی توبہ قبول فرمالےگا۔
جواب نمبر4....... اگر سائل نے مذکورہ بالا دونوں آیات میں مذکور طریقہ کے مطابق توبہ نہیں کی اور اسی حالت میں مرے گا تو بحکم قرآن اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ قرآن کا فیصلہ یہ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ جامِعُ المُنـٰفِقينَ وَالكـٰفِرينَ فى جَهَنَّمَ جَميعًا ﴿١٤٠﴾...سورة النساء
’’ یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ‘‘
ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَالَّذينَ كَفَروا إِلىٰ جَهَنَّمَ يُحشَرونَ ﴿٣٦﴾...سورة الانفال
’’ پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا ‘‘
جواب نمبر5..... اس سوال کا جواب اگرچہ اوپر لکھا جا چکا ہے ، تاہم مزید ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو شخص سچی توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کو اپنے اوپر لازم کرلے تو اللہ تعالی اس کو جہنم کے عذاب سے دور رکھے گا۔ اوراس کی سئیات کو حسنات میں بدل دےگا ۔ وہ آیت یہ ہے :
﴿إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّـهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾...سورة الفرقان
’’ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے والاہے ‘‘
جہنم کے عذاب سے بچنے کایہی طریقہ ہے کوئی اور طریقہ نہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمائے۔آمین
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب