آج کل رائج تسبیح جو کہ نماز کے بعد لوگ کرتے ہیں جو کہ دانوں میں پروئی ہوتی ہے ۔اس کا کیا حکم ہے ۔کیا یہ بدعت ہے یا نہیں ؟ یاد رہے کہ ہمارے ہاں ایک نابینا حافظ صاحب ہیں جو کہ اپنے آپ کو حافظ الحدیث کہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے یہ دانوں والی تسبیح ثابت ہے اور حدیث دارقطنی کا حوالہ دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر کوئی اس حدیث کو ضعیف ثابت کرے تو منہ مانگا انعام دوں گا۔ براہ مہربانی تفصیل بیان کریں
مروجہ آلہ تسبیح کا صریح ثبوت میرے علم میں نہیں نہے ،لہذا اس سےبچنا بہتر ہے۔ مجوز ین حضرات ان روایات سے استدلال کرتے ہیں جن میں گھٹلیوں پر گننا مذکور ہے ۔ مثلاً ایک عورت گھٹلیوں یا کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہی تھی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : تجھے میں اس کام سے زیادہ آسان وافضل نہ بتادوں ؟ پھر آپ نے اسے ایک دعاسکھائی ۔
دیکھئے سنن ابی داود کتاب الوتر باب التسبیح بالحصی حدیث :1500
اس کی سند حسن ہے ۔اسے امام ترمذی (3567) نے " حسن غریب " ابن حبان (الموراد:2330) حاکم 1/548) اور ذہبی نے صحیح کہا ہے ۔حافظ الضیاء المقدسی نے المختارہ میں ذکر کیا ہے ، بعض جدید "محققین" کااسے ضعیف کہنا غلط ہے ۔اس حسن لذاتہ روایت کے بہت سے شواہد بھی ہیں ۔ دیکھئے "المنحة في السبحة" للسیوطی (الحاوی للفتاوی 2/2)
دیگر آلات تسبیح تسبیح واذکار پڑھنا جائز ہے ، بدعت نہیں ہے ،تاہم افضل یہی ہے کہ ہاتھ کی انگلیوں پر یہ گنتی کی جائے ،۔
دارقطنی والی روایت فی الحال مجھے یاد نہیں ہے واللہ اعلم ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب