میں اسلام آباد میں گورنمنٹ ملازم ہوں ۔ جب کہ میرا اصل ذاتی گھر فیصل آباد میں ہے ۔اسلام آباد میں رہتے ہوئے تو میں نماز مکمل ادا کرتا ہوں،اگر فیصل آبا د میں دو یا تین دن کے لیے جاناہوتو وہاں قصر ادا کروں یا مکمل ؟ ( جبکہ بعض شیوخ سے پوچھا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں بھی مکمل نماز پڑھنی پڑے گی اور فیصل آباد میں بھی مکمل البتہ دوران سفر میں قصر پڑھوگے ، مکمل نماز پڑھنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اسلام آباد میں میں ملازم ہوں اور فیصل آباد میں مکمل س پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں میرا ذاتی گھر ہے اور ان کے بقول جہاں جائیداد ہو وہاں نماز مکمل پڑھنی پڑے گی) اب سوال یہ ہے کہ نماز قصر کے لیے علت سفر ہے یا ذاتی جائیداد کا نہ ہونا اس کی بھی وضاحت کردیں۔
نیز یہ بھی بتائیں کہ میری زوجہ اپنے والدین کے گھر میں نماز قصر ادا کرے یا مکمل ادا کرے یا اس کو بھی والد کی جائیداد کے حصہ دار ہونے کے لحاظ سے نماز مکمل پڑھنی پڑے گی ؟
صورت مسؤلہ میں آپ کے لیے بہتر اور راجح یہی ہے کہ ذاتی گھر اور اسلام آباد دونوں جگہ پوری نماز پڑھیں ۔ چونکہ سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز ہے اور آپ کا مسئلہ اجتہادی ہے لہذا شک سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ دونوں جگہ نماز پڑھی جائے ۔ سفر میں پوری نماز پڑھنا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ۔ بلکہ سنن نسائی ( ج 3ص 122 ح 1457)وسنن دار قطنی (ج 2ص 188) کی ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سفر میں پوری نماز پڑھنے کو احسن یعنی اچھا قراردیا ہے ،
اس روایت کو امام دارقطنی نے حسن کہا ہے ،العلا بن زہیر جمہور کے نزدیک ثقہ راوی تھے اوران پرحافظ ابن حبان کی جرح مردود ہے ۔اس روایت کے کئی شواہد بھی ہیں ، مثلا دار قطنی (2/188ح 2275) اور بیہقی (3/141) نے صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ نبی ﷺ نے سفر میں نماز پڑھی ہے ۔ اسے امام دارقطنی " اسنادہ صحیح " کہا ۔اس کا راوی سعید بن محمد بن ثواب ہے ۔ جس سے ایک جماعت روایت کرتی ہے ۔اسے دارقطنی نے صحیح الحدیث یعنی ثقہ قراردیا ہے ۔امام ابن حبان نے کتاب الثقات (ج 8ص 272) میں " مستقیم الحدیث" کہا ہے لہذا شیخ البانی ؒ کا ارواء الغلیل (ج 3ص7)میں اسے 'مجہول الحال " کہنا صحیح نہیں ہے۔
مختصرا یہ کہ راجح قول کے مطابق سفر میں قصر کرنا افضل ہے اور پوری نماز پڑھیں گی ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب