سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز استسقاء کا طریقہ

  • 13417
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2465

سوال

نماز استسقاء کا طریقہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بلوغ  المرام  باب الاستسقاء  میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی  روایت  کا خلاصہ  یہ ہے کہ  نبیﷺ نے نماز  استسقاء نماز عید  کی طرح  پڑھی ۔( رواہ  الخمسہ  وصححہ  الترمذی  وابو عوانہ  وابن حبان ) اولا : روایت  ہذا کی (الف)  تخریج  درکار ہے ۔ ثانیا ؒ کیا اس  روایت  سے نماز استسقاء  نماز  عید  کی طرح  ( زائد تکبیرات  کے ساتھ) ادا  کرنی ثابت  وصحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت کہ " ثم صلي  ركعتين  كما يصلي  في العيد  "الخ  بلحاظ  سند حسن ہے ۔اسے  ابوداود  ( کتاب  الصلوۃ  باب  جماع  ابواب صلوۃ  الاستسقاء  وتفریھا ح  1165) ترمذی  (558) ابن ماجہ  (1266) اور احمد  (1/230، 269۔355) نے   روایت کیا ہے ،اسے ابن حبان  (الاحسان  4/229ح 2851،مواد الظمان :603) ابن  خزیمہ (1405) اور ابوعوانہ  (6/33 القسم المفقود ) نے صحیح کہا ہے۔  اس کے ایک  راوی ہشام  بن اسحاق حسن الحدیث تھے ۔انھیں  ابن خزیمہ  ، ترمذی  اور ابن حبان  نے ثقہ قرار دیا ہے ۔حافظ  ذہبی نے کہا: صدوق " (الکاشف  3/194 ت 6060)

اس روایت  سے امام شافعی  وغیرہ نے  یہ دلیل پکڑی  ہے کہ  صلوۃ  الاستسقاء  میں عیدین  کی طرح  بارہ تکبیریں  کہنی چاہئیں ۔ جب کہ جمہور  نے  اس کی یہ تاویل  کی ہے  کہ اس  سے عیدین  کی دو رکعتوں  جیسی  تعداد ،قراءت  بالجہر  اور خطبہ  سے پہلے  کی نماز مراد ہے ۔واللہ اعلم  ( دیکھئے  عون المعبود ج1ص 453)

 شوافع  نے امام شافعی  ؒ  کی تائید  میں ایک  صریح روایت  بھی پیش کی ہے ۔جس کاراوی  محمد  بن عبدالعزیز منکرالحدیث ہے ۔دیکھئے تحفۃ الاحوذی  (ج 1ص390)

جمہور نے اپنی  تائید  میں المعجم  الاوسط للطبرانی (ج 10 ص42 ح 9104) سے ایک روایت  پیش کی ہے جس کا راوی  عبداللہ بن حسین  بن عطاء ضعیف  ہے ( دیکھئے  تقریب  التہذیب  :3275)

 دوسرے  راوی  مسعدہ  بن سعد  العطار  کے حالات  نہیں ملے  لہذا یہ دونوں  روایتیں  ضعیف ہیں ۔اس سلسلے میں امام شافعی  ؒ کا مسلک  قوی ہے ۔ تاہم دوسرے مسلک پر بھی عمل کی گنجائش ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج1ص432

محدث فتویٰ

تبصرے