سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز تسبیح کی تحقیق اور اس کے مسائل

  • 13415
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1502

سوال

نماز تسبیح کی تحقیق اور اس کے مسائل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز  تسبیح  والی حدیث  صحیح ہے یا ضعیف ؟ اس  کی مختصر وجامع  تخریج کیجئے ۔اگر یہ صحیح ہے تو اس کے ضروری  مسائل بھی بیان  کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صلاۃ التسبیح  کے بارے میں میرے علم کے مطابق تین احادیث قابل حجت ہیں:

1)     حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ

2)     حدیث  (جابر  بن عبداللہ ) الانصاری  رضی اللہ عنہ

3)     حدیث  عبداللہ بن  عمر  و بن العاص رضی اللہ عنہ

 ان احادیث کی مختصر وجامع  تخریج  علی الترتیب  درج ذیل ہے :

 حدیث  ابن عباس رضی اللہ عنہ

 عبدالرحمن  بن بشیر  بن الحکم  النیسا  بوری : حدثنا  موسی  بن عبدالعزیز : حدثنا  حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ۔۔۔۔۔الخ  ( سنن  ابی داود : 1297 ، سنن  ابن ماجه : 1387)

اس  کی سند  حسن لذاتہ  ہے۔

اس حدیث  کے راویوں  کا تذکرہ  درج ذیل  ہے:

1)     عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ مشہور  جلیل القدر  صحابی ہیں ۔

2)     عکرمہ  ابو عبداللہ ، مولی  ابن عبا س، ان کی  حدیث  مسلم  میں مقرونا ً اور صحیح  بخاری  وسنن  اربعہ میں بطور حجت  موجود  ہے۔  حافظ  ابن حجر  فرماتے ہیں  : ثقة  ثبت  عالم  بالتفسير ‘ لم  يثبت  تكذيبه  عن ابن عمر  وال تثبت  عنده  بدعة "  ( تقريب  التهذيب : ٤٦٧٣)

 حافظ  ذہبی  فرماتے  ہیں: " ثقة   ثبت  اعرض عنه مالك  واحتج  به المجهور‘ كان  يري  السيف  فيما  بلغنا  " ( رساله  في الرواة  الثقات  المتكلم  فيهم  بما  لايوجب  الروص ١٨)

امام مالك  كا اعراض  كرنا  ان  کے  ضعیف ہونے دلیل نہیں ۔اور  " یری السیف " کی تردید  حافظ  ابن حجر  نے کردی ہے  لہذا عکرمہ  مذکور  کے متعلق اعدل  الاقول  یہ ہے کہ  وہ صحیح  الحدیث  ہیں ۔

3)  الحکم  بن ابان ، سنن  اربعہ  کے مرکزی  راوی  ہیں ،ابن معین  ،ابن   نمیر ،ابن  المدینی  ،احمد  بن  حنبل ۔ العجلی  المعتدل  اور نسائی  وغیرہم  نے  انھیں  ثقہ  قراردیا ہے ۔

  دیکھئے  تہذیب  الکمال  ( 2/ 239 بتحقیق بشار عواد )

ان  پر ابن حبان  ۔ ابن خزیمہ ،ابن عدی  اور عقیلی کی جرح  مردود  ہے۔

حافظ  ذہبی  نے کہا: "ثقة  ‘صاحب  سنة "الخ  (الكاشف  ج ١ص ١٨١)

 آپ  کے بارے  میں  جمہور  کی توثیق کو مدنظر  رکھتے  ہوئے اعدل الاقوال  یہ ہے کہ  آپ حسن الحدیث  ہیں ۔

4)  موسی  بن عبدالعزیز۔آپ سے ایک  جماعت  نے حدیث بیان کی ہے ۔ابن معین ۔نسائی ،ابوداود،ابن  شاہین  وغیرہم  جمہور  نے توثیق کی ہے ۔ صرف  ابن المدینی  اور السلیمانی کی جرح ملتی ہے  جو کہ   جمہور  کے خلاف  ہونے کی وجہ  سے  مردود  ہے لہذا آپ حسن  الحدیث  ہیں ۔

5) عبدالرحمن  بن بشر  بن الحکم  ، صحیح بخاری۔ صحیح مسلم  وغیرہما کے راوی  اور ثقہ ہیں ۔ ( تقریب التہذیب )

 بشر بن الحکم اور اسحاق بن ابی اسرائیل  نے ان کی متابعت  کر رکھی ہے ۔ ( المستدرک  ج 1ص318) اس کی سند میں کوئی انقطاع  علت یا شذوذ نہیں ہے لہذا یہ حدیث حسن ہے۔

 حدیث  کے متن  کا خلاصہ

 حدیث  ابن عباس رضی اللہ عنہ  کے متن  کا خلاصہ  درج ذیل ہے:

1)     چار رکعتیں  اس طرح  پڑھی جائیں  کہ ہر رکعت  میں سورہ فاتحہ  اور ایک  سورت  پڑھی  جائے ۔

2)     پہلی رکعت  میں قراءت  کے بعد، رکوع سے پہلے ، حالت قیام  میں" سبحان اللہ والحمد للہ ولااله الاالله والله اكبر " پندرہ دفعہ پرھا جائے۔

3)     رکوع میں یہی ذکر دس دفعہ  پڑھیں۔

4)    رکوع سے اٹھ کر دس  دفعہ  پڑھیں

5)    سجدہ اولی میں  دس دفعہ پڑھیں

6)     دو سجدوں کے درمیان جلسہ میں دس دفعہ پڑھیں۔

7)    دوسرے  سجدے میں دس دفعہ پڑھیں۔

8)     پھر سجدے سے اٹھ کر بیٹھیں  اور جلسہ  استراحت  میں دس  دفعہ پڑھیں ۔( کل تسبیحات 75)

9)     چاروں  رکعتیں  اسی طرح پڑھیں ۔

10)                         یہ نماز ہر ہفتہ ہر مہینہ ، ہر سال یا زندگی میں کم از کم ایک دفعہ پڑھیں ۔

 حدیث  (جابر ) الانصاری  رضی اللہ عنہ

أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَيْمٍ، حَدَّثَنِي الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِجَعْفَرٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ (الخ)  ( سنن ابی داود:1299،السنن  الکبری ٰ للبیہقی  ج 3ص 52)

ا س کی سند  صحیح ہے ۔ راویوں  کا مختصر تعارف درج ذیل ہے :

1) الانصاری  سے مراد جابر  بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ  ہیں ۔جیسا کہ  حافظ  مزی  نے تہذیب  الکمال ( قلمی  3/1666) میں اور حافظ  ابن حجر  نے" الامالی " میں صراحت  کی ہے۔ ( تخریج  الترشیخ لبیان  صلاۃ التسبیح  ص 49،الفتوحات  الربانیہ  ج 4ص 314)

2) عروہ  بن  رویم  : آپ  کو ابن معین ، دحیم  الشای  اور نسائی  وغیرہم  نے ثقہ  کہا ہے ۔ دیکھئے  تہذیب  الکمال (5/153)

صرف  مرسل  روایات  بیان  کرنے  کا الزام  ہے جو کہ  اصول حدیث  کی رو سے  کوئی  جرح نہیں  ہے لہذا آپ  کے بارے  میں  اعدل الاقول  یہ  ہے کہ  آپ  ثقہ ہیں ،

محمد  بن مہاجر  الانصاری  صحیح  مسلم  کے راوی  اور  ثقہ  حجۃ عابد " میں۔ ( تقریب التہذیب :1902)

لہذا یہ حدیث  صحیح  ہے ۔اس  کا متن  سابق حدیث  کے مشابہ  ہے۔

 حدیث عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ

 "حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُفْيَانَ الْأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ أَبُو حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ يَرَوْنَ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، الخ  ( سنن ابی داود: 1298)

اس کی سند  ضعیف ہے ۔ راویوں  کا تعارف  درج ذیل ہے  :

1)     عبداللہ بن عمر  بن العاص مشہور  جلیل القدر  صحابی  ہیں۔

2)     ابو الجوزاء  اوس  بن عبداللہ کتب  ستہ  کے راوی  اور ثقہ ہیں ۔ (التقریب :577،الکاشف  1/90)

3)      عمر بن  مالک النکری کی کمزور توثیق حافظ ابن حبان  نے کی ہے  جبکہ  بخاری  ۔ابن عدی نے جرح  کی ہے ، راجح یہی ہے کہ  النکر ی مذکور ضعیف  ہے

 جبکہ  عمران بن مسلم  نے اس کی متابعت  کر رکھی ہے ۔ ( النکت الظر اف ج 2 ص281)

 تنبیہ : عمروبن مالک مذکور نےایک روایت  بیان کی ہے کہ سیدہ  عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے قحط  کے دنوں  میں  لوگوں سے کہا : نبی کریم ﷺ کی قبر  پر چھت  میں سوراخ  کردیں ، لوگوں نے  ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی ۔( سنن  الدارمی  ج 1ص 43 ح 93)

 یہ روایت  متعدد وجوہ سے  ضعیف  ہے ،ان میں سے ایک  وجہ عمر و مذکورکا ضعیف  ہونا بھی ہے ،

اس تفصیل  سے معلوم ہوا کہ   حدیث ابن عباس  حسن لذاتہ  ہے اور اس کا ایک  شاہد صحیح ہے ۔ان کے علاوہ  باقی  جتنی  روایات ہیں  سب ملحوظ  سند  اور ضعیف  یا مردود ہیں  اور  عبداللہ بن عمرو العاص والی روایت  بطور  تنبیہ اور فائدہ کے ذکر  کی گئی  ہے۔ ؛

بعض  علماء  مثلا امام ترمذی ۔ابن الجوزی  اور العقیلی  نے صلاۃ التسبیح  والی روایات پر   جرح کی ہے ۔ جبکہ  شیخ الاسلام  عبداللہ بن المبارک  ۔خطیب  بغدادی ،ابو  سعد سمعانی ،ابو موسی  المدینی ۔حافظ  العلائی ،حافظ  البلیقینی، حافظ  ابن ناصرالدین  وغیرہم   نے  اسے صحیح  وحسن  قرار دیا ہے۔

 نماز تسبیح  سے متعلق  بعض  ضروری مسائل 

1)     فی کل جمعہ سے مراد جمعہ کا دن  یا ہفتہ کے سات دن  ہیں ۔ دونوں  مفہوم  محتمل ہیں جبکہ  اول راجح ہے ۔واللہ اعلم

2)     امام ابن المبارک  کی  تحقیق  یہ ہے کہ   اگر  یہ نماز رات کو پڑھی جائے  تو ہر  دو رکعتوں  پر سلام  پھیردیں  اور  اگر دن  کو پڑھی جائے  تو مرضی ہے کہ  ایک سلام سے چار رکعتیں  پڑھیں  یا دو  سلام پھیر دیں  ( سنن  الترمذی:481۔الحاکم  ج1ص 319 ۔320)

3)     اس میں قراءت  سرا ہی مسنون ہے ۔ تاہم رات میں معمولی  جہر سے  قراءت  کرنا بھی  جائز ہے ۔( الفتاوی  الکبریٰ  للبیہقی  ج1ص 191 لانہ  کسائز  النوافل )

4)     امام ابن المبارک  کے نزدیک  اگر کوئ شخص اس نماز  میں بھول جائے  تو سجدہ سہو میں دس  تسبیحات  نہیں پڑھے گا۔اس لئے کہ  اس حدیث  میں تسبیحات  کی کل تعداد  تین سو  ہے ۔ مقدار مذکورہ سے زیادہ نہیں کرنا چاہیے  ( سنن الترمذی :481)

5)    صلاۃ التسبیح  میں کسی  خاص سورت  کی تحدید  ثابت نہیں  ہے جو میسر  ہو پڑھ لیں ۔ ( دیکھئے  سورہ المزمل  :20 )

6)     احادیث  مرفوعہ سے ،اس  نماز  میں  جلسہ  استراحت  کا ذکر  صراحتا موجود ہے  لہذا بعض علماء ( مثلا ابن المبارک ) کے عمل  کی بنیاد  پر جلسہ  ترک  نہیں کرنا چاہیے ۔ یہی تحقیق  عبدالحئی  لکھنوی  حنفی کی ہے ۔( الآثار المرفوعۃ  بحوالہ  تحفۃ  الاحوذی  ج1ص 351)

7)     محقق اہل حدیث  مولانا  خواجہ محمد قاسم  ؒ  فرماتے ہیں :

 " نیز معلوم ہونا چاہیے  نماز  تسبیح  باجماعت کا ہرگز کوئی ثبوت نہیں ہے ،نہ مردانہ  کا نہ زنانہ کا ۔ زنانہ  کا ذکر میں نے  خاص طور اس لیے کیا  ہے کہ آج  کل  اس کا زیادہ  شوق  چرایا ہوا ہے ۔ یہ عام  طور  پر ماہ  رمضان  میں چاشت کے وقت  باجماعت  نماز تسبیح پڑھتی  ہیں حالانکہ  نبی ﷺ سے نہ رمضان کا ذکر  ہے ۔نہ جماعت  کا ذکر ہے  ،نہ چاشت  کا ذکر ہے ۔ ( حی علی الصلوۃ  ص 197)

 حنفیوں  کے نزدیک  ویسے بھی  تراویح  کے علاوہ  نفلوں  کی جماعت مکروہ ہے ۔

بعض لوگوں نے  عتبان  بن مالک رضی اللہ عنہ  کی حدیث  سے استدلال کرکے نماز تسبیح  کی جماعت  کو جائز قراردیا ہے ۔جس میں یہ ذکر ہے کہ  آپﷺ نے انھیں  چاشت  کی نماز پڑھائی تھی ۔(  مسنداحمد 3/43ح 16479)

  راجح یہی ہے کہ  عمومات   سے استدلال  کی بجائے نص کو اپنے  مورد پر خاص سمجھا  جائے ۔ ورنہ  کوئی "حضرت " اگر  سنن  راتبہ  مثلا رکعات  الظہر  وغیرہ  کی جماعت  شروع کردے  تو اسے  کس دلیل سے  منع  کریں گے ؟

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج1ص426

محدث فتویٰ

تبصرے