" حدیث اور اہل حدیث " نامی کتاب میں بارہ روایات لکھ کر یہ دعوی کیاگیا ہے کہ " عورت اور مرد کی نماز ایک جیسی نہیں بلکہ دونوں میں فرق ہے " ( ص 479 تا ص 483)
" حدیث اور اہل حدیث" نامی دیوبندی کتاب کی روایات مذکورہ پر علی الترتیب تبصرہ درج ذیل ہے:
1) عن وائل بن حجر ۔۔۔۔( معجم طبرانی کبیر ج 22ص18)
" ولم اعرفها" اور میں نے اسے نہیں پہچانا ۔ (مجمع الزوائدج2ص103 وج ص374)
ماسٹر امین اوکاڑی دیوبندی نے لکھا ہے کہ "ام یحیی مجہولہ ہیں" ( مجموعہ رسائل ج 1ص342 طبع اول )
مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے کہ جیسا کہ اصول حدیث میں مقرر ہے۔
* اس روایت سے مصنف ومفرق کا مدعا پورا نہیں ہوتا کیونکہ کندھوں اور کانوں تک دونوں طرح رفع یدین کرنا صحیح ہے اور سنت سے ثابت ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسی روایت میں رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین بھی موجود ہے۔ ( دیکھئے جزء رفع یدین حدیث : 25)
یہاں بطور فائدہ عرض ہے کہ ام الدرداء رضی اللہ عنہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں ۔ كانت ام الدرداء تجلس في صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهةّ
(صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب ستہ الجلوس فی التشہد قبل حدیث 827 التاریخ الصغٰیر للبخاری ج 1ص 223 تغلیق التعلیق لابن حجر ج 2ص 329)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نماز پڑھنے میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق کرتے ہیں وہ فقیہ نہیں ہیں ۔
3۔ عن ابن جريج قال :قلت لعطاء ____ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص239)
*یہ کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ عطاء بن ابی رباح کاقول ہے ۔اس قول کے آخر میں عطا فرماتے ہٰیں :" وان تركت ذلك فلا خرج " اور اگر عورت ایسا کرنا ترک کردے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
یعنی عطاؒ کے نزدیک عورت اگر مردوں کی طرح رفع الیدین کرے تو بھی صحیح ہے ۔ چونکہ یہ قول" حدیث اور اہل حدیث" کے مصنف کے خلاف تھالہذا اس نے خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چھپالیا ہے۔
1) عن يزيد بن ابي حبيب انه صلي الله عليه وسلم مر علي امراتين ( مراسیل ابی داودس ص،السنن الکبری للبیہقی ج2ص 223)
" باب الرجل فی دارالحرب وعندہ الثر من اربع نسوۃ " کے تحت لکھاہے کہ"وخالفهم من ذلك آخرون ___ وممن ذهب الي هذه القول ابو حنفية وابو يوسف رحمة الله عليهما وكان من الحجة لهم في ذلك ان هذا الحديث منقطع" یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے ۔امام طحاوی لکھتے ہیں کہ حديثا مقطعا لا يثبته اهل الخبر لانهم لايحبتون بالمنقطع "(ج1ص175،دوسرا نسخہ 1/104) یعنی (تمام) اہل خبر (اہل حدیث) منقطع حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے ، نیز دیکھئے شرح معانی الآثار (ج 1ص19، 57۔،ج 2ص130،183،459،280،281،324۔470، نسخہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
5َ) عن ابن عمر رضي الله عنه عنه مرفوعا:
*کنزالعمال حدیث :20202 حوالہ مذکورہ کے بعد لکھا ہوا ہے کہ عدق وضعفه /ابن عمر یعنی اسے ابن عدی کی کتاب الکامل فی ضعفاء الرجال (ج 2ص631) اور السنن الکبری للبیہقی (ج 2ص 223) میں یہ روایت ابو مطیع الحکم بن عبداللہ الیلی کی سند سے موجود ہے ۔
ابو مطیع جہمی متروک تھا۔اس پر جرح کے لیے دیکھئے میزان الاعتدال (ج 1ص 574) بعض لکھتے ہیں کہ وہ "صالح مرج "تھا۔
لیکن ابو حاتم رازی سے روایت ہے : "كان مرجئا كذابا " يعنی وہ مرجئی اور (نیک ہونے کے باوجود )جھوٹا تھا۔ ( لسان المیزان ج 2ص408)
6)عن ابي اسحاق عن الحارث عن علي___( مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص 279،السنن الکبری للبیہقی ج 2ص222)
* یہ سند ضعیف ہے ۔الحارث الاعور ضعیف رافضی تھا۔ بعض علماء نے اسے کذاب بھی قراردیا ہے ، اس تفصیل کے لیے تہذیب التہذیب وغیرہ کتب رجال کا مطالعہ کریں ۔
ابو اسحاق السبیعی مدلس تھے ۔ عن سے روایت کر رہے ہیں ۔خلاصہ یہ کہ یہ قول سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہی نہین "
وان روايته عن التابعين ّ" اور ان کی روایت صرف تابعین سے ہے ۔( تہذیب التہذیب ج 1ص 432)
معلوم ہوا کہ عبداللہ بن حارث بن جزء رحمہ اللہ سے بہت پہلے فوت ہونے والے ابن عباس ( متوفی 67ھ) سے بھی بکیر کا سماع ثابت نہیں ہے لہذا یہ سند منقطع ہے ۔
8)عن ابراہیم ۔۔۔۔( مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص 270 وبیہقی ج 2ص222)
* ابرعاہیم نخعی کے اس قول کی سند میں مغیرہ ( بن مقسم ) راوی مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں ۔ دیوبندیوں کی مستند کتاب " آثار السنن " حدیث :353 کے حاشیہ : 125 ص97 پر لکھا ہوا ہے کہ " قلت عنعنة المدلس كايحتج بها لمظنة التدليس " یعنی میں ( نیموی ) کہتا ہوں کہ مدلس کے عن سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی کونکہ تدلیس کا گمان ہے ۔
9) عن مجاہد ۔۔۔( مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص270)
*اس کا راوی لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف اور مدلس تھا ۔ حافظ ابن حجر کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اختلاط کی وجہ سے متروک ہوگیا تھا ۔ دیکھئے تہذیب التہذیب وآثار السنن حاشیہ تحت حدیث :210 اس کے باوجود نیموی صاحب نے لیث کی ایک رویت کو "واسنادہ صحیح " لکھ دیا ہے ۔انا للہ وانا الیہ رجعون
10) عن ابن عمر انہ سئل ۔۔۔۔( جامع المسانید ج 1ص400)
*اس کا بنیادی راوی ابو محمد الحارثی ( عبداللہ بن محمد بن یعقوب ) کذاب ہے ۔ دیکھئے میزان الاعتدال ولسان المیزان ، باقی راوی قبیصہ الطہر ی ، زکریا بن یحیی النیسا بوی ، عبداللہ بن احمد بن خالد الرازی ، زر بن نجیح وغیرہم ب مجہول ہیں ۔ جنہیں حارثی کے گھڑ لیاتھا ۔ دوسری سند میں بھی قاضی عمر بن حسن الاشنانی مجروح اور علی بن محمد البزار ،احمد بن محمد بن خالد اور زر بن نجیح سب مجہول ہیں۔ابن خسرومعتزلی نے بھی اسے اشنانی کی سند سے ہی روایت کیا ہے لہذا خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت موضوع ہے ۔
١١) عن ابي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: ((التسبيح للرجال والتصفيق للنساء )) یعنی نبی ﷺ نے فرمایا : تسبیح مردوں کے لیے ہے اور تصبیق ( ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرے ہاتھ کی پشت مارنا) عورتوں کے لیے ۔
(صحیح بخاری ج 1ص 160،ح1203 صحیح مسلم ج 1ص180 ۔ ح422، ترمذی ج 1ص 85 ح 369)
12) عن عائشه قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : ( لاتقبل صلوة الحائض الا بخمار) یعنی بالغہ عورت کی نمازاوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی ،
( ترمذی ج 1ص86ح 377،ابوداؤد ج 1ص 94 ح 641)
رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ، چاہے مرد ہوں یا عورتیں ۔لہذا جس طرح رسول اللہﷺ نے نماز یں پڑھیں گی۔ الا یہ کہ کسی خاص مسئلے میں صحیح دلیل سے فرق وتخصیص ثابت ہوجائے ۔ دوپٹا اور تصفیق کے بارے میں فرق تو حدیث سے ثابت ہے مگر نماز کے طریقے میں فرقس یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔اب آپ خود فیصلہ کریں کہ " حدیث اہل حدیث " جیسی کتابوں سے صحیح العقیدہ لوگوں کو کیوں کر کتاب وسنت سے ہٹایا جاسکتا ہے ؟ اس موضوع پر تفصیلی معلومات کرنے کے لیے میری کتاب " علمی مقالات" ( جلد اول) کا مطالعہ کریں جو یقینا تشفی کا باعث بنے گا (ان شاء اللہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب